تحریر و تصویر: قاسم یعقوب

وادی لیپہ ، آزاد کشمیر پاکستان کا سرحدی علاقہ ہے جس کے تقریبا تین اطراف بھارتی مقبوضہ کشمیر کی سرحد ہے، جب کہ صرف ایک راستہ جو نہایت بلند و بالا پہاڑوں سے گھرا ہے وادی میں داخلے کا راستہ ہے۔
مظفر آباد سے 35 کلو میٹر فاصلے پر واقع شہر ’’ہٹیاں بالا‘‘ سے جہلم دریا کے پار یک دم سنگلاخ پہاڑوں کی بلند ترین سطح سے گزر کے وادیِ لیپہ میں داخل ہوا جاتا ہے۔ اس وادی کی سطح سمندر سے اونچائی تقریبا 6300 فٹ بتائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس خطے کا درجہ حرارت نہایت معتدل اور خوشگوار ہوتا ہے۔

“لیپہ‘‘ لفظ کے معنی جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ سنسکرت لفظ ہے جس کےمعنی حسین وجمیل کے ہیں۔ لیپہ کے  متعلق کچھ باتیں ذہن میں رکھیے کہ
یہ وادی معروف معنوں میں سیاحتی مقام نہیں، یہ ایک گاؤں ہے جو نہایت خوبصورت کھیتوں اور پہاڑوں کے درمیان بہتی ایک ندی ’’قاضی ناگ‘‘ کے سرہانے واقع ہے۔ یہ ندی آگے جا کے نیلم دریا میں مل جاتی ہے۔
۔ پہاڑی گاؤں عموماً سہولیات کی کمی، صفائی ستھرائی کی لاپرواہی، مواصلات یعنی سڑکوں کی ناگفتہ بِہ حالت اور محدود سیاحتی نظاروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں آ کے بعض سیاح حضرات بہت زیادہ پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
۔ بنیادی طور پر لیپہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کا آخری علاقہ تھا جب تقسیم ہوئی اور کشمیر کے ایشو نے سر اُٹھایا تو اس وادی کا ضلع کپواڑہ کا تمام راستہ بند ہو گیا۔ یہ چھوٹی سی وادی اپنے تین اطراف راستوں کے آگے ایل او سی

بننےکی وجہ سےسکڑ کے رہ گئی۔ اگر نقشہ دیکھا جائے تو اس وادی کا مشرقی، شمالی اور شمال مغربی منہ  مکمل طور پر بند دکھائی دیتا ہے۔صرف جنوبی سمت ایک درّہ دائو کھن (بلندی 11700فٹ) کھلا ہے جس کا راستہ ریشیاں گلی اور لمنیاں سے ملا ہوا ہے جو شہر ہٹیاں بالا سے منسلک پہاڑی گاؤں ہیں۔ دونوں ممالک کی افواج نے اس وادی کو فوجی چھاؤنی کی شکل دے رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وادی میں داخلی اور خارجی راستوں پر عسکری ماحول چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔وادی کے مقیم بھی اس عسکری ماڑ دھاڑ کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ تقریباً ہر گھر کے باسی کے پاس ان تلخ یادوں کا پلندہ ہے۔ ہر گاوں میں زیرزمین محفوظ جگہیں بنائی گئی ہیں تاکہ سرحدی جھڑپوں کے وقت زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے فوری انتظام کیا جا سکے۔
۔ اس وادی کو چوں کہ داخلی راستہ دینا تھا لہٰذا ایک غیر فطری راستہ لمنیاں اور ریشیاں جیسے سنگلاخ راستوں کو جوڑ کے بنایا گیا جو داو کھن جیسے نہایت خوفناک اور غیر فطری راستے کی شکل میں نمودار ہوا۔
۔ ہٹیاں بالا سے اس وادی میں داخلے کے لیے محض ایک راستہ ریشیاں براستہ داو کھن ہے۔ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ہٹیاں بالا کی بلندی تقریبا ۳۰۰۰ فٹ ہے۔ تین ہزار کی بلندی سے تقریبا ساڑے گیارہ ہزار کے بلند مقام (داو کھن) تک یک دم چڑھائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معمولی سواریاں اور ڈرائیورز تو ایسا کرنے کا سوچیں بھی نا۔ اگر یہاں سرنگ بنا دی جائے تو یہ فاصلہ محض چار یا پانچ کلومیٹر سے زیادہ کا نہیں جو چھے سات منٹ کی کُل مسافت ہوگی۔
۔ وادی کے لوگ نہایت خوشگوار ، سادہ، خوبصورت اور مہمان نواز ہیں۔ یہاں کمرشل ازم نام کی کوئی چیز نہیں۔ لوگ اخلاص اور محبت سے حد سے زیادہ مملو ہیں۔ جونہی آپ ’’موجی‘‘ کے مقام سے اس وادی میں داخل ہوتے ہیں تو تقریبا آٹھ کلومیٹر تک ایک طویل وادی کا سامنا ہوتا ہے۔ یکے بعد دیگر چھوٹے چھوٹے دیہات برلبِ راہ دکھائی دیتے ہیں۔ندی کا شور ساتھ ساتھ سنائی دیتا ہے۔ اسی ایک سڑک کے دونوں اطراف نہایت خوبصورت کھیتوں کے چھوٹے چھوٹے رقبے دکھائی دیتے ہیں جو تقریبا ہر ایک دو کلومیٹر کے وقفے کے بعد دکھائی دیتے ہیں۔ ان کھیتوں میں چاول اور مکئی کی کاشت کا رجحان زیادہ ہے۔ اخروٹ اس خطے کا سب سے زیادہ خود رو درخت ہے جو جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے۔
۔ وادی کے نو دس کلومیٹر کے محیط پر واقع تقریباً آٹھ دس گاؤں جن میں موجی، انتلیاں، کپہ گلی، سید پورہ، اسیر کوٹ، نو کوٹ، چنیاں وغیرہ ہی کُل وادی کا حسن ہیں۔جو سڑک کے دونوں اطراف حسین کھیتوں میں چھوٹے چھوٹے لکڑی کے گھروں پر مشتمل ہیں۔ اس پوری وادی کی کُل آبادی محض چالیس ہزار تک ہوگی۔

وادی لیپہ کو سیاحتی مقام بنانے کے لیے اسے نیلم وادی سے جوڑنا بہت ضرروی ہے ۔نوسیری یا ٹیٹوال تک اس کا راستہ زیادہ آسان اور فطری ہے۔جہاں سے مظفر آباد تک رسائی بہت آسان ہو سکتی ہے۔
یہاں ہوٹلز کی شدید کمی اور صفائی ستھرائی کا بہتر انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے اس خوبصورت وادی کو محض ایک خوبصورت پہاڑی گاؤں سے زیادہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact