تحریر : کومل یاسین کوئٹہ
مرادنہ آواز عقب سے گونجی ! گڑیا اللّٰه کے نام پر کچھ دے دو ۔
وہ پلٹی سامنے میک اپ زدہ منہ ٬ کالی رنگت جس پر فراغ دلی سے سفید پاؤڈر تھوپا ہوا تھا جس کی وجہ سے رنگت سرمائی جھلک دے رہی تھی ۔ ہونٹوں پر بھڑکیلی سرخ سرخی٬ آنکھوں میں کاجل اور تاثرات کا امڈتا دریا جو کئی تاثرات کی عکاسی کر رہا تھا مگر ہر تاثر لمحے میں دوسرے تاثر کو ذائل کر دیتا تھا۔
میں نے جلدی سے پرس کھول کے سو کا نوٹ تھما کر آگے بڑھنے کی کی ۔ جا اللّٰہ تجھے کسی کا محتاج نہ کرے۔
میں پلٹی دماغ نے سگنل دیا دعا کراؤ زینب اللّٰہ دعا قبول فرماتا ہے۔ خود مانگ مانگ کر اب دل چاہ رہا تھا کوئی اور میرے حق میں دعا کرے میں نے التجا کی دعا کرو مجھے میری محبت مل جائے۔
سامنے کھڑی ادھوری مورت چونکی اور کہنے لگی جا اللّٰہ تجھے کسی کا محتاج نہ کرے۔ میں نے پھر پرس کھولا اور سو کا اور نوٹ دیتے ہوئے کہا دعا کرو مجھے میری محبت مل جائے ۔
مورت نے پھر سے کہا جا اللّٰہ تجھے کسی کا محتاج نہ کرے میں نے اتنی بار یہ عمل دہرایا کہ میرا پرس خالی ہوگیا۔
میں نے آنکھوں میں آنسووں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا دعا کرو نا مجھے میری محبت مل جائے !!!!!!
مورت نے کرب سے منہ موڑتے ہوئے کہا جا اللّٰہ تجھے کسی کا محتاج نہ کرے ۔ میں نے پلٹتے ہوئے ایک بار پھر سے کہا دعا کردے نا کیا پتہ تیری دعا سے میری تقدیر کا لکھا بدل جائے ۔
مورت نے میری طرف دیکھا اور کہا محبت کے کئی روپ ہیں اور محبت کا اصل روپ محتاجی ہے۔ انسان محبوب کا محتاج ہے ۔
تیرا ہر جذبہ احساس تیرے محبوب کی محتاجی کی وجہ سے ہے۔ اب کی بار میں پلٹ تھی۔ میں محبت کے نئے روپ سے واقف ہوئی تھی محبت کے ہزاروں روپ ہیں جن کو سمجھنے کے لئیے یہ زندگی بہت کم ہے ۔