ثاقب لقمان قریشی 
دوران لاک ڈاؤں ہزاروں افراد کی مدد کرنے والی خواجہ سراءصبا گل راولپنڈی سے تعلق رکھتی ہیں۔ انڈس ہومز، ٹرانس لائینز اور تڑپ کی بانی و صدر ہیں۔ چند ماہ قبل صبا نے اسلام آباد میں خواجہ سراؤں کیلئے ایک مدرسہ قائم کیا ہے۔ اسکے علاوہ اسلام آباد میں اپنا ایک کنال کا پلاٹ بھی مدرسے کے نام کر رکھا ہے۔صبا گل نے ہمیشہ اپنے زور بازو پر بھروسہ کیا۔ کبھی کسی فنکشن کی زینت نہیں بنیں۔بچپن میں تھوڑی سی بکریوں سے کام شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ریوڑ بنا لیا۔ چار بھینسوں سے دودھ کا کام شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ تعداد ڈیڑھ سو تک جا پہنچی۔صبا گل کی پیدائش ایبٹ آباد کی وادی للاں کے متوسط گھرانے میں ہوئی۔ خاندان پانچ بھائی اور دونوں بہنوں پر مشتمل ہے۔ صبا کی پیدائش نارمل لڑکوں کی طرح ہوئی۔ ہوش سنبھالنے کے بعد صبا کا رجحان لڑکیوں کے ملبوسات اور چیزوں میں ہونے لگا۔ صبا کہتی ہیں کہ انھیں گھر ہی سے باجی اور کھسرے کے القابات ملنے لگے۔ گھر کے نزدیک ہی مسجد تھی۔ صبا کے دادا جان، والد صاحب اور چچا مسجد کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے۔ دس سال کی عمر سے صبا نے مسجد کی خدمت شروع کر دی۔ مسجد کی صفائی کرتیں۔اس زمانے میں کنوئیں اور ٹیوب ویل نہیں ہوا کرتے تھے۔ پانی چشموں سے لانا پڑتا تھا ۔ قدرتی گیس نہ ہونے کی وجہ سے صبا گدھے پر جنگل جاکر لکڑیاں کاٹ کر لاتیں پھر نمازیوں کے لیئے پانی گرم کرتیں۔ لکڑیوں کا سٹاک کبھی کم نہ ہونے دیتیں۔ یہ سلسلہ دس سال تک جاری رہا۔ صبا کو بچپن ہی سے جانوروں سے بہت لگاؤ تھا۔ چند بکریوں سے کام شروع کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے بڑا ریوڑ بن گیا۔ صبا نے کبھی کسی کے ساتھ ذیادتی نہیں کی کبھی کسی کیلئے برا نہیں سوچا پھر بھی انھیں ہمیشہ حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ صبا زندگی کے دو ادوار کو مشکل ترین قرار دیتی ہیں۔ نوجوانی میں ایک بار صبا لکڑیاں کاٹنے کیلئے درخت پر چڑھیں۔ توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے درخت سے نیچے گر گئیں۔ گرنے کے نتیجے میں معدے میں چوٹ آئی۔ جس کی وجہ سے خون صبا کے پیشاب میں خون شروع ہوگیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صبا کی والدہ صاحبہ وفات پا چکی تھیں، بہنوں کی شادی ہوچکی تھی، بڑی بھابھی بھی خالق حقیقی سے جا ملیں تھیں۔ اب صبا کو گھر میں سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔ صبا پورے نو ماہ بستر پر پڑی رہیں۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ گاؤں کے ایک ڈاکٹر کی دوائی صبا کو راس آگئی اور طبعیت بہتر سے بہتر ہونا شروع ہوگئی۔صبا کو دنیا میں سب سے ذیادہ پیار اپنے والد محترم سے ملا ہے۔

صبا کہتی ہیں کہ جب بھی یہ گھر سے باہر کسی کام سے نکلتی ہیں تو انکے والد صاحب دعا کیلئے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور جب تک گھر واپس نہیں آتیں والد کے ہاتھ اٹھے ہی رہتے ہیں۔ جوانی میں خاندان اور گاؤں والوں کی بے جا تنقید سے تنگ آکر والد صاحب نے صبا کی نوکری چکوال ٹیکسٹائل مل میں کروا دی۔ صبا نے والد کے مان کی خاطر مل میں ایک سال کام کیا۔ یہ سال صبا کیلئے زندگی کا مشکل ترین سال ثابت ہوا۔ مل میں صبا کو بہت تنگ کیا جاتا۔ نوجوان انھیں تنگ کرتے، رات کے وقت جگا دیتے۔کبھی اٹھا کر لے جاتے۔ صبا روز جیتیں اور روز مرتیں۔ صبا ایک سال تک مل کے لوگوں کے ظالمانہ رویئے کو برداشت کرتی رہیں۔ بلاخر ایک روز تنگ آ کر صبا چکوال سے راولپنڈی کیلئے پیدل ہی چل پڑیں۔پھر اسکے بعد صبا اپنے کزن کے ساتھ راولپنڈی کے علاقے مغل آباد منتقل ہوگئیں۔ تین سو روپے کرائے پر مکان لیا اور خوب محنت کی صرف دو سے ڈھائی سال کی قلیل مدت میں صبا راولپنڈی شہر میں زمین خریدنے کے قابل ہوگئیں۔ پہلی مرتبہ پانچ مرلے کا پلاٹ پسند آیا جس کی قیمت اس وقت ساڑھے تین لاکھ روپے تھی۔ صبا نے کمیٹیاں ڈال رکھی تھیں جن کی وجہ سے کچھ پیسے جمع ہو جاتے تھے۔ پلاٹ خریدنے کے بعد اسے بنانے کیلئے مزید کمیٹیاں ڈالیں۔ صبا نے ایک لاکھ روپے کے عوض چار بھینسیں خرید کر دودھ کا کام شروع کیا۔ کاروبار کو وسعت دینے کیلئے ڈیرے پر بکرے اور دیسی مرغیاں بھی پالیں۔ اللہ پاک نے کام میں برکت دی اور کام بڑھنا شروع گیا۔ خالص دودھ کیلئے لوگ دور دور سے آیا کرتے۔ بھینسوں کی تعداد دن بدن بڑھتی چلی گئی۔ اب صبا پیسوں میں کھیلنے لگیں۔ دودھ کا کام سترہ سال تک آب وتاب سے جاری رہا۔ 2018ء بھینس کی ٹکر سے صبا زخمی ہوگئیں۔ جسکی وجہ سے دودھ کے کام کو خیر آباد کہنا  پڑا۔

صبا کہتی ہیں کہ ہوش سنبھالنے کے بعد انھوں نے کبھی اپنے والد سے ایک پائی نہیں لی۔ صبا محنت کرتی رہیں اور پیسہ چل کر انکے پاس آتا رہا۔ اپنے خاندان سے لے کر گاؤں بھر کی کسی بھی غریب لڑکی کی شادی ہوتی تو صبا تعاون کیلئے پیش پیش رہتیں۔ خدمت خلق کا جذبہ بچپن ہی تھا۔ عرصہ دراز سے لوگوں کی خدمت کر رہی تھیں۔ پھر منہ بولے بیٹے کے مشورے پر 2013ء میں انڈس ہومز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ جس کے قیام کا مقصد گھروں سے نکالے گئے، بے گھر اور بے سہارا بزرگ افراد کی کفالت کرنا تھا۔ ادارہ اب تک ہزاروں بزرگ افراد کی مالی معاونت، علاج معالجہ رہائش کی سہولیات سے لے کر کفن دفن کا اہتمام کرواتا ہے۔ 2020ء میں صباح نے ٹرانس الائینز اور تڑپ کے نام سے دو ادارے قائم کیئے جن کا کام خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے آگہی عام کرنا اور آواز اٹھانا ہے۔

 چند ماہ قبل صبا نے خواجہ سراؤں کیلئے دینی تعلیم اور مدرسے کے قیام کیلئے سوچنا شروع کیا۔ تو ایک معروف تاجر نےاسلام آباد میں واقع اپنا چھ مرلے کا مکان اس کارے خیر کیلئے وقف کر دیا۔ صبا دینی تعلیم اور ہنر سکھانے کے عمل کو مزید بڑھانا چاہتی ہیں اس مقصد کیلئے صبا نے اپنے ایک کنال کے پلاٹ کو مدرسے کیلئے وقف کر دیا ہے۔ جس پر چند ماہ میں کام شروع ہونے والا ہے۔صبا کہتی ہیں کہ اگر حکومت خواجہ سراؤں کو حقوق دلوانے کے معاملے میں سنجیدہ ہے تو اعلان کرے کے خواجہ سراؤں کے حقو عام انسانوں کے برابر ہیں۔ سکول، کالج، دفاتر، معاشرے اور معیشت میں خواجہ سراؤں کو برابری کی بنیاد پر حصہ دیا جائے تو خواجہ سراء بھی ملک کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content