کتاب : طیف عکس
صنف: افسانے
مصنفہ : فرح ناز
مبصرہ ۔۔۔۔۔خالدہ پروین
ور سٹائل تخلیق کار فرح ناز صاحبہ شاعرہ، افسانہ نگار اور ناولٹ نگار کی حیثیت سے ممتاز ہیں ۔معاشرتی مسائل پر گہری نظر ہونے کی بنا پر ان کی تحریریں قاری کے دل کو چھو لیتی ہیں ۔مختلف تحریروں پر فرح ناز کے ہلکے پھلکے مگر عمیق انداز کے حامل دبنگ تبصرے تخلیق کار کی سانس روکنے اور قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں ۔
کتاب کنجِ آبگیں میں موجود ان کا افسانہ “سفید کرتا” ادارہ “حریمِ ادب” کی جانب سے ادبی ایوارڈ حاصل کر چکا ہے ۔
سوشل میڈیا پر ان کے ناولٹ:
” محبت خواب کی صورت “
“ہائے رے محبت”
” شیشے میں زندگی”
“فصلِ خزاں میں نویدِ گل”
نے خوب پزیرائی حاصل کی ۔
شاعرہ کی حیثیت سے ان کی غزلیں اور نظم
“محبت بیچ ڈالو تم”
دل کو چھو لینے کا باعث ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“طیفِ عکس” میں موجود کہانیاں “بارِ حیات” ، ” قندیل” ، ” فطرس” ، “ہجرت” ، “نویدِ بہار” اور “جامِ سفال” منفرد عنوان کی حامل ہونے کے علاوہ نام نہاد انا ، معاشرتی دباؤ ، جاہلانہ سوچ اور رشتوں کی تبدیلی کے ساتھ رونما ہونے والی شدید جذباتیت کے عکاس ہیں ۔ بتدریج ارتقاء حاصل کرتی کہانیوں کا اختتام سوچ کو نیا رخ عطا کرتا ہے ۔
1: بارِ حیات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ایسے مرد کی کہانی جو پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کی بنا پر بچپن سے ہی والدین اور بہنوں کی امنگوں ،آرزووں اور توقعات کی گٹھڑی اٹھائے شب و روز معاشرتی دباؤ برداشت کرتا رہتا ہے ۔ بالآخر وہ وقت آجاتا ہے جب یہ دباؤ اسے ذہنی مریض بنا دیتا ہے ۔
عکس سے مطابقت رکھتی ہوئی اس تحریر میں مصنفہ نے معاشرے میں مرد کے مقام کو بیان کرتے ہوئے ایک تلخ حقیقت کو بہت عمدگی سے پیش کیا ہے کہ کس طرح سارے خاندان کی امنگوں کو پورا کرتے ہوئے اسے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹا پڑتا ہے ۔ سب کی خواہشات کی تکمیل اور معاشرتی مقام و مرتبہ کے حصول کے لیے اسے مختلف دباؤ اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ایسے سخت اور تھکا دینے والے حالات میں نفسیاتی اور اخلاقی سہارے کی کمی ذہنی دباؤ اور شخصی عدمِ استحکام کا باعث بنتی ہے ۔
ہر سمجھدار اور حساس قاری تحریر پڑھتے ہی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ایسا کون سا طریقہ اختیار کیا جائے کے خاندان کے مرد ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر ناکارہ ہونے سے محفوظ رہ سکیں ؟ جس کا جواب یہی ملتا ہے کہ صرف ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ ان کی معاونت کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے ۔
کہانی کا تانا بانا بڑی خوب صورتی سے بُنا گیا ہے ۔مواد کی ترتیب متاثر کن ہے ۔اختتام صرف حقیقت کو ہی واضح نہیں کرتا بلکہ تفکر کے بہت سے در وا کر دیتا ہے ۔
کہانی کی زبان و بیان قابلِ تعریف ہے ۔
2: قندیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہانی ہے اسمارہ اور حمزہ(انا پرست) کی ۔ دوست کے دفتر میں اسمارہ کے جاب کی پیش کش سے انکار کو اپنی ضد اور انا کا مسئلہ بناتے ہوئے انتقام پر اتر آتا ہے ۔ منصوبہ بندی کے تحت شادی کرنے کے کچھ عرصہ بعد نا صرف اس کی تعلیمی اسناد جلا دیتا ہے بلکہ پروانۂ آزادی پکڑاتے ہوئے اپنی طرف سے اس کی دنیا تاریک کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اسمارہ کی آنکھوں میں جلنے والی روشن قندیلیں اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں ۔
کہانی کا فلسفیانہ آغاز کہ
” ہر شخص کی دنیاوی قیامت مختلف ہوتی ہے ۔”
صرف مصنفہ کی پختہ سوچ وفکر کا اظہار ہی نہیں بلکہ پر تجسّس انداز میں قاری کو کہانی سے جوڑنے کا سبب بھی ہے ۔
کہانی کی flash back تکنیک قاری کو مرکزی کردار کے حال سے ماضی ،اور حال سے مسقبل کی امید کے سفر کو بہت خوب صورتی سے پیش کرتی ہے ۔
حمزہ کے ذریعے دولت مند مگر متکبر انسان کے کردار کی بہت عمدہ عکاسی کی ہے جو اپنی منفی سوچ کی بِنا پر پستی کے کسی بھی مقام تک جا سکتا ہے جیسے بد نیتی کی بنیاد پر شادی اور پھر مخالف کی تعلیمی اسناد جلا کر اور طلاق دے کر اس خام خیالی کا شکار ہو جانا کہ مخالف کو تباہ کر دیا ہے ۔
دوسری طرف اسمارہ کا کردار ایسا مضبوط اور مثبت کردار ہے جو نا صرف دباؤ کو برداشت کرتا ہے بلکہ قیامت گزرنے کے بعد بھی روشن مستقبل سے مایوس نہیں ہوتا۔
عکس کے تمام نکات کو اپنے اندر سموئے ہوئے نفسیاتی تجزیہ کرتی خوب صورت تحریر جس کے لیے مصنفہ داد کی مستحق ہیں ۔
3: فطرس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہانی ہے ایک تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے نوجوان (ساجد)کی جو رضائے الٰہی کے تحت جنم لینے کے باوجود گھر والوں اور معاشرے کی نظر میں مجرم ٹھہرتا ہے ۔پیدائش سے تا مرگ معاشرے کی جاہلانہ سوچ ، اللہ تعالیٰ کی رضا سے ناشکری ، باطن میں موجود شیطانیت کی بنا پر نارمل زندگی سے دور ہوتے ہوتے بالآخر موت کو گلے لگا لیتا ہے ۔
عکس سے مطابقت رکھنے والی عام سی کہانی کی خاصیت اس کا تلمیحاتی عنوان (فطرس) ہے جو اپنے وسیع مفہوم ، طویل بحث اور اس سے حاصل ہونے والے نتیجے کو سموئے ہوئے ہے ۔
عام سے موضوع کو اس قدر خوب صورت ادبی عنوان دینے پر مصنفہ کو ڈھیروں داد و ستائش ۔
کہانی میں ساجد کے کردار کے ذریعے نفسیاتی دباؤ اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تباہی کی عمدہ پیش کش کی گئی ہے ۔
زبان اور اندازِ بیان قابلِ تعریف ہے ۔
4: ہجرت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک قابل اور ہونہار طالبہ ، ایک مصنفہ اور شاعرہ کی کہانی جسے اس کی خوب صورتی اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر مخصوص مقاصد کی خاطر بیاہ کر لے جایا جاتا ہے۔محبت وجذبات کی قربانی کے بعد مجازی خدا کی طرف سے ملنے والی بے قدری ، آزادانہ لائف سٹائل کے اثرات اور جسمانی تشدد کے نتیجے میں رونما ہونے والی توڑ پھوڑ ناصرف حقیقی زندگی سے نکال کر جذباتی خلا میں پہنچا دیتی ہے ۔جس کا اظہار غائب دماغی کی صورت میں ہوتا ہے ۔
کہانی میں بڑی عمدگی سے معاشرے کے خود غرضانہ اور ظالمانہ رویے کو پیش کیا گیا ہے جو اپنے مقاصد کے لیے کسی معصوم کی زندگی داؤ پر لگانے سے نہیں گھبراتے جیسے کہ مسز ہمدانی ۔ مزید نا سمجھ والدین جو اولاد کی خوشیوں کو مال و دولت سے مشروط کرتے ہوئے معیار کی اہمیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا جیسا کہ فریال کی جذباتی اور تخلیقی تباہی کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔
جذباتی اور جسمانی ہجرت کے اثرات کی شدت کا بہت عمدگی سے اظہار کیا گیا ہے ۔
5: نویدِ بہار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زینب کے والد اپنی دقیانوسی ،جاہلانہ سوچ کی بنا پر بیٹیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں ۔ان کے نزدیک لڑکیوں کے لئے صرف اتنی ہی تعلیم کہ وہ گھر کا حساب کتاب اور بچوں کی تربیت کر سکیں ۔
میٹرک میں پوزیشن حاصل کرنے کے بعد پھپھو کی بھرپور سفارش سے ایف۔ اے کرنے کی اجازت تو مل جاتی ہے لیکن مزید تعلیم سے ممانعت کا پیشگی اعلان کر دیا جاتا ہے ۔ بس تصادم کے نتیجے میں پھپھو کا زخمی ہونا اور لیڈی ڈاکٹر کی عدم دستیابی کی بنا پر میل ڈاکٹر کے سامنے بے پردگی اور علاج کے نتیجے میں برداشت کرنے کی تکلیف باپ کی سوچ کو تبدیل کر دیتی ہے لہذا زینب کو ڈاکٹر بننے کی اجازت دے دی جاتی ہے ۔
مصنفہ نے بڑی عمدگی سے بند زنگ آلود تالے سے پھوٹنے والی کونپل کے عکس کی طرح باپ کے زنگ آلود ذہن سے نکلنے والی بچیوں کی تعلیم سے متعلقہ نئی سوچ کو تحریر کی زینت بنایا ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہر شعبے میں خواتین کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ خواتین پر عائد کی جانے والی بے جا قدغن خواتین کے لیے ہی مشکلات کا باعث ہے ۔
عکس سے مطابقت رکھتی ہوئی خوب صورت پیغام کی حامل تحریر کے لیے مصنفہ کو ڈھیروں داد و ستائش ۔
روز مرہ زبان اور سادہ اسلوب میں اپنے خیالات کو عمدگی سے پیش کرنا فرح ناز صاحبہ کا خاصہ ہے ۔اللہ تعالیٰ زورِ قلم میں اضافہ فرمائے ۔
6: جامِ سفال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکالماتی انداز میں شروع ہونے والی فرجاد اور مایا کی کہانی سوچ کے فرق کی بنا پر اعتراضات اور اختلافات سے بھرپور ہوتی ہے ۔ دونوں کی دوستی رشتے میں ڈھلنے کے بعد رنگ بدلنا شروع کر دیتی ہے ۔
حاکمیت کا جذبہ محبت پر غالب آنے لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ مالا کو اس کے کزن سلیم کی بائیک پر بیٹھے دیکھ کر فرجاد جذبہ رقابت سے پاگل ہوتے ہوئے مالا کی آمد پر پہلے اسے نظر انداز کرتا ہے ۔بعد ازاں مخاطب کرنے کی بنا پر ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے دیا جانے والا دھکا مایا کو مٹی کا ڈھیر بنا دیتا ۔
مٹی کے ڈھیر کے مٹی کی تہہ میں جانے کے بعد کوزہ گر کی نا صرف مٹی سوکھتی ہے بلکہ کوزہ گر کا کھیل ہی ختم ہو جاتا ہے ۔
مصنفہ نے بظاہر ایک چھوٹے سے واقعے اور مختصر مکالمے کے ذریعے حاکمیت ،رقابت اور نخوت کے جذبات کی عمدہ عکاسی کرتے ہوئے اس کا انجام ایسے متاثر کن انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری لرزتے اور عبرت حاصل کرتے ہوئے مثبت سوچ وفکر کو قبول کرنے کے لیے مائل دکھائی دیتا ہے ۔
عنوان “جام سفال” عکس سے موزونیت کی بنا پر اپنے اندر ناصرف ادبی چاشنی لیے ہوئے ہے بلکہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ بعض اوقات ہر جامِ سفال کا متبادل ناممکنات میں شامل ہوتا ہے ۔
منفرد عنوان اور اندازِ بیان کی حامل خوب صورت ادبی تحریر کی تخلیقی کاوش کے لیے مصنفہ داد و ستائش کی حق دار ہے ۔
تمام کہانیوں کے عنوانات ادبی ہونے کے علاوہ اپنے اندر وسیع مفہوم اور تجسس سموئے ہوئے ہیں۔عنوان کی انفرادیت قاری کو ریسر چ پر مجبور کر دیتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ مصنفہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہوئے قلم میں روانی ،افکار میں جدت اور اسلوبِ بیان کی تاثیر میں اضافہ فرمائے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.