تحریرو تحقیق : مرزافرقان حنیف تصاویر : خاور محمود
قلعہ کرجائی آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کی تحصیل کھوئی رٹہ میں واقع ہے۔ آزاد کشمیر کا ضلع کوٹلی خوبصورتی میں بے مثال ہے۔ اس کے شمال میں پونچھ ، جنوب میں میرپور، مشرق میں راجوری اور مغرب میں راولپنڈی واقع ہے۔ کوٹلی کو ضلع کا درجہ 1974 میں ملا۔ کوٹلی کی کُل آبادی تقریباً آٹھ لاکھ سولہ ہزار تین سو انسٹھ ہے۔
پہلے کوٹلی کی تین تحصیلیں تھیں۔ سہنسہ، کوٹلی، اور نکیال جبکہ موجودہ اسکی چھ تحصیلیں ہیں۔ کوٹلی،کھوئی رٹہ، فتح پور تھکیالہ، سہنسہ، چڑھوئی، دولیاں جٹاں۔ کوٹلی میں تاریخی عمارات کے آثار بھی موجود ہیں۔ کوٹلی میں قدیم آبادیوں کے نشانات بھی ملتے ہیں۔ کوٹلی میں موجود تاریخی قلعے قلعہ تھروچی قلعہ بھیرنڈ اور قلعہ کرجائی۔ قلعہ تھروچی کے متعلق معلوماتی مواد تحریری صورت میں پریس فار پیس کی ویب سائٹ پہ شائع ہو چکا ہے اور انشااللہ جلد کوٹلی میں موجود دیگر تاریخی مقامات کا تعارف بھی قارئین کے لیے پیش کیا جائے گا۔
قلعہ کرجائی کھوئی رٹہ کی دلکش و حسین وادی بناہ میں واقع ہے۔
کھوئی رٹہ ضلع کوٹلی، آزاد کشمیر کی ایک تحصیل ہے۔ تقریباً 38 کلو میٹر کوٹلی سے آگے ایک سڑک کھوئی رٹہ کی طرف نکلتی ہے۔ کھوئی رٹہ سے چار کلو میٹر فاصلے پر مائی طوطی صاحبہ کا مشہور مزار ہے، جسے دیکھنے کے لیے سیکڑوں افراد روزانہ آتے ہیں۔ کھوئی رٹہ میں محکمہ سیاحت کی طرف سے ایک ریسٹ ہاوس سیاحوں کی رہائش کے لیے دستیاب ہے۔
قلعہ کرجائی کی تاریخ۔
قلعہ کے متعلق متضاد معلومات ملتی ہے۔ اس کے متعلق اندازہ لگایا جاتا ہے کے یہ قلعہ کم و بیش 400 سو سال پرانا ہے۔ بعض روایات کے مطابق یہ قلعہ مغل بادشاہ اکبر نے تعمیر کروایا تھا اور بعض کے مطابق یہ قلعہ گورنر کشمیر ملک ظفر نے تعمیر کروایا تھا۔ قلعہ کی حتمی تاریخ کسی کو معلوم نہیں۔
قلعہ کی طرز تعمیر
قلعہ کی عمارت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ قلعہ دفاعی نقطہ نظر کے طور پر بنایا گیا تھا۔ قلعہ کی تعمیر مٹی، چونے، اور پتھروں سے کی گئی ہے۔ قلعہ کے اطراف بنی بلند اور مضبوط فصیل آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے جو اُس دور کی اپنی اہمیت آج بھی واضح کرتی ہے۔ چاروں اطراف پہرہ داروں کی چوکیاں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں جو اُس وقت دور دور سے آنے والے حملہ آوروں پر نظر رکھنے کے لیے بنائی گئی تھیں۔
قلعہ کرجائی کے دلکش نظارے
یہ قلعہ سطح سمندر سے 2500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ قلعہ کے مشرق میں پیرپنجال مقبوضہ کشمیر کے برفانی پہاڑ نظر آتے ہیں اور مغرب میں وادی بناہ کے خوبصورت نظارے۔قلعہ کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی توجہ کا منتظر یہ قیمتی اثاثہ تیزی سے اپنا وجود کھو رہا ہے حکومت کو چاہیے کے اس شاندار تاریخی ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرے –
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.