فرح ناز فرح

“امی امی! یہ دیکھیں میرے ہاتھ میں کیا ہے

– ارسل شور مچاتے ہوئے گھر میں داخل ہوا اس کے دونوں ہاتھوں کے بیچ کوئی تتلی تھی جو اس نے پارک میں بڑی جدو جہد اور  بھاگ دوڑ کے بعد حا صل کی تھی –

“کیا لایا ہے میرا بیٹا “  راحیل نے بڑے پیار سے پوچھا -اتنے میں رخشی بھی وہیں آگئی – ارسل نے دونوں ہاتھ آہستہ آہستہ کھولے تو تتلی نڈھال ہو چکی تھی اس کے پروں کا رنگ اتر چکا تھا پھر بھی آزادی کی فضا میں سانس لینے کی کوشش کی اور اڑنے کی کو شش کی مگر بے سود –

“ اوہو ! یہ تو مر رہی ہے آپ اس کو کتاب میں بند کردو پھر یہ آپ کے پاس رہے گی “ تتلی کی حالت دیکھ کر ارسل کا منہ اتر گیا مگر پپا کا مشورہ سن کر اس کے چہرے پر چمک آگئی –

“ یس! پپا میں اب تتلیوں کا البم بناؤں گا بابا ان کے رنگ اتنے کچے کیوں ہو تے ہیں “ ارسل کو نیا منصوبہ سوجھ گیا تھا جاتے جاتے وہ ایک سوال اور کر گیا –

“ کیونکہ یہ بہت نازک ہوتی ہیں “ راحیل نے جواب دیا رخشی صرف دیکھتی رہ گئی ارسل اوپر اپنی کتاب میں اک ادھ مری تتلی کا مدفن بنانے چلا گیا اور راحیل نے رخشی کو اوپر سے نیچے تک تنقیدی نظروں سے دیکھا اور چلنے کا اشارہ کیا وہ دونوں کسی پارٹی میں جانے کے لئے تیار تھے –

راحیل اپنے حلقۂ احباب حسن پرست اور رنگین مزاج مشہور تھا دولت شہرت اور پھر خاندانی رعب و جلال نے اس کی شخصیت پر بڑا گہرا اثر ڈالا تھا وہ خود بھی ایک خوب رو نو جوان تھا اس کی نصف بہتر گو کہ اس سے بہتر تھی مگر اس نے اس کو تنہائی میں بھی حدود میں قید کیا ہوا تھا

———————————————————-

وہ بکریاں چراتے چراتے کافی دور نکل آئی تھی شام ڈھلنے لگی تھی وہ جو اس جگہ کے چپے چپے سے واقف تھی ڈر رہی تھی کہیں اندھیرا نہ ہو جائے اور کوئی بکری ادھر اھر نہ ہو جائے وہ مخصوص آوازیں نکالتے اچھلتے کودتے واپسی کے راستے پے گامزن تھی کہ ایک جیپ اس کے بلکل قریب آ کے رکی وہ سہم کر پیچھے ہو گئی  اس کی نیلی آنکھیں بھورے بال اور سفید رنگت کسی کے دل میں اتر چکی تھی کہیں دور سے مغرب کی اذان کی آواز آرہی تھی وہ سولہ سال کی گاؤں میں پلی بڑھی لڑکی تھی لیکن لڑکیوں میں ایک چھٹی حس بھی ہوتی ہے جو خطرے کا احساس دلاتی ہے اس نے بھاگنا چاہا  لیکن ایک مضبوط مردانہ۔ ہاتھ نے اس کی کلائی تھام لی –

“کہاں رہتی ہو ؟ “ نرمی سے پو چھا گیا تو اس نے ایک طرف اشارہ کردیا –

“ چلو!” جانے کیسا حکم تھا وہ بکریوں کو ہانکتی گھر کی طرف چل دی ایک آدمی ساتھ ساتھ چل رہا تھا جبکہ جیپ بہت سست روی سے ان کا ساتھ دے رہی تھی -گھر نظر آنے پر وہ تیزی سے گھر میں گھس گئی بلکہ کمرے میں گھس کر ایک کونے میں چھپ گئی وہ لوگ کس طرح اس کے گھر میں آئے اور اس کے باپ سے کیا بات ہوئی کہ ایک گھنٹے بعد اس کی ماں نے کمرے میں آکر اسے گلے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا وہ ماں کو حیرت سے دیکھ رہی تھی –

“ کیا ہوا اماں ؟” اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا-

“ تیرے باپ نے تیرا سودا کر دیا میری گل جان “ اس کے سر پر جیسے آسمان گر پڑا وہ تو شہباز سے  منسوب تھی جو اس کی خالہ کا بیٹا تھا اس کے باپ نے جو دام اس کے لگائے تھے شہباز وہ جمع کرنے کے سلسلے میں شہر میں محنت مزدوری کر رہا تھا لیکن اس شہری بابو نے اس کے دام جو بابا کے ہاتھ میں رکھے وہ اس سے کئی گنا زیادہ تھے جو شہباز ساری زندگی بھی کماتا تو جمع نہ کر پاتا –

“بولو گل جان تم کو راحیل مسعود قبول ہے “ عشاء کی اذان کے بعد وہ آزاد تتلی راحیل کی منکوحہ تھی ادھ مری تتلی کی طرح ۔جیپ میں اپنا گاؤں چھوڑتے ہوئےاسے اب ذرا افسوس نہ تھا باپ سے نفرت کا بیج اس کے ننھے سے دل میں جگہ پا چکا تھا –

——————————————————-

“ تم ابھی کسی کو نہیں بتاؤ گی کہ تم کون ہو اور گھر سے باہر نکلنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں اور ایک ضروری بات تمہارا نام آج سے رخشی ہے “ راحیل نے ایک بنگلے میں اسے خفیہ طور پر رکھا اس کو بیوی کی ضرور ت نہیں تھی یہ ضرورت تو اس کی بغیر شادی کے بھی پوری ہو جایا کرتی تھی لیکن بہر حال ایک شو پیس ضروری تھا والدین کا اصرار بھی بڑھتا جا رہا تھا لہذا اس سے بہتر حل اسے نظر نہیں آیا پاپا اپنے بزنس پارٹنر کی بیٹی سے اور مما اپنی فرینڈ کی بیٹی کو بہو بنانا چاہتی تھیں وہ گل عرف رخشی کو پالش کر کے سب کے سامنے لانا چاہتا تھا وہ جانتا تھا کہ سب اس کی نیلی آنکھوں میں ڈوب جائیں گے وہ پشتو کے علاوہ کچھ بولنا نہیں جانتی تھی بلکہ ایسا لگتا تھا کہ وہ بولنا ہی نہیں جانتی بزنس کے سلسلے میں اسے ایک ماہ کے لئے یو کے جانا پڑا ادھر رخشی کی کڑی تربیت شروع ہو گئی

———————————————————-

رخشی بلو نیٹ کی ساڑھی کے ساتھ نازک سی میچنگ کی جیولری پہنے ہوئے تھی اس کے لمبے سنہری بال جدید تراش خراش کےبعد بل کھاتے اس کے کندھے پر پڑے تھے  چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد وہ اس قابل ہو گئی تھی کہ راحیل نے اسے اپنے والدین کے روبرو لا کھڑا کیا تھااس کے حسن کے آگے ان کوبھی چپ لگ گئی اور اس کی نیلی آنکھوں کے سحر میں کھو گئے اب بہت بڑا فنکشن ولیمہ کا تھا تاکہ اپنے ہم عصروں کو مر عوب کیا جا سکے کم عمری کےحسن کے آگے راحیل زیادہ دیر نہ ٹہر سکا اور چار سال میں ہی دو حسین بچوں کا باپ بن گیا ارسل باپ کی کاپی تو وریشہ ماں کی کاپی تھی بچوں کو پیدا ہوتے ہی گورنس کے حوالے کر دیا گیا رخشی کو اجازت نہ تھی کہ وہ اپنی مادری زبان کا کو ئی لفظ بول سکے باپ سے اسے نہ محبت رہی تھی نہ ملنے کی طلب ہاں ماں بننے کے بعد ماں کے لئے بہت تڑپی ایک مہنگا ترین موبائل ہمہ وقت اس کی انگوٹھیوں سے سجی انگلیوں میں دبا ہو تا مگر نہ کسی کی کال آتی اور نہ کسی کو کرنے کی اجازت تھی راحیل اس کے کمرے میں کم ہی آتا البتہ وہ جانتی تھی برابر والے پر تعیش بیڈ روم میں روز نشے میں دھت ہو کر کسی نئی تتلی کےرنگ اتار کر اسے اپنے البم میں سجا رہا ہوتا تھا رخشی کو  بھی اب ان چیزوں سے کو ئی فرق نہیں پڑتا تھا

———————————————————-

ارسل اٹھارہ سال کا کیا ہوا ایسا لگا کہ ایک نیا راحیل جنم لے رہا ہے رخشی بہت خوف زدہ تھی وہ ایک نیا راحیل معاشرے کو نہیں دینا چاہتی تھی اکیلے میں اکثر اسے اچھا برا سمجھانا چاہا لیکن سرکشی اور بغاوت تو اس کی گھٹی میں پڑی تھی ساس سسر کے گذر جانے کے بعد اب وہ کبھی کبھی گھر کے معاملات بھی دیکھ لیتی لیکن اس میں بھی راحیل کی اجازت کی ضرورت ہوتی تھی

“ راحیل وریشہ ابھی تک نہیں آئی آپ پتہ کریں “ اپنی دوست کی برتھ ڈے میں گئی وریشہ رات کے بارہ بجے تک نہیں آئی تھی پریشانی بجا تھی –

“ ڈرائیور کے ساتھ گئی ہے نا آجائے گی تم فکر نہ کرو جاکر سو جاؤ” راحیل نے بڑی بے فکری سے کہہ دیا اور وہ حیرت سے اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی-

دوسرا دن  قیامت خیز تھا ایک نیلی آنکھوں والی تتلی کے رنگ اتار کر اس کے پر بھی تو ڑ دئے گئے تھے اور اسے کسی کتاب میں محفوظ کر نے کے بجائے کسی کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا تھا رخشی راحیل کا گریبان پکڑ کر صرف یہ پو چھ رہی تھی کہ کیا میں رو سکتی ہوں ؟ میری تتلی کے کچے رنگ اتر گئے راحیل صاحب کیا اب میں رو سکتی ہوں ؟ وہ سپاٹ چہرے اور بے تاثر لہجے میں پوچھ رہی تھی وہ بھی تو ایک کچے رنگوں والی تتلی تھی ادھ مری مگر زندہ ، اس کی نیلی آنکھوں کا پانی خشک ہو چکا تھا بس چبھن تھی جو اب دل تک بھی پہنچ گئی تھی –

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact