Tuesday, May 21
Shadow

جامعہ الازہر | دانیال حسن چغتائی

دانیال حسن چغتائی

جامعہ الازہر عالم اسلام کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے۔

مصر کی الازہر یونیورسٹی اپنے علمی و ادبی معیار کی بدولت عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ الازہر یونیورسٹی کی بنیاد ایک مسجد پر رکھی گئی جس کا نام مسجد الازہر ہے۔ جب سسلی کی فوجوں کے کمانڈر نے خلیفہ المعاذ کے حکم پر مصر کو فتح کیا تو اس نے (358 ہجری ) میں قاہرہ (Cairo) کی بنیاد رکھی جس میں الازہر نامی مسجد بھی تعمیر کی گئی۔

مسجد کی تعمیر میں دو سال کا عرصہ لگا۔ اس مسجد میں پہلی نماز 7 رمضان المبارک 361 ہجری کو پڑھائی گئی۔ اس مسجد کو بعد میں یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا جو بعد ازاں جامعہ الازہر کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوئی۔ جامعہ الازہر اس وقت عالم اسلام کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے۔ تاریخ دان اس کا نام الازہر رکھے جانے میں اختلاف کرتے ہیں۔ ہر کوئی اس کی الگ وجہ بیان کرتا ہے۔ کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس کا نام الازہر اس لیے رکھا گیا کیونکہ جس وقت اس شہر کی بنیاد رکھی گئی اس جگہ پر خوبصورت مکانات بنے ہوئے تھے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کا نام حضرت فاطمتہ الزہرہ سے عقیدت و محبت کی بناء پر رکھا گیا۔ یہی توضیح زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس وقت کے مسلمان حکمران حضرت فاطمتہ الزہرہ کے خاندان سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے۔ مسجد کی تعمیر کے ساڑھے تین سال بعد یہاں مختلف علوم کی با قاعدہ کلاسز شروع کی گئیں۔ خلیفہ المعاذ کے ہی دور میں (رمضان 365 ہجری ) میں امام ابوحنیفہ کے بیٹے قاضی القضاء ابوالحسن علی النعمان الخیر وائی نے اپنے والد کی لکھی گئی کتاب الاختصار پڑھی جس سے سینکڑوں لوگوں نے استفادہ کیا۔ اس لیکچر میں شرکت کرنے والے تمام افراد کے نام یادداشت کے طور پر محفوظ کر لیے گئے۔ ابوالحسن پہلے شخص تھے جنہیں چیف جسٹس (قاضی القضاء) کے لقب سے نوازا گیا۔ الازہر میں ہونے والے اس سیمینار کی تقلید میں دوسرے تعلیمی اداروں میں بھی سیمینار کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

جامعہ الازہر میں ہونے والے سیمینار مذہبی موضوعات پر ہوتے تھے۔ تاہم ان پر سیاسی رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔ خلیفہ العزیز باللہ کے دور حکومت میں جامعہ الازہر میں تعلیمی اصلاحات کی گئیں۔ اسی دور میں خلیفہ العزیز باللہ کے وزیر یعقوب ابن کلیس نے جامعہ الازہر میں قانون کے متعلق اپنی کتاب الرسالہ العزیزیہ پڑھ کر سنائی۔ یعقوب ابن کلیس نے جامعہ میں تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لیے 30 قانون دانوں کو نوکری دی اور ان کے لیے ماہانہ تنخواہ اور جامعہ کے قریب رہائش گاہوں کا بندوبست کیا۔

جامعہ میں خواتین کی اخلاقی تربیت کے لیے بھی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ جامعہ کو دو سو سال تک عدالتی کارروائیوں اور ٹیکسوں کے نظام کی بہتری کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اور اس سلسلے میں جامعہ سے ہر قسم کی رہنمائی حاصل کی جاتی رہی۔ بغداد اور اندلس میں اسلامک کلچرل مراکز کی تباہی تک جامعہ کو اسلامی دنیا کے تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی۔ جامعہ میں ہونے والے سیمینار پہلے دن سے ہی خالصتنا تعلیمی و ادبی نوعیت کے تھے۔ ان سیمینارز میں شرکت بالکل مفت تھی اور بعض افراد کو وظائف بھی دیئے جاتے۔ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے جامعہ کے باقاعدہ اساتذہ کے علاوہ مختلف علوم کے ماہرین کو بھی لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا جاتا۔ سیاحتی اساتذہ کے ذریعے تعلیم دینے کا یہ نظام اتنا کامیاب ہوا کہ بعد میں مشرق و مغرب کے دیگر تعلیمی اداروں نے بھی اسے اپنا لیا۔

مملوکوں کے دور اقتدار میں جامعہ الازہر نے بہت ترقی کی۔ انہوں نے جامعہ کی بہتری کے لیے بہت سے اقدامات کیے۔ وسط ایشیا پر مغلوں کے حملے اور اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعد عالموں اور دانشوروں کے لیے زمین تنگ پڑ گئی۔ اس دوران زیادہ تر دانشوروں نے جامعہ الازہر میں پناہ لی۔ ان علماء کے آنے سے جامعہ نے بہت زیادہ ترقی کی۔ 8ویں اور نویں صدی ہجری میں جامعہ اپنے علمی معیار کی وجہ سے عروج پر تھی۔ جامعہ نے سائنسی علوم کی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ جامعہ کے کچھ دانشوروں اور اساتذہ نے علم الادویات، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ اور تاریخ کی ترقی کے لیے بہت محنت کی۔

جامعہ مصر میں سیاسی انتشار کے باوجود علمی و ادبی خدمات سرانجام دیتی رہی۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں جامعہ الازہر کو ملنے والے عطیات کی وجہ سے جامعہ خود مختار ادارے کی حیثیت اختیار کر چکی تھی ۔ علماء کو نئے نئے موضوعات پر تحقیق کرنے کے بھر پور مواقع میسر آئے۔ اس طرح جامعہ اسلامی اور عربی علم کا مرکز بن گئی۔ عثمانی حکمرانوں نے کبھی بھی جامعہ کے معاملات میں مداخلت نہ کی اور نہ ہی جامعہ کے بڑے عہدے “امام” پر اپنی مرضی کے آدمی لانے کی کوشش کی۔ اس بڑے عہدے کو مصریوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا تاکہ کوئی باہر کا آدمی جامعہ پر اپنا حق نہ جتا سکے۔

جولائی 1789ء میں جب نپولین بونا پارٹ نے مصر پر حملہ کیا تو وہ جامعہ کے تعلیمی معیار اور نظم و نسق سے بہت متاثر ہوا۔ نپولین نے اپنی ذاتی ڈائری میں جامعہ الازہر کے تعلیمی معیار کو پیرس کی سوربون یونیورسٹی کے معیار کے برابر قرار دیا اور وہاں کے اساتذہ اور طالب علموں کو عوام اور ملک کے لیے عظیم سرمایہ قرار دیا۔ نپولین نے مصر پر قبضہ کے دوران قاہرہ میں “دیوان” کے نام سے ایک مشاورتی کونسل بنائی جو حکومتی معاملات میں مشورے دیتی تھی۔ اس کونسل میں وہ علماء شامل تھے جس کے چیئر مین شیخ عبداللہ الشرکادی تھے جو الازہر یونیورسٹی کے بڑے امام تھے۔ دیگر علماء بھی جامعہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نپولین کی نظر میں الازہر یونیورسٹی کے علماء کی کیا وقعت تھی۔ جب انقلاب فرانس برپا ہوا تو اسی جامعہ میں فرانسیسیوں اور انقلابیوں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ اس کمیٹی کی صدارت شیخ محمد السادات نے کی۔ مذاکرات کی ناکامی پر انقلاب میں شدت آگئی جس کے نتیجہ میں بڑے امام اور دیگر علماء نے فیصلہ کیا کہ جامعہ کو نقصان سے بچانے کے لیے اسے بند کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنے طویل عرصہ کے لیے جامعہ بند کی گئی۔ تقریباً تین سال تک جامعہ میں کسی قسم کی تعلیمی سرگرمیاں نہیں ہوئیں۔ فرانسیسیوں کے جانے کے بعد حسب معمول تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

1805ء میں مصر میں محمد علی پاشا کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے مصر کو جدید ریاست بنانے کا ارادہ کیا۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسے جامعہ الازہر پر انحصار کرنا پڑا۔ اس نے جامعہ کے طلباء کو وظائف پر پڑھنے کے لیے یورپی ممالک میں بھیجا۔ ان طلباء نے جدید تعلیم حاصل کی اور واپس آ کر ملکی ترقی میں بھر پور کردار ادا کیا۔ ان طلباء میں سعد زغلول پاشا (وزیر اعظم ) ، محمدعبدہ وغیرہ نمایاں ہیں۔ جامعہ الازہر پر ایک دور ایسا بھی آیا جب مسلمان اور عیسائی علما  کر لوگوں سے خطاب کیا کرتے تھے اور اس قسم کے اجتماعات میں عوام شرکت کرتے تھے۔

19 ویں صدی کے آخری نصف میں مصر میں اسلامی تحریک شروع ہوئی جس نے جامعہ کو کافی متاثر کیا۔ 1872ء میں جامعہ نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت ڈگریاں جاری کی جانے لگیں۔ 1930ء میں دوسرا قانون پاس کیا گیا جس میں الازہر یونیورسٹی کے مختلف کالجوں اور فیکلٹیوں میں پڑھائے جانے والے مضامین کو دوبارہ منظم کیا گیا۔ جامعہ الازہر میں دنیا بھر کے مسلم ممالک سے طلباء داخلہ لے سکتے ہیں. بلا شبہ یہ مسلمانوں کے لیے سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact