Friday, May 17
Shadow

تربیت اولاد کے اسلامی اصول |دانیال حسن چغتائی

دانیال حسن چغتائی
اولاد کی تربیت صالح ہو تو ایک نعمت ہے وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے ۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اولاد کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت کو احسن طریقے سے ادا کرنا ہے اور انکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ قرآن و حدیث کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے ۔ ان کی امانت کو ادا کیا جائے ، ان کو آزاد چھوڑنے اور ان کے حقوق میں کوتاہیوں سے بچا جائے ۔کیونکہ اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے ۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح
تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے ۔ اپنی اولاد کی تربیت کے معاملہ میں سرد مہری کا مظاہرہ کرنے والوں کو کل قیامت کے روز جو کربناک
صورت حال پیش آسکتی ہے۔ اس سے اہل ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالی نے پہلے سے آگاہ کر دیا ہے۔ تاکہ وہ اپنی فکر کے ساتھ ساتھ اپنے اہل
عیال اور اپنی آل اولاد کو عذاب الٰہی میں گرفتار ہونے اور دوزخ کا ایندھن بننے سے بچا سکیں ۔
نیک اولاد کسی بھی انسان کے لئے بیش بہا قیمتی سرمایہ اور اللہ تعالی کی جانب سے گراں قدر عطیہ ہوتا ہے۔ اس لئے والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاں اپنے بچوں کی بہتر نشوونما کے لئے صحیح نگہداشت و پرورش کا سوچتے ہیں، وہاں ان کو چاہئے کہ وہ بچوں کی درست خطوط پر تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔ کیونکہ اگر آج ان پیارے اور لاڈلے بچوں کو پاکیزہ اخلاق اور نیک خصال سے آراستہ کر دیا جائے گا تو یقیناً آج کی یہ معصوم کلیاں مستقبل میں گلستان حیات کی خوبصورتی اور اس کی رونق کو دوبالا کرنے کا باعث ہوں گی اور اگر خدا نخواستہ اپنے پیش دنیا کی فکر میں بد مست ہو کر ان کی تربیت کا معالمہ لا ابالی پن کی نذر ہو گیا تو آنے والا وقت یقیناً والدین کے لئے بڑا اذیت ناک اور سوہان روح ہو گا۔
تربیت اولاد کے ضمن میں اسلام نے جس گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے، اسی کا یہ اثر ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم (جس میں ہماری اصلاح و درستگی اور فلاح و کامیابی کے تمام اصول و ضوابط رکھ دیئے گئے ہیں) سبھی اصول بتا دیتا ہے ۔
ماں باپ ، استاد اور معاشرے کا ہر فرد اللہ تبارک و تعالٰی کے سامنے نسل انسانی کی تربیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ ان لوگوں نے اگر نسل انسانی کو حسن تربیت سے آراستہ کر دیا ہو گا تو اس کی سعادت مندی کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی دنیا و آخرت میں سرخروئی حاصل ہو جائے گی اور اگر اسکی تربیت کے سلسلہ میں ذرا برابر بھی ان کی جانب سے کسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب ہوا ہو گا تو نسل انسانی کی شقاوت و بدبختی کا بوجھ ان سب کی گردنوں پر ہو گا یہی وہ بات ہے جس کو حدیث میں یوں بیان فرما گیا ہے :
تم میں سے ہر ایک ذمہ دار و نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اسکی رعیت کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ (بخاری/مسلم)۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں کچھ یوں الفاظ مذکور ہیں ۔
جب انسان کو موت آ لیتی ہے تو ہر قسم کے عمل کا تعلق اس سے کٹ جاتا ہے۔ مگر تین قسم کے اعمال ایسے ہیں جن سے اس کو برابر ثواب پہنچتا رہتا ہے اور وہ یہ ہیں۔
صدقہ جاریہ
علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں

نیک اولاد جو اس کے لئے دعائے خیر کرتی رہے۔
دوسروں کی تربیت کے فریضہ کو سرانجام دینے والوں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اس اصلاحی کام کی ابتدا اپنے آپ سے کریں۔ اس لئے کہ بچوں کی نظر میں اچھائی صرف وہ ہے جس کو والدین اور اساتذہ سر انجام دیتے ہیں اور ہر وہ چیز ان کی نگاہ میں گھٹیا ہے جس کے ارتکاب سے والدین اور اساتذہ احتراز کرتے ہیں اور بلاشبہ استاد اور والدین کا بچوں کے سامنے اعلیٰ کردار پیش کرنا ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
بچوں کی تربیت کے ضمن میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
بچے کو چھوٹی عمر میں ہی كلمہ کی صحیح ادائیگی کی تعلیم دینی چاہیے اور جب اس کی عمر بڑی ہو جائے تو مذکورہ کلمہ طیبہ کا یہ معنی و مفہوم اس کو ذہن نشین کرانا چاہیے کہ اللہ کے سوا کائنات میں کوئی سچا معبود نہیں ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں۔ اللہ تعالٰی کی محبت اور اس کے ساتھ ایمان کے بیج کو بچپن ہی سے بچے کے دل میں بو دینا چاہیے اور یہ بات اس کے ذہن میں بٹھا دی جائے کہ اللہ تعالی ہی تو ہے جو صرف اکیلا بغیر کسی معاون کے ہمیں پیدا کرنے والا، ہمارا روزی رساں اور پیش آنے والی مشکلات میں ہماری مدد
فرمانے والا ہے۔
بچوں کے دل میں جنت کے حصول کا شوق پیدا کرنا نہایت ضروری ہے اور اس سلسلے میں ان کو یہ بتایا جائے کہ جنت صرف اس کو ملے گی جو نماز ادا کرے ، روزہ رکھے اور اپنے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور ہر وہ کام بجا لائے جس کو اللہ تعالٰی پسند فرماتے ہوں۔
اگر ان چیزوں کا علم بچوں کو دے دیا جائے گا تو آنے والی نسل اسلام پر قائم ہوگی اور والدین کے لئے بھی اجر عظیم کا سلسلہ جاری رہے گا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact