انیس سالہ مصنف نور الدین ظہیر
انیس سالہ مصنف نور الدین ظہیر

وہ ملے تو نہیں انجان وقت میں
زخم تھا مجھ کو شاید درد وہ لے گئے
(نور الدین ظہیر)
الحمرا آرٹس کونسل کے ایک پروگرام میں نور الدین ظہیر کے لکھے اور پھر ان کی آواز میں پڑھے جانے والے اس شعر کونہ صرف ہال میں موجود لوگوں نے پسند کیا بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے اس شعر کوایک کروڑ سے زاید لوگوں نے سنا اور لکھنے والے کو سراہا بھی تھا۔
نور الدین ظہیر سے پہلی ملاقات ماہنامہ”پھول“ کے دفتر میں ہوئی۔نور الدین ظہیر انتہائی خاموش طبیعت کے مالک ہیں ۔ جتنی بات کی جائے اس کا مختصر اور سوچ کر جواب دیتے ہیں۔ ان سے ملاقات کے وقت اندازہ نہیں تھا کہ کس شخصیت کے بارے میں جاننے جا رہے ہیں لیکن جیسے جیسے سوالات کا سلسلہ شروع ہوا حیرت کے در وا ہوتے چلے گئے اور بے اختیار زبان سے نکلا نور الدین ظہیر کی قابلیت کو سراہا جانا بہت ضرور ہے۔
نور الدین ظہیر ہیں کون؟۔
نور الدین ظہیر کی عمر 19سال ہے لیکن قدو قامت کے لحاظ سے آپ کی عمر 5سال کے ایک بچے کی سی لگتی ہے۔ ایک لا علاج مرض نے آپ کو سپیشل بچوں کی فہرست میں شامل کر دیا۔یہ حادثہ کیسے ہوا ؟ اور علاج کیوں نہ ممکن ہوسکا ؟جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا۔
نور الدین ظہیر:میں پیدائشی طور پر بالکل ٹھیک تھا، عام دوسرے بچوں کی طرح۔ بچپن میں باقی بہن بھائیوں کی نسبت تھوڑا شرارتی تھا۔ میری عمر3سال تھی جب میں اپنے کمرے میں ایک بیڈ سے دوسرے بیڈ پہ چھلانگ لگانے کے دوران گر گیا۔ ان دو بیڈوں کے درمیان لوہے کی ایک راڈ لگی تھی۔ جب میں گرا تو وہ راڈ میری کمر پہ لگی ۔ چوٹ لگنے کے بعد میرے گھر والے مجھے چلڈرن ہسپتال لے گئے۔ کچھ مہینے علاج چلا لیکن کوئی خاص فرق نہ پڑا۔یہاں میں ایک بات اور بتا دوں کہ چوٹ لگنے کے بعدمیں دو ہفتے کومے میں رہا۔ ہوش آیا اور علاج چلتا رہا تو میری حالت اتنی بہتر ہو گئی تھی کہ میں چیزوں کو پکڑ کر چل لیتا تھا۔ لیکن 12سال کی عمر میں بالکل چلنا پھرنا بند ہوگیا اور میں بیڈ پہ آ گیا۔اس دوران نہ صرف لاہور، اسلام آبادبلکہ دیگر تمام شہروں کے بڑے چھوٹے ہسپتال میں علاج کے لیے گئے لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا کہ یہ بچہ اب نارمل بچوں کی طرح زندگی نہیں گزار سکتا۔ وہ دن اور آج کا دن میں اس کے بعد کبھی چل نہیں سکا۔
س: آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟ گھر میں اور کون کون ہے؟ بہن بھائیوں میں آپ کس نمبر پہ ہیں؟۔
نور الدین ظہیر:میں1نومبر2005ءکو لاہور میں پیدا ہوا ۔ہم تین بہن بھائی ہیں۔میں گھر میں سب سے چھوٹا ہوں۔میں نے16سال تک والدہ کی نگرانی میں پرورش پائی اور پھر اچانک3سال پہلے ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا(انا للہ وانا علیہ راجعون)۔ اور اب والد صاحب میری دیکھ بھال کرتے ہیں۔
س:والدصاحب کا کیا نام ہے؟ وہ کیا کرتے ہیں اور باقی بڑے بہن بھائی کیا کرتے ہیں؟اس کے علاوہ آپ کس شعبے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟۔
نور الدین ظہیر:والد صاحب کا نام ظہیر عباس ہے اورپیشے کے اعتبار سے ڈیزائنر ہیں۔ بڑے بھائی آرٹسٹ ہیں اور بہن ڈاکٹر ۔میں رائٹر ہوں۔
پھول سٹاف: ماشاءاللہ ۔ 4الگ الگ شعبوں سے وابستہ آپ کا گھرانہ کافی منفرد ہے۔ آپ کو لکھنے کا شوق کیسے ہوا۔تعلیم کہاں سے حاصل کی ؟ ۔
نور الدین ظہیر:میں نے تعلیم گھر میں حاصل کی۔ معذوری کی وجہ سے مجھے نارمل بچوں کے سکول میں داخلہ نہیں مل سکا۔ اس کے علاوہ سپیشل بچوں کے سکول میں داخلے کی کوشش کی گئی تو ان کا کہنا تھا ہم ذہنی معذور بچوں کو اپنے ادارے میں داخلہ دیتے ہیں جسمانی معذور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ہمارے پاس کوئی انتظامات نہیں ہیں۔ لہٰذا ایسے بچوں کو ہم داخلہ نہیں دیتے۔ میں نے جو کچھ پڑھا وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی زیر سایہ پڑھا اور پھر ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے پڑھائی جاری رکھی۔ میرا گھر میرا بہترین سکول ثابت ہوا۔
لکھنے کا شوق 12سال کی عمر میں ہوا۔ میں اپنے قومی شاعر علامہ اقبال کی شاعری سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے علاوہ بھی میں نے کئی لکھاریوںکی کتابیں پڑھیں۔کتابیں پڑھنے کے دوران ہی مجھ میں لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔
میں نے12سال کی عمر میں اپنی پہلی کتاب پہ کام شروع کیا جو شاعری کی کتاب تھی۔
س:اب تک آپ کتنی کتابیں لکھ چکے ہیں؟۔اور کن موضوعات پر لکھی ہیں؟ تفصیل بتائیں؟۔
نور الدین ظہیر:اب تک میں نے دو کتابیں لکھی ہیں ۔پہلی کتاب 2020ءمیں شائع ہوئی۔ یہ رومن انگلش میں لکھی جانے والی شاعری کی کتاب ہے۔ جس کا نام ہے مسافر(Traveler)

۔ میں نے اپنی پہلی کتاب کا انتساب اپنی والدہ محترمہ کے نام کیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بعد میرے والدین وہ ہستی ہیں جن کی وجہ سے میں نے یہ دنیا، یہ آسمان، دنیا کے نظارے دیکھے۔یہ چونکہ شاعری کی کتاب ہے ، لہٰذا اس میں لکھی جانے والی ایک شاعری سناتا ہوں۔جس کا عنوان ہے تاریخ:
تاریخ میری تھی عجیب
جہاں دیکھوں تو نظر آئے
کل ندی کے پاس
اور آج سوکھے پہاڑوں میں
شاید میری راہوں میں تیرے جیسا کوئی نہیں
میں انجان مسافر تیری گلی میں
نہ جانے کیوں؟ اپنا سایہ بھول گیا
(کتاب”مسافر “سے انتخاب)
میری دوسری کتاب شاعری اور نثر پر مشتمل ہے۔ یہ 2024ءمیں شائع ہوئی۔ اس کا نام ”سوال“ ہے۔ دوسری کتاب میری دراصل خود سے اور معاشرے سے لیے جانے والے سوالوں پر ہے۔ سوال ایک ایسا لفظ ہے جو مجھے اکثر پر تجسس کر دیتا ہے۔ کہتے ہیں جواب ایسا ہو کہ کوئی سوال نہ رہے ، پر میں کہتا ہوں کہ سوال ایسا ہو کہ اس کا کوئی جواب نہ رہے۔ اس کتاب میں لکھے جانے والے میرے سوالات اتنے کٹھن نہیں ہیں لیکن ان کا جواب بعض اوقات ہم دے نہیں پاتے، میرے یہ سوال زیادہ تر معاشرے سے نہیں بلکہ اپنے نفس سے ہیں، انہیں لکھتے وقت میں انہیں اپنے ضمیر سے دہرا رہا تھا اور چند سوالات کا جواب میں بھی نہیں دے سکا۔
س: آپ نے بتایا آپ کی دوسری کتاب نثر اور شاعری پر مشتمل ہے اس میں سے کچھ سنائیں؟۔
نور الدین ظہیر:
لوگ کہتے ہیں وہ نہیں ملا
بہت دن ہوئے میں خود سے نہیں ملا
ڈوب رہا تھا وہ اپنے ہی شہر میں نور
اسے کنارا ملا پر تُو نہیں ملا
دیکھ رہا تھا پاؤں کو کل شب
وہاں کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ملا
میں کس طرح محشر کی فکر کروں
میں تو ابھی اپنے خالق سے نہیں ملا
٭٭٭
کاٹ رہا ہے فصل، زندگی کے سوالوں میں
کٹ رہی ہے عمر، تیرے جوابوں میں
ڈھونڈتا رہا تھا تجھے، وہ اپنے خوابوں میں
مگر مل گیا تھا تو اسے، لفظی حوالوں میں
٭٭٭
اب میرا تجھ سے کوئی سوال نہیں بنتا
سو آج کیوںنا میں لفظِ تحریر کو نذرِ آب کر دوں
٭٭٭
س:زبردست! نور الدین جب آپ جسمانی معذوری کا شکار ہوئے تو اردگرد کے لوگوں اور گھر والوں کے کیا رویے دیکھنے کو ملے۔ خاندان والوں نے آپ کو اور آپ کی فیملی کو کیسے ڈیل کیا اور یہ کہ کبھی اپنی معذوری کو لے کر کوئی منفی سوچ آپ میں آئی ہو، یا اپنی زندگی کوبوجھ محسوس کیا ہو؟۔
نور الدین ظہیر:میری فیملی اور گھر والوں نے میرا بہت ساتھ دیا۔ کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔ اور جس منفی سوچ کا آپ نے سوال کیا اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ زندگی کا جب ایک مقصد ہو تو منفی سوچیں آپ پر حاوی نہیں ہو سکتیں ۔ میں نے اپنی معذوری کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور عہد کیا کہ میں کچھ کر کے دکھاؤں گا زندگی میں۔ اور دیکھیں آج میری پہچان ایک لکھاری کے طور پر ہو رہی ہے۔ اب تک کئی چینلز پر انٹرویو دے چکا ہوں۔ کئی ٹرانسمیشنز میں مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کر چکا ہوں۔
خاندان والوں کی بات کروں تو انہوں نے بھی بہت تعاون کیا۔ مجھے کبھی مایوسی کے اندھیروں میں جانے ہی نہیں دیا گیا۔ میرے گھر والے روشن دیپ کی طرح ہمیشہ میرے ساتھ اور مجھے سے آگے مجھے میری منزل کی جانب لے جاتے رہے۔الحمدللہ۔
س:کوئی ایسی خواہش جسے پورا کرنا چاہتے ہوں؟۔
نور الدین ظہیر: میں وزیر اعلیٰ پنجاب  سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ خصوصی افراد کے حوالے سے اپنے خیالات ان تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ مجھ جیسے جسمانی معذور افراد بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور حکومتی سطح پر ہمارے لیے کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہماری پڑھائی کے لیے ادارے نہیں ہیں۔جو ادارے سپیشل بچوں کو تعلیم دیتے ہیں وہ جسمانی معذور بچوں کو پڑھانے سے انکار کرتے ہیں۔ اس طرح اور کئی مطالبات ہیں جو میں ان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
س:آپ کا کوئی ایسا پیغام جسے آپ لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہوں؟۔
نور الدین ظہیر:میں سب سے پہلے والدین سے کہوں گا کہ بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ ہر طرح کے افراد کو ڈیل کر سکیں۔ معذور لوگوں کے حوالے سے بچوں کو آگاہی دیں۔ انہیں بتائیں کہ یہ بھی ہماری طرح کے انسان ہیں۔
بچوں کو چاہیے کہ وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے مشاغل پر بھی توجہ دیں۔ جس کام کو کرنے کا شوق ہے اس میں نکھار پیدا کریں۔ اپنی زندگی کا کوئی مقصد بنائیں تاکہ ایک کامیاب شہری کی پہچان آپ کا مقدر بنے۔
نوجوان خود کو پہچانیں۔ قائداعظم کے فرمان اور اقبال کی شاعری میں چھپے پیغام کو سمجھیں اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے محنت کریں۔
آخری بات:
”Never Give Up“
بہت شکریہ نور الدین ظہیر آپ کا۔
٭….٭….٭


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content