حشر کو دنیا سے اٹھا کیوں نہیں لیتے ۔۔۔۔۔۔حشر-کو-دنیا-سے-اٹھا-کیوں-نہیں-لیتے-۔۔۔۔۔

You are currently viewing حشر کو دنیا سے اٹھا کیوں نہیں لیتے ۔۔۔۔۔۔حشر-کو-دنیا-سے-اٹھا-کیوں-نہیں-لیتے-۔۔۔۔۔

حشر کو دنیا سے اٹھا کیوں نہیں لیتے ۔۔۔۔۔۔حشر-کو-دنیا-سے-اٹھا-کیوں-نہیں-لیتے-۔۔۔۔۔

ان اشعار کے لیے مرکزی خیال فیض احمد فیض کے درج ذیل شعر سے لیا گیا)

مِٹ‌ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
(منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں‌ نہیں‌ دیتے

مظہر اقبال مظہر

گر محشر ہی تیرے عدل کا مرکز ٹھہرا

تو حشر کو دنیا سے اٹھاکیوں نہیں لیتے

ہر آن جو دبتی ہے کسی مفلس کی صدا

تو افلاس کو دنیا سے اٹھا کیوں نہیں لیتے

یاں فکر معیشت ہے واں دغدغہ حشر

تو فکر کو ہستی سے اٹھا کیوں نہیں لیتے

رند کو واعظ ، واعظ کو گناہ کی وحشت

وحشت کو دنیا سے اٹھا کیوں نہیں لیتے

ہے جلووں میں بھی شوق دیدار کی آمیزش

توجلوت کو دنیا سے اٹھا کیوں نہیں لیتے

جو اس عہد کے لوگ ہیں طلب گارِ داد

تو جرم کو جرم سزا کو سزا کیوں نہیں کہتے


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.