تحریر: علی شاہد دلکش، کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج ، مغربی بنگال

مسلسل دس دنوں کی شدید گرمی اور جھلستی دھوپ کے بعد آج آسمان پر بادل گھرا ہوا ہے۔ کڑی دھوپ کی تمازت نہیں پھر بھی ایک عجیب سی اضطرابی ہے۔ میں کچھ سوچتے ہوئے اپنے کالج کے پرنسپل صاحب کے ساتھ صبح سویرے کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج کے کیمپس میں ٹہل رہا تھا۔ اچانک رفیقۂ حیات کا کال آیا۔ عموماً میرے گھر سے صبح سویرے کوئی کال نہیں آتا جب تک کہ کوئی سنجیدہ بات نہ ہو۔ کال یہ تھا کہ بڑے بھائی خواجہ احمد حسین کا موبائل نمبر  دیجیے۔ میں نے فوراً دے دیا مزید پوچھا، “کیوں؟” جواب ملا کہ باقر محلہ میں مقیم محمد اصغر صاحب (حبیب ھاشمی کے ہم زلف) گھر آئے ہیں۔ وہی مانگ رہے ہیں۔ یہ بتانے کی غرض سے کہ حبیب ھاشمی صاحب اب ہمارے درمیاں نہیں رہے! میں نے کال کاٹ کر فوراً ہوڑہ پی ایم بستی میں مقیم حبیب صاحب کے شاگردِ عزیز محمد علی طارق کو کال کیا۔ رابطہ نہ ہو سکا۔ تب میں نے خوش گلو شاعر طارق صاحب کے چھوٹے بھائی شارق کلکتوی کی نمبر پر رِنگ کیا۔ رابطہ ہوا اور پوچھنے پر جواب ملا کہ ھمارا علاقہ تو چھوڑیئے ان کے گھر کے اگل بغل تک تو ایسی کوئی خبر گردش نہیں کر رہی۔ میں نے کہا کہ یہ افسوس ناک خبر بالکل تازہ ہ تر ہے اور بہت ہی باوثوق ذرائع سے۔ تاہم بھیا کے ماتحت آپ ان کے گھر کے افراد سے رجوع کر پلیز کچھ دیر بعد تفصیلات کے ساتھ تصدیق کریں۔ نصف گھنٹے بعد فون آیا اور درحقیقت موت کی خبر کی تصدیق ہوئی۔ تب تک نعش ہسپتال ہی میں تھی۔ اس دوران یہ خبر سوشل میڈیا پر سرعت سے پھیل رہی تھی۔ بیشتر لوگ یہی لکھ رہے تھے، ”حبیب ھاشمی اب نہیں رہے ۔ ۔ ۔ !” تب ہی میرے ذہن میں زیرِ نظر شعر گردش کرنے لگا، جسے مقبول زمانہ نقیب و شاعر انورجلالپوری اکثر دوران نظامت پڑھا کرتے تھے۔

موت سے بچنے کی ایک ترکیب ہے

دوسروں کے ذہن میں زندہ رہو

حبیب صاحب میرے پسندیدہ شاعروں میں سے ہیں۔ ان کی شاعری اور ترنم دونوں محض مجھے ہی نہیں بہتوں کو بہت پسند ہے۔ لہذا ایسا شاعر فوت ہو کر عام لوگوں کی طرح کیسے منظرعام سے غائب یا فراموش ہو سکتا ہے۔ حبیبِ خدا کی مدح نگاری کے صلے میں مالکِ کائنات نے حبیب صاحب کو عالم گیر شہرت نواز رکھا ہے۔ انہوں نے ورچول یا آن لائن نہیں بلکہ فیزیکل/ آف لائن مشاعروں میں ہندوستان کے تقریباً سارے شہروں اورر صوبوں کے علاوہ پاکستان، خلیج ممالک دبئی، شارجہ، سعودی، جدہ، ابو ظہبی، کویت، اور امریکہ وغیرہ میں اپنی شاعری کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ نیز اپنی اہمیت بھی منوائی ہے۔ راقم المضمون (علی شاہد دلکش) کو بھی کلکتہ کے بھارتیہ بھاشا پریشد اور مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے مولانا آزاد آڈیٹوریم میں ڈائس پر بین الاقوامی شہرت یافتہ حبیب ھاشمی کی موجودگی میں اپنا کلام پڑھنے کی سعادت حاصل ہے۔ مشاعرے کے حوالے سے ایک بڑا معتبر اور کامیاب شاعر رہے ہیں حبیب ھاشمی۔ انہوں نے تقریباً چالیس برسوں تک مشاعروں اور کوی سمیلین میں خوب شرکت کی ہے۔ انہوں نے زندگی کو شاعری میں صرف برتا ہی نہیں ہے بلکہ شاعری کو جیا بھی ہے۔ اپنی کتابوں ”نور کی لکیر”-2020 (نعتیہ مجموعہ) اور شعری مجموعہ “آرزوؤں کی ہری شاخ” (زیرِ اشاعت) کے ذریعہ حبیب ھاشمی دنیائے شعر و ادب میں سدا زندہ رہیں گے۔ دل میں گھر کرلینے والی ان کی غزلیں، قطعات اور نعتیہ کلام جو مختلف ذرائع ابلاغ کے توسط سے خلاؤں میں ہنوز موجود ہے، جسے نسل در نسل سامعین سنتے رہیں گے۔ چونکہ ان کی شاعری میں ایک سحرکاری ہے جو ذہن و دل پہ اپنا گہرا نقش چھوڑتی ہے۔ لہذا وہ رہتی دْنیا تک شعری ادب کے ذریعے رحلت کے بعد بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رہیں گے۔ واضح ہو کہ ہوڑہ کی سر زمین کے جس شہر، علاقے یا خطے میں بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر رہتے ہیں، اس سے متعلق اپنے تاثرات و کسک کا اظہار اپنے شعر میں یوں کرتے ہیں :

جس شہر کی عظمت ہے میرے نام سے منسوب

اس شہر میں میرے لیے ایک گھر بھی نہیں ہے

ذہنوں میں گھر بنانے والے ماہر فن حبیب ھاشمی کی اس غزل کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی غزل کے مطلع میں موصوف شاعر نے ایک ایسا مضمون باندھا ہے کہ خواہ کسی بھی تعصب پسند اور ظالم حکومت کا دور ہو یا موجودہ زعفرانی دور ہو، ہر زمانے پر صادق آتا ہے۔ آج عام زندگی میں نیز سوشل میڈیا پر انتہا پسندوں کا ٹرول کرنا، بابری مسجد کو شہید کرنے والوں کا کیس سے باعزت بری ہونا، گجرات دنگا اور بلقیس بانو کیس کے مجرمان کا سزا نہ پانا مزید برآں آج مخصوص مذہبی پیروکار اور ان کی عبادت گاہوں کا محفوظ نہ ہونا، بہت بڑا المیہ ہے۔ اس کی عکاسی بھی خوب تر کی ہے۔ یہی اس مخصوص صنفِ شاعری کا کمال ہے اور حبیب ھاشمی کے فن کا بھی۔

حیرت ہے کسی ہاتھ میں پتھر بھی نہیں ہے

اور شہر میں محفوظ کوئی سر بھی نہیں ہے

حبیب صاحب ہوڑہ ہائی اسکول کے پرائمری سیکشن میں پڑھاتے بھی تھے ۔ یعنی بحیثیت استاذ سرکاری ماہانہ تنخواہ میسر تھی مزید مشاعروں سے بھی آمدنی کا راستہ ہموار تھا۔ شاعر خیرالانام دینی جلسوں میں بہترین اشعار پہ خوب داد اور انعام (چھوٹ) نوازے بھی جاتے۔ مگر ان کا ماضی مزدور کی بستی میں رہنے والوں کے ہی جیسا تھا۔ ان کا بھی سامنا دکھ اور مصائب و آلام سے ہوتا رہا اور رہتی زندگی تک مشکلات زندگانی سے دو دو ہاتھ کرتے رہے۔ ازدواجی زندگی کے صورتِ حال کی جانب نظریں دوڑائیں تو گھر پہ ایک اسپیشل چائلڈ اور اس کی تیمارداری مزید اسپیشل علاج کے لیے ان کی تمام تر آمدنی ناکافی ثابت ہوتی۔ اس وجہ سے یاسیت کے عناصر کا دخل ان کی غزلوں میں خوب ہے۔ غم زدہ حبیب ھاشمی عمر بھر زندگانی کی حقیقی خوشی اور خوشحالی کی تلاش میں مشاعروں کے حوالے سے دنیا کی خاک چھانتے رہے۔ اس کا اظہار شعری پیرہن میں یوں کرتے ہیں :

سامنے حال کا غم، پشت پہ ماضی کی تھکن

اب یہ رستہ مجھے منزل پہ نہ جانے دے گا

میری زندگی تیرا کیا ہوا ، تو کہاں گئی تو کدھر گئی

تیری چاہتوں کی تلاش میں میری ساری عمر گزر گئی

اس عالمی شہرت یافتہ اردو شعر و ادب کے سیاح کو بھلے ہی ان کا اپنا شہر ایک ذاتی مکان نہ دے سکا ہو مگر حبیب صاحب نے اپنے علاقے میں قائم ہوڑہ ھائی اسکول کو ایک قومی ترانہ دیا۔ یہ ترانہ اسکول کے فنکشنز میں اکثر پڑھا جاتا۔ لہذا نسلِ نَو کے نونہالان جب تک یہ ترانہ پڑھتے رہیں گے یا یوں کہہ لیجئے اسکول میں ترانہ پڑھنے کی روایت جب تک باقی رہے گی تب تک بھی حبیب ھاشمی مرحوم ذہنوں میں زندہ رہیں گے۔ ان کے لکھے ہوئے ترانہ کے چند اشعار ملاحظہ کریں:

نازشِ علم و ہنر تیری فضاؤں کو سلام

تیرے لطفِ خاص، تیری اداؤں کو سلام

درس گاہِ قوم وملت ، اے محبت کے شجر

تیری پرچھائیں سے چمکے کتنے ہی شمس وقمر

علم گاہِ نامیہ کس درجہ رخشندہ  ہے تو

حال اور ماضی کا سنگم، خواب آئندہ ہے تو

تو متاعِ اہل ہوڑہ ، تو متاع دوستاں

تو متاعِ اہل دانش، تو متاع عاشقاں

تو وہ گہوارہ کہ جس میں سینکڑوں ماہ ونجوم

پرورش پا کر بنیں گے ایک دن بحرِ علوم

یا خدا اس سائبانِ علم کو رکھنا مدام

تاکہ اس کی چھاؤں میں تعلیم پائیں خاص وعام

جہانِ کارگزار میں لوگوں کی تگ و دو، تغیراتِ روشِ زمانہ اور جہد مسلسل کے بعد رخسار و چہرے کے رنگوں میں تبدیلیاں، اس بھاگ دوڑ کی زندگی میں لوگوں کی مصروفیات اور غرض پرستی اور پھر کچھ حصولیابی کے بعد گرگٹ کی طرح رنگ کا بدلنا، حسداً ایک قابل شخص کے مد مقابل کسی نتھو خیرے کو کھڑا کرنا یا کسی مستحق کی جگہ غیر مستحق کو جانبداری سے لانا بھی انسانی سماج کا وطیرہ رہا ہے۔ لہذا متذکرہ تمام باتوں کے مدنظر ایک شاعر کا مشورہ حبیب ھاشمی کی زبانی اوران کی شاعرانہ فن کاری کوذیل کے اشعار میں دیکھیں :

دور جانا ہے ابھی آئینہ مت دیکھ اے دوست

سینکڑوں رنگ چڑھیں گے تیرے رخساروں پر

اس شخص کو کچھ لوگ بڑھا نے میں لگے ہیں

جو شخص میرے قد کے برابر بھی نہیں ہے

ایک سے زیادہ ملکوں میں اپنی شناخت قائم کرچکے حبیب ھاشمی کو مشہور، مقبول اور معروف کہنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ان کے دو ہندسوں سے زائد اشعار سامعین اور قارئین کو ازبر ہیں۔ جب کہ دنیائے شعر و سخن میں گر کسی شاعر کا ایک شعر یا ایک مصرعہ ہی مشہور ہوجائے تو وہ معروف و مقبول کہلانے لگتا ہے۔ بحاریہ مشاعروں کے ساتھ ساتھ کل ہند نعتیہ مشاعروں اور دینی جلسوں میں بھی حبیب ھاشمی معتبر، ممتاز اور استاذ الشعراء کی حیثیت سے مدعو کیے جاتے رہے ہیں۔ دونوں نوع کی شاعر ی میں ان کی فنکاری کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔ اللہ ، حبیب اللہ ، پنجتن پاک اور صحابہ کرام و اولیائے کرام سے محبت و عقیدت کی جھلک ان کے اشعار میں جا بجا ملتی ہے۔  مضمون کو اختصار دیتے ہوئے اس ضمن میں آئیے قارئین کو ان کے منتخب اشعار سے محظوظ کرائیں۔

سارے اسباب مہیا تھے تباہی کے لیے

رب نے بھیجا انھیں کونین پناہی کے لیے

شبنمِ عشق سے آنکھوں کی طہارت کرنا

تب کفِ پائے محمد کی زیارت کرنا

ہے ضروری شہِ بطحی سے محبت کرنا

ورنہ بے کار ہے ، دن رات عبادت کرنا

ذکر جب شہرِ مدینہ کا کبھو کرتے ہیں

میرے لب اشکِ طہارت سے وضو کرتے ہیں

ہم کہاں لالہ و گل شمس و قمر مانگتے ہیں

صرف خاک قدمِ خیر البشر مانگتے ہیں

ساکنانِ فلکِ ہفت بھی در پر آ کر

تیری توصیفِ بیانی کا ہنر مانگتے ہیں

رب کے محبوب ہیں وہ رازِ مشیت کے امیں

ان سے جبریل بھی ادراک کا پر مانگتے ہیں

اللہ اللہ یہ فصاحت، یہ بلاغت، یہ کلام

علم شرمندہ ہے امی لقبی کے آگے

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact