Wednesday, May 22
Shadow

گول چکر | کرن عباس کرن

کرن عباس کرن

گاڑی اب ایسی سڑک پر دوڑ رہی تھی جہاں ٹریفک بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف موجود چنار کے درختوں کے پتے جَھڑ چکے تھے، خالی خالی شاخوں سے ویرانی جھانکتی محسوس ہوتی تھی۔ اِکّا دُکّا زرد پتے ابھی بھی ٹہنیوں سے لگے اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے کوشاں تھے۔
پانچ گھنٹے کی مسلسل ڈرائیونگ نے مجھے بہت تھکا دیا تھا، لیکن جوں جوں منزل قریب آتی گئی تھکاوٹ خودبخود رُوپوش ہونے لگی تھی۔ باقی شہروں سے کتنی مانوسیت ہی کیوں نہ ہو اپنے شہر میں واپس آنے کی کیفیت ہی الگ ہوتی ہے۔
اپنے محلے میں پہنچ کر میری تمام تھکاوٹ خوشی سے تبدیل ہو چکی تھی، لیکن یہاں بھی ویرانی نے میرا استقبال کیا ’’شاید سردی کی وجہ سے لوگ گھروں سے باہر کم ہی نکلتے ہوں۔‘‘ میں نے سوچا۔
شام کے سائے اب گہرے ہونے لگے تھے۔ اِس وقت سڑک کے کنارے اِس خالی میدان میں کافی لوگ موجود ہوتے تھے، خاص کر بچوں کا شور و غُل زندگی کی حرکت کا احساس دلاتا تھا۔ آج حالات برعکس تھے۔ میرا گھر بھی مکینوں کے باوجود ویرانی کا منظر پیش کر رہا تھا۔
مَیں پانچ سال بعد لوٹا تھا، ان پانچ سالوں میں محلے کے قبرستان میں کئی نئی قبروں کا اضافہ ہو چکا تھا۔ کتنے اہم چہرے منظر سے غائب ہو چکے تھے۔
’’سب کچھ کتنا بدل چکا ہے؟‘‘ مَیں قبرستان میں موجود نئی قبروں کو دیکھتے ہوئےگویا ہوا۔ میری آواز شہرِ خموشاں کی گمبھیر خاموشی پر تازیانے کی طرح برسی۔
’’کہاں بدلا ہے عامر سب کچھ تو ویسے کا ویسا ہے، یکسانیت سے بھرپور۔‘‘ میں نے چونک کر پاس کھڑے علیم کو دیکھا جس کے چہرے سے گہری اکتاہٹ جھلک رہی تھی۔ ایک لمحہ توقف کے بعد اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’ایسا لگتا ہے جیسے وقت نے ایک عرصہ سے کروٹ ہی نہیں بدلی۔ وہی دن رات کا کھیل برسوں سے جاری و ساری ہے۔‘‘ اس کی باتیں سن کر میری نگاہیں پھر ان نئی قبروں کو تکنے لگیں۔ ایک بار پھر ہر طرف خاموشی کا بسیرا ہو چکا تھا۔ البتہ ہمارے قدموں کے نیچے آتے خشک پتوں کی سرسراہٹ، سامنے بوڑھے درخت کی شاخ پر بیٹھی شارق کی وقفے وقفے سے سُریلی آواز خاموش ماحول کی پراسراریت کم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی تھی۔
’’تم کچھ لکھ رہے ہو آج کل؟‘‘ مَیں نے ماحول کا بوجھل پن کم کرنے کو اُس سے سوال کیا۔
ہم اب قبرستان سے نکل کر تنگ کچے راستے پر آ چکے تھے۔ ڈوبتے سورج کی آخری کرنیں بلند و بالا درختوں سے چھن چھن کر آتی اس گوشہَ زمین کو الوداع کہنے کو تیار بیٹھی تھیں۔
’’نہیں۔ کچھ نہیں۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
قید خانہ ہماری سوچ کے پر کاٹ دیتا ہے، موضوعات محدود ہو جاتے ہیں۔ قیدی کے پاس اپنی قید کے سوا کچھ نہیں بچتا۔‘‘ اس نے رک کر ایک درخت کی شاخ کو پکڑ کر اُسے بھر پور قوت سے ہلایا، زرد پتے بارش کی بوندوں کی طرح جھڑنے لگے ۔ یہ دیکھ کر اُس کے چہرے پر اداسی کی جگہ خوشی کی جھلک یوں ظاہر ہوئی جیسے کسی اداس بچے کے ہاتھ من پسند کھلونا لگ جائے۔ وہ پھر میری جانب مڑ کر گویا ہوا ’’قید خانے میں دماغ، خیالات سب قید ہو جاتے ہیں، پھر تحریر کیا کیا جائے۔‘‘
’’مَیں تمہاری باتیں کبھی سمجھ نہیں پاتا۔‘‘ مَیں نے نیچے جھک کر ایک سوکھا سڑا پتا ہاتھ میں لیا۔
اس کی گہری نگاہیں پتے کو یوں تکنے لگیں جیسے جوہری کی نظریں قیمتی پتھر کو جانچتی ہیں۔
’’مجھے خود اپنی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے گویا سارے زمانے کا درد اُس کے چہرے پر امڈ آیا تھا۔
سورج طلوع ہو چکا تھا، ماحول میں اب خنکی بڑھنے کا احساس ہو رہا تھا۔ مَیں نے کاندھے پر پڑی شال اپنے گِرد پوری طرح لپیٹ لی، لیکن علیم پہلے کی طرح بےپروا، لاتعلق رہا، جیسے موسم اُس پر اثر انداز ہی نہ ہوتے ہوں۔  یہ لاتعلقی اس کی شخصیت کا خاصہ تھی، مگر اِس لاتعلقی کو لکھاریوں کی مخصوص بے اعتنائی نہیں کہا جا سکتا۔ لوگ، اپنی ذات کی الجھنوں اور کشمکش میں مقید اِس شخص کو جب سمجھ نہ پاتے تو اُسے مغرور کہتے۔ بہت کم لوگ یہ بات  جانتے تھے کہ وہ سراپا عاجزی و انکساری ہے۔
اگرچہ ہماری دوستی کئی سالوں پر محیط ہے، مجھے اس سے بے لوث محبت بھی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں آج تک اسے سمجھ نہیں پایا۔
ہماری ملاقات میں بیشتر حصہ خاموشی کا ہوتا ہے۔ جب وہ ہم کلام ہوتا ہے تو بھی اس کے الفاظ اس قدر مبہم ہوتے ہیں کہ مجھے انھیں سمجھنے میں خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑتا۔ جب کوئی سامع نہ ملتا تو وہ اپنے الفاظ قلم بند کرتا رہتا، اس کے کمرے میں جا بجا تحریں  کاغذات کے پلندوں میں قید بکھری پڑی دکھائی دیتیں۔ ’’تم اپنا کام شائع کیوں نہیں کرواتے؟‘‘ ایک روز مَیں نے میز پر پڑی اُس کی ایک تحریر پڑھ کر سوال کیا۔
’’اِنھیں بھلا سمجھے گا کون؟‘‘ فوراً سے جواب آیا۔ ’’جہاں سمجھنے والا کوئی نہ ہو وہاں قیمتی الفاظ بھی بے وقعت ہو جاتے ہیں اور مجھے اپنے الفاظ کی بے قدری پسند نہیں۔‘‘ اُس کا جواب سنتے ہی میری نظر اُس کے چہرے پر ٹک
گئی، جیسے مَیں اس کا چہرہ پڑھ کر اس کی پیچیدہ شخصیت کا کھوج لگا لوں گا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ یہ سعی ناممکن ہے۔
آج پھر مَیں، عزیز و اقارب سے ملنے کے بعد، گھر لوٹتے ہوئے قبرستان کے پاس ٹھہر گیا۔ میری نظریں پھر ان نئی قبروں پر جا ٹکی تھیں، جو میری یہاں غیر موجودگی میں پڑی تھیں۔ مجھے رہ رہ کر یہ خیال آتا تھا ہو نہ ہو اس ویرانی اور تبدیلی کا سبب یہ قبرستان ہے۔ ایک ایک کر کے وہ تمام چہرے میری آنکھوں کے سامنے آنے لگے جو اس شہرِ خموشاں میں جا بسے تھے۔ سب ہی ایسے تھے جن کا وجود لازم دکھائی دیتا تھا۔
’’ویرانی، تبدیلی کسی کے آنے جانے سے نہیں ہوتی، یہ تو یکسانیت کی حبس کے ستائے لوگوں کی اکتاہٹ ہے جو تم محسوس کر رہے ہو۔‘‘ علیم جانے کب سے میرے پیچھے کھڑا تھا۔
اُس کی بات پر میں جھنجھلا کر رہ گیا۔ ’’کیا تم اِسے بھی تبدیلی نہیں گردانتے، کیا تمہیں محسوس نہیں ہوتا کل جو تھے آج نہیں ہیں۔‘‘ میں نے محسوس کیا میرا لہجہ کچھ تلخ سا ہو گیا تھا۔ مجھے شرمندگی محسوس ہوئی۔
’’اور جو کل نہیں تھے وہ آج ہیں۔ آج جو ہیں وہ کل نہیں ہوں گے۔ ‘‘ اس نے میری بات کاٹی ’’میرے بھائی یہی یکسانیت ہے، ازل سے یہی سلسلہ جاری ہے۔‘‘ مجھے غصے میں دیکھ کر اُس نے پیار سے میرے کاندھے پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’مَیں تبدیلی سے خوف زدہ ہوں اور تم یکسانیت کی بات کرتے ہو۔ کیا تمیں وقت کو یوں تیزی سے سرکتے دیکھ کر خوف محسوس نہیں ہوتا؟‘‘ اب کی بار میں نرم پڑ چکا تھا۔
’’ہوتا ہے۔ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو کسی انجان سفر پر روانہ ہوتے دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے، دکھ بھی ہوتا، شاید باقی لوگوں سے کچھ زیادہ ہی لیکن۔۔۔‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے گویا ہوا
’’لیکن کیا؟‘‘ میں نے بےصبری سے پوچھا۔
’’لیکن یہ کہ یہ سلسلہ بھی تو سال ہا سال سے جاری ہے۔ وقت بھاگ رہا ہے، لوگ آ ریے ہیں، جا رہے ہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی چلی جاتی ہے۔ ان سب میں انسانی ذہن یکسانیت کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے۔ ہر کوئی اکتاہٹ کا شکار ہے، تمہاری طرح۔‘‘ اس نے میری آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔ ’’وقت کی تیز رفتاری واقعی خوف زدہ کر دینے والی ہے کہ تیز رفتار وقت اِس تیزی سے گزرتا ہے کہ اپنے قدموں کے نشانات تک نہیں چھوڑتا۔ وہ وقوع پذیر نہیں ہوتا، محض گزرتا چلا جاتا ہے۔‘‘
میں اِس بار بھی اُس کی باتوں کو کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے ہمیشہ کی طرح سر ہلا کر رہ گیا۔ مَیں اُس سے مزید بحث نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میں جانتا تھا وہ چیزوں کو اُس رخ سے دیکھتا ہے جس سے ہم لوگ نہیں دیکھتے۔
وہ میرا بازو پکڑے مجھے گورستان کے احاطے سے دور لے جانے لگا، لیکن میری وحشت ناک نگاہیں اب بھی نئی بنی قبروں کو تکتی چلی جا رہی تھیں۔
’’جانے اس قبرستان نے ہم سے ابھی اور کیا کیا چھیننا ہے۔‘‘ میں اپنے خدشات کو گویائی دیے بنا نہ رہ سکا۔
اپنے ارد گرد کی ویرانی، ماحول کا بوجھل پن، دسمبر کے آخری دنوں کی گہری ادسی، علیم کی ذہنی کشمکش یہ سب میرے لیے ناقابل برداشت تھا سو مَیں وقت سے پہلے ہی واپس جانے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔
’’مجھے نئے سال کا آغاز یہاں نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ مَیں نے سامان پیک کرتے ہوئے خودکلامی کی۔
یہ ایک خوشگوار صبح تھی۔ بارش کے بعد ہر منظر نکھرا نکھرا سا بہت حسین لگ رہا تھا۔  مَیں نے گاڑی کی ونڈ سکرین سے باہر آسمان پر نظر دوڑائی، گہرا نیلا آسمان پچھلے دِنوں کے دھند میں لپٹے ہوئے آسمان سے کتنا مختلف دکھائی دے رہا تھا۔ ’’سالوں کا بدلنا محض ایک چکر ہے۔ وہی دن رات کا کھیل اور بس۔‘‘ گاڑی دوڑاتے میرے ذہن میں بار بار علیم کے یہ الفاظ گونج رہے تھے۔‘‘
یہ بہار کے اولین دن تھے۔ مجھے واپس آئے تقریباً ڈھائی ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ نئی نئی پھوٹتی کونپلیں مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتیں کہ علیم کے لیے موسم کی یہ تبدیلی ’حرکت‘ کہلائے گی یا پھر وہ اسے بھی ’معمول کا چکر‘ کہے گا۔ دفعتاً موبائل فون کی گھنٹی مجھے خیالات سے واپس حقیقی دنیا کی طرف لائی۔
’’ہیلو عامر بھائی۔‘‘ دوسری طرف میرا چھوٹا بھائی موجود تھا۔ صبح سویرے اس کی فون کال نے مجھے تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔
’’سب خیریت؟‘‘ میں اتنا ہی پوچھ پایا۔
’’علیم بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔‘‘ لرزتی آواز کے ساتھ اس نے مجھے اطلاع دی۔
’’یہ۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہو تم۔‘‘ مجھے اپنے قدموں تلے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔ یوں لگا جیسے یہ الفاظ نہیں کسی نے آسمان میرے سر پر دے مارا ہو۔
’’کسی کو بھی یقین نہیں آ رہا۔‘‘ اس نے مزید کہا
’’پر علیم کو ہوا کیا۔ اسے تو کوئی بیماری بھی نہیں تھی۔ ابھی دو دن قبل میری اس سے بات ہوئی تھی۔‘‘  میرے اشک آنکھوں کی سرحد توڑنے کو تیار کھڑے تھے۔ مَیں شدید صدمے میں تھا۔
’’کچھ معلوم نہیں بھائی۔‘‘ وہ ایک لمحہ رکا، جیسے اُس میں مزید بولنے کی سکت باقی نہ رہی ہو۔ یہ حقیقت بھی تھی کیونکہ علیم کو میرے اہل خانہ مجھ سے زیادہ چاہتے تھے۔
’’سب کہتے ہیں کہ جتنی پراسرار ان کی زندگی تھی، اتنی ہی پراسرار ان کی موت ہے۔‘‘ میرے اشک اب زار و قطار بہتے چلے جا رہے تھے۔
’’اِس دنیا کی یکسانیت نے شاید تم جیسے تغیّر پسند کو بہت تھکا دیا تھا میرے دوست۔ اِس گُھٹن میں تم آخر کب تک جی پاتے۔ کیا معلوم وہاں کی دنیا تمہارے مزاج کے مطابق ہو گی بھی کہ نہیں۔‘‘
اپنے اشکوں کو صاف کرتے ہوئے مَیں نے پھر سے نئی پھوٹتی کونپلوں کو دیکھا اب ان میں مجھے نیا پن محسوس نہیں ہو رہا تھا۔
مَیں پھر اپنے شہر لوٹ آیا تھا۔ وہی قبرستان میرا منتظر تھا، مگر اس بار میرے عزیز کی نئی قبر کے ساتھ۔ ’’یہ دنیا ایک ٹھہرے پانی کی طرح ہے جو صدیوں سے خاموش ایک جگہ ٹھہرا کھڑا ہے۔ کاش اس پر ایک پتھر پڑے اور میں اس کی لہروں کا شور سن پاؤں۔‘‘ اس کی مرقد پر کھڑے مجھے اس کے یہ الفاظ شدت سے یاد آ رہے تھے۔
’’دیکھو نا تمہاری جوان موت کے سبب کیسی چوٹ پڑی ہے ہمارے دلوں پر کہ ہماری زندگیوں کو اتنا بڑا تغیّر سہنا پڑا۔‘‘
مَیں نے گلو گیر آواز میں اُس کی مرقد کی جانب دیکھتے ہوئے کہا، جیسے ابھی وہ میری بات کے بدلے ہمیشہ کی طرح کوئی مُبہم جواب دے ڈالے گا۔
’’کسی کے آنے جانے سے وقت کی بہتی دھار کے آگے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہوتی، اُس کی سمت نہیں بدلتی۔ دنیا کا کارخانہ یکساں پرانے نظام الاوقات کے مطابق ہمیشہ کی طرح چلتا رہتا ہے۔ میں یا تم نہ بھی ہوئے ہمارا کردار نبھانے والے کئی آتے جاتے رہیں گے۔ کچھ بھی نہیں بدلے گا، کچھ بھی نہیں۔‘‘ اُس کے یہ الفاظ مجھے اپنے دل کی دنیا میں بارہا گونجتے محسوس ہو رہے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact