Friday, May 3
Shadow

سفرنامہ بہاول پور میں اجنبی/تبصرہ فریدہ گوہر

فریدہ گوہر

                    بہاولپور میں اجنبی‘‘ مظہر اقبال مظہر کا سفر نامہ ہے۔جسے ’’پریس فار پیس  فائونڈیشن ‘‘نے نہایت خوبصورتی اور دیدہ زیب رنگوں سے مزین کیا ہے۔  یہ   2021    میں شائع ہوا۔سر ورق اتنا حسیں ہے کہ ہاتھ خود بخود کتاب کی طرف بڑھتا ہے اور قاری اسے ختم کر کے ہی دم لیتا ہے۔ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘  کا تاثر نہیں ملتا بلکہ تجسس  کا تاثر ملتا  ہے کہ مصنف کو اور کیا ، کس انداز سے نظر آیا ہے جو وہ قاری کا ہاتھ تھامے اسے پر شوق  منزلیں طے کرواتا ہے  اور  اقبال کے شعر کی تفسیر بن جاتا ہے۔

                                         کھول آنکھ،  زمیں دیکھ ،  فلک دیکھ، فضا دیکھ

                                         مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

                    یہ سفر نامہ  ایک سو بیس صفحات پر مشتمل ہے جس میں دو افسانے  ’’دل مندر‘‘ اور  ’’ایک بوند پانی‘‘ بھی شامل ہیں

                    آزاد جموں و کشمیر کا یہ سپوت   1995   میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایم اے  انگریزی(پرائیویٹ) کا امتحان دینے آتا ہے تو بہاولپور شہر کا مشکور ہوتا ہے جو کمال خوبی سے علم  کے پیاسوں کے مسائل کم کرتی  ہے اور بڑی فراغ دلی سے مادرِ علمی کے دروازے کھولتی ہے۔آزاد جموں و کشمیر کی محبت کے ساتھ ساتھ اسے بہاولپور سے بھی انسیت پیدا ہوتی ہے لیکن یہ انسیت، پیار، محبت اور عشق کچھ مختلف ہے۔

                    ہارون الرشید اور مامون الرشید کی سلطنت  ِعباسیہ  زوال پذیر ہوئی تو عباسیوں کے کچھ خاندان نقل مکانی کر کے وادی سندھ میں آباد ہو گئے۔ان میں سے ایک جدید ریاست بہاول پور کی ریاست ہے جس نے  مسلم تشخص کو ترجیح دی اور پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا۔

                    حضرت خواجہ فرید اور دیگر صوفی ہستیوں کا رنگ،  بغداد کے خلفائے عباسیہ سے اکتساب ِ فیض  اور چولستان و  دراوڑ کی اپنی تہذیب و تمدن  سے مل کر آج کا  بہاولپور  شہر  بنتاہے۔

                    سیاح ’’ فرید گیٹ‘‘   میں داخل ہوتا ہے۔زندگی کی گہما گہمی اور رونق میں شہر کی تاریخ تلاش کرتا ہے جہاں محسن ِ پاکستان  جناب نواب صادق محمد خان کے کارہائے نمایاںاس  کا استقبال کرتے ہیں۔وکٹوریہ ہوسپٹل، ایس ای کالج، نیشنل پبلک لائیبریری،

الصادق مسجد، صادق پبلک سکول ، چڑیا گھر اپنے نوابوں کی تعریف و تعظیم کرتے ملتے ہیں۔ ’’ایہڈا نواب‘‘  کی ضرب المثل سے قاری محظوظ ہوئے بنا نہیںرہ سکتا۔اس لیے مجھے مصنف سے اختلاف ہے کہ سرائیکیوں اور کشمیریوں کا مقدر ایک سا ہے۔

                    فرید گیٹ ، شاہی بازار اور ارد گرد گھومتا بہاولپور سرائیکی  زبان کی الگ سے پہچان دیتا ہے جو اس کا سیاسی تشخص قائم کئے ہوئے ہے۔

                    مصنف  انگریزی ادب کا طالب علم ہے اس لیے زبان و بیان، محاورات، تشبیہات و استعارات، تہذیبی و ثقافتی ورثہ  کا ذکر اس خوبی  سے کرتا ہے کہ معنی کے  سوچ انگیز نگینے جڑ دیتا ہے۔اسے بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔

اس سفر نامے کے بعد ایک افسانہ ’’دل مندر‘‘ میں مصنف ماں دھرتی کی ایک دل سوز کہانی بیان کرتا ہے۔ماں کی طرح زمین بھی عشق کی داستان کہتی ہے۔ نا رسائی ویرانی کو جنم دیتی ہے۔ اللہ کی زمین  پر شہر آباد کرنا ہی عشق ہے۔یہ جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلائو ہے۔

                    دوسرا  افسانہ  ’’ایک بوند پانی‘‘ میں مصنف زندگی کی گہما گہمی بر قرار رکھنے کے لیے وہ اسباب  تلاش کرتا ہے جس کے بغیر جیا نہیں جا سکتا ۔ اس سفر نامے کے ساتھ ان دو افسانوں کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ مصنف بہاولپور کے وجود میں آنے کی  اور پھر قائم رہنے کی  دلیلیں تلاش کرتا ہے جیسے کہ آزاد جموں و کشمیر اپنے تشخص کے لیے لڑ رہا ہے۔ تو پھر پڑھیں ’’بہاولپور میں اجنبی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact