پروفیسر فلک ناز نور
آج کے الیکٹرانک میڈیا کے دوراور انٹرنیٹ کی برق رفتار ترقی کے دور میں دنیا ہماری ہتھیلی میں سمٹ آئی ہے۔ موبائل فون اور لیپ ٹاپ پر دستیاب انٹرنیٹ پر ایک کلک سے دنیا بھر کے سارے منظر ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں ایسے میں اگر کوئی سر پھرا مسافر نئے منظروں اور نئے منظروں کی تلاش میں نکلتا اور اپنے سفر کے اہم مناظر، واقعات اور مشاہدات کو ایک بہترین سفر نامے کی صورت میں پیش کرتا ہے تو اس کے عزم ، حوصلے اور متاثر کن انداز تحریر کو داد دیے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ مصنف امانت علی کا شمار بھی انھی پر عزم اور سر پھرے مسافروں میں ہوتا ہے جو ایک انتہائی دور افتادہ اور پسماندہ علاقے میں آنکھ کھولتے، توپوں کی گھن گرج میں جوان ہوتے اور جدید سہولیات سے محروم تعلیمی اداروں سے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انگریزی زبان میں اتنی مہارت حاصل کر لیتے ہیں کہ عرب کے تپتے ریگ زاروں کی ایک اعلی ترین جامعہ میں تدریس کا اعزاز حاصل کر لیتے ہیں۔ اسی دوران
مزید تربیت اور نئی منزلوں کا شوق بے پایاں انھیں ترکی اور افریقا کے خطوں تک بھی پہنچا دیتا ہے – سفر سے واپسی پر انھوں نے اپنے مشاہدات ، تجربات اور تاثرات کو ایک خوب صورت سفر نامے کی صورت میں پرویا ہے۔
کتاب میں شامل قاسم علی شاہ کی یہ رائے بالکل مناسب اور بر محل ہے کہ فاضل مصنف نے اپنے تجربوں کو موتیوں کی صورت پرویا ہے کیونکہ مصنف کا انداز بیاں سادہ مگر دل میں اترنے والا ہے۔ بعض جگہوں پر منظر نگار ی ، مزاح اور سسپنس کا عنصر بھی نظر آتا ہے۔ کتاب میں سفر کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ بعض جگہوں پر خوب صورت سکیچ سے بھی تزئین اور آرائش سے تحریر اور منظر کو مزید مہمیز دی گئی ہے۔ کتاب کا ٹائٹل پر کشش ہے جس میں کسی مشاق مصور کی کاری گری اور مہارت کا رنگ جھلکتا ہے۔ چونکہ یہ مصنف کی پہلی تصنیف ہے اس لیے یہ امید ہے کہ موصوف کی اگلی کتاب اس سے زیادہ متاثر کن اور دلچسپ ہو گی۔
کتاب کے ابتدا میں مصنف نے اپنے مقصد سفر کو بڑی سادگی مگر سچائی سے بیان کیا ہے۔
کتاب کے ابتدائی حصے میں مصنف لکھتے ہیں:
” میں چاہتا ہوں کہ اس سفرنامے کے ذریعے آپ میرے ساتھ دیس دیس کے سفر کا مزہ لیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایت کردہ اپنے وطن عزیز کے حسین نظاروں اور قدرت کی فیا ضی کی قدر بھی کریں”
راقمہ کو اردو ادب کے کچھ سفر نامے پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے جن میں بعض اوقات زیب داستاں اور مصنفین کی طرف سے شیخی کا تاثر ابھرتا ہے۔ اس کے برعکس “انجانی راہوں کا مسافر” ترکی کے ترقی یافتہ ماحول اور عظیم تاریخی ورثے کے سفر کے دوران اپنے وطن میں سیاحتی ورثے کے ناقدری اور اہل وطن کے ہاں اہم سیاحتی مقامات میں سہولیات کےفقدان اور دیگر سماجی اور قومی امراض کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ اس سفر نامے کی ایک اور خوبی اس کا اختصار اور سادہ اسلوب بیان ہے۔ فاضل مصنف انگریزی کے پروفیسر ہیں لیکن کتاب میں سیاق و سباق سے ہم آہنگ خوب صورت اشعار ان کی اردو زبان اور ادب میں مہارت کا پتہ دیتےہیں ۔
کتاب کے شروع میں پبلشر پروفیسر ظفر اقبال نے مصنف کا تعارف لکھا ہے تاہم کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر فاضل مصنف کی تقریر کی ویڈیو دیکھنے کے بعد راقمہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ امانت علی ایک جید مصنف کے ساتھ ساتھ ایک بہترین موٹیوشنل سپیکر بھی ہیں اور مقرر بھی ایسے جن کے پاس کتابی باتیں پیش کرنے کے بجائے جہد مسلسل اور محنت سے بھرپور ذاتی زندگی کی داستان کی روشن مثال دوسرں کو تحریک اور رہنمائی دینے کے لیے کافی ہے- کیونکہ میرے نزدیک آزاد کشمیر کے سرحدی علاقے کے سب سے آخری گاؤں کا باسی وسائل کی کم یابی کی تمام زنجیریں توڑ کر جب پرائیویٹ طور پر انگریزی کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک بہترین کتاب کا مصنف کا اعزاز بھی حاصل کر لیتا ہے تو یہ ایک روایتی مصنف اور مقرر نہیں رہتا بلکہ دوسروں کے لیے اور نوجوانوں کے لیے اس کی زندگی مشعل راہ بن جاتی ہے۔یہ امر مسرت کا باعث ہے کہ پریس فار پیس فاؤنڈیشن یو کے ایسے ہی گمنام ہیروں کو تراشنے اور منظر عام پر لانے کا عظیم فریضہ انجام دے رہی ہے اس پر اس کی تمام ادارتی اور انتظامی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔
آخری بات: اس تحریر کے شروع میں راقمہ نے ویڈیو اور اور انٹر نیٹ کے عہد کی بات کی تھی تو انجانی راہوں کا مسافر کی تقریب پزیرائی میں مصنف امانت علی کی زندگی کی جس متاثر کن داستان کا حوالہ میں نے اوپر دیا ہے۔ میری معزز قارئین سے گزارش ہے کہ اس و یڈیو کو ضرور سنیں اور دیکھیں کیونکہ اس میں ایک ایک لفظ سے سچائی اور روشنی پھوٹتی ہے۔