بیتے ہوئے دن کچھ ایسے ہیں | تبصرہ دانیال حسن چغتائی

You are currently viewing بیتے ہوئے دن کچھ ایسے  ہیں  | تبصرہ دانیال حسن  چغتائی

بیتے ہوئے دن کچھ ایسے ہیں | تبصرہ دانیال حسن چغتائی

دانیال حسن چغتائی

پریس فار پیس فاؤنڈیشن کا شمار دور حاضر کے چند بہترین اشاعتی اداروں میں ہوتا ہے۔  مختصر عرصہ میں اس ادارے نے کئی شاہکار کتب شائع کی ہیں۔ لیکن اس وقت جو کتاب میرے سامنے رکھی ہے وہ ایک خود نوشت ہے اور اس ادارے کی شائع کردہ کتب میں سے ضخیم ترین کتاب ہے۔ کتاب کی ضخامت کے باوجود صفحات اور بائنڈنگ کا معیار بہترین رکھا گیا ہے۔ سرورق بھی دل موہ لینے والا ہے۔

جی ہاں میں بات کر رہا ہوں بیتے ہوئے دن کچھ ایسے ہیں  نامی کتاب کی جسے محترمہ نصرت نسیم صاحبہ نے تصنیف کیا ہے ۔ انہوں نے یہ کتاب لکھ کر گویا اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اپنی زندگی کے واقعات کو محفوظ کر دیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کے واقعات کو ادبی چاشنی کے ساتھ پیش کیا ہے۔

کتاب کا انتساب مصنفہ نے اپنے والدین، اساتذہ، شوہر، بچوں، کتاب پڑھنے والوں اور تمام قریبی رشتہ داروں کے نام کیا ہے ۔

تعارف اور پیش لفظ کے بعد سات تبصرے کتاب میں شامل کیے گئے ہیں جو کہ اپنی جگہ الگ ریکارڈ ہے اور کم ہی کتب میں دیکھنے کو نظر آتا ہے۔

ابتدا میں مصنفہ نے اپنے بچپن کے واقعات اور اس دور کی شادیوں کا احوال بیان کیا ہے۔  اس سے اگلے باب میں ننھیال ددھیال کا تذکرہ ملتا ہے ۔ اگلے صفحات پر مصنفہ اپنے علمی سفر کی یادگار داستان قلنمبد کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔ ان سے اگلے صفحات میں لاہور کی سیر کا تذکرہ ملتا ہے تو وہاں پر گویا قاری ایسا محسوس کرتا ہے کہ وہ خود بھی لاہور کی سڑکوں پر پھر رہا ہے۔ کراچی کا سفر بھی کم و بیش یہی اثرات لئے ہوئے ہے۔

تین عورتیں تین کہانیاں میں اپنے خاندان کی تین بزرگ خواتین کا تذکرہ بڑے احسن انداز میں کیا ہے۔

اگلے صفحات غم و الم کا تذکرہ لیے ہوئے ہیں جن میں مصنفہ نے اپنے والد کی وفات حسرت آیات کا تذکرہ بہت غمناک انداز میں سپرد قرطاس کیا ہے ۔

تاریخ کے اوراق میں سے سقوط مشرقی پاکستان جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے المناک ترین حادثہ ہے کا تذکرہ بھی کتاب میں ملتا ہے ۔ جن لوگوں نے یہ حادثہ برپا ہوتے دیکھا ان کی کیا کیفیت ہوگی۔ وہی جذبات اس باب میں الفاظ کی صورت نظر آتے ہیں۔

کتاب کو تیس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر باب پر اگر مختصر تبصرہ بھی کیا جائے تو قدرے طویل مضمون بن سکتا ہے۔ لیکن اس سے پھر قاری کا ادبی ذوق متاثر ہو سکتا ہے ۔ مجھے خود یہ کتاب ذاتی طور پر بہت پسند آئی ہے کہ اس کتاب کو میری نانی اماں کے دور کی خاتون نے لکھا ہے اور جو لوگ بھی پچاس ساٹھ کی دہائی میں ہیں ان کے لیے یہ کتاب نعمت غیر مترقبہ ہے کہ اس سے وہ اپنے بچپن میں لوٹ سکتے ہیں۔

میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب اتنی دلچسپ اور واقعات کا مرکب ہے کہ آپ ایک بار شروع کرنے کے بعد اسے ختم کئے بغیر نہیں رہ پائیں گے ۔

یہ شاہکار کتاب پریس فار پیس فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ سے آرڈر کر کے گھر بیٹھے منگوائی جا سکتی ہے ۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.