چشمِ عالم سے پوشیدہ حسین گاؤں – ڈنّہ نیلم ویلی تحریر: عبدالواجد فاروقی

You are currently viewing چشمِ عالم سے پوشیدہ حسین گاؤں – ڈنّہ  نیلم ویلی تحریر: عبدالواجد فاروقی

چشمِ عالم سے پوشیدہ حسین گاؤں – ڈنّہ نیلم ویلی تحریر: عبدالواجد فاروقی

تحریر: عبدالواجد فاروقی

(آزاد صحافی | سوشل وکشمیر ایکٹوئسٹ)

ویسے تو پوری دنیا اللہ ربّ العزّت نے بہت خوبصورت بنائی ہے۔اللہ کی تخلیق کردہ ہر چیز میں کوئی نا کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے۔خوبصورتی میں جنتِ ارضی کا لقب پانے والا جنوبی ایشیاء کا یہ خطّہ جِسے پوری دنیا کشمیر کے نام سے جانتی ہے۔اپنے رنگ، حُسن، جھیل، آبشار، گفتار، پہاڑ، شاہکار اور دنیا میں جنت کا احساس دلانے والا کشمیر آج بھی خوبصورتی میں اپنی نظیر پیش نا کرسکا۔

کشمیر کو اللہ رب العزّت نے نے واقعی ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے۔خوبصورتی کِسے کہتے ہیں وہ یہیں آکے معلوم ہوتا ہے۔بلکہ یوں کہیں کہ لفظِ خوبصورتی کا اصل معنی ومفہوم یہیں کے مناظر کے دیدار سے واضح ہوتا ہے۔قدرت نے کشمیر کو ہر قسم کے نظارے بخشے ہیں۔اسی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد سیروتفریح کیلئے آزاد کشمیر کا رخ کرتی ہے۔کشمیر کے دلکش نظاروں اور ٹھنڈی ہواؤں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کا دل لطف واندوز ہونے کی تمنّا نا رکھتا ہو۔

آزاد کشمیر خصوصاً نیلم ویلی میں اکثر ایسے مقامات ہیں جو سیاحت کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔جیسے: شاردہ، بابون، رتی گلی جھیل، کیل، اڑنگ کیل، جمگھر آبشار، تاؤبٹ وغیرہ وغیرہ۔

آزاد کشمیر میں بعض ایسی جگہیں بھی ہیں جو خوبصورتی میں تو اپنی مثال آپ ہیں، لیکن وہ سیاحت سے محروم ہیں۔آج تک شاید ہی کسی سیاح نے اس جگہ کا رُخ کیا ہوگا۔ان میں سے ایک گاؤں “ڈنّہ” بھی ہے۔آزاد کشمیر کا یہ دلکش گاوٴں نیلم ویلی کی وادی گریس میں واقع ہے جو سطحِ سمندر سے کم وبیش سات ہزار (7000) فٹ کی بلندی پر واقع ہے، جو روڈ سے ساڑھے تین کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔مظفرآباد سے ڈنّہ 250 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔کیل سے ڈنّہ تک کا سفر تین سے چار گھنٹے کا ہے جو 20 کلومیٹر تک بنتا ہے۔

200 گھروں پر مشتمل اس گاؤں “ڈنّہ” کے دو حصے ہیں۔ایک حصہ ڈنّہ جانوئی کہلاتا ہے، جبکہ دوسرا حصہ ڈنّہ پھولاوئی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ڈنّہ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ گاؤں شہداء اور غازیوں کی جائے پیدائش بھی ہے۔بنیادی سہولیات سے محروم اس گاؤں میں ایک پرائمری اسکول اور دو مسجدیں ہیں۔یہاں کے پُرکیف مناظر، دلکش اور حسین نظاروں کی وجہ سے یہاں کے مقامی افراد اِس گاؤں سے دور ہونے پر ناخوش ہیں۔حالانکہ یہ گاؤں لائن آف کنٹرول (LOC) پر واقع ہے۔ڈنّہ کے بالکل سامنے پاکستان اور بھارت کی پوسٹیں اور بینکر صاف دِکھائی دیتے ہیں۔

اس پورے گاؤں (ڈنّہ) میں تین زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ایک ہندکو، دوسری شِنا اور تیسری گوجری۔

کیل سے ڈنّہ تک کا سفر یقینی طور پر اپنے دلکش قدرتی خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا کا بہترین سفر ہے، جو آپ کو حیرت میں ڈال دے گا۔یہ راستہ خوبصورت دیہاتوں مچھل، جمگھر، چیچڑمانوں (رحمن آباد) جندرسیری، ڈوگہ، جانوئی کو لکڑی کے گھروں، دلکش نظاروں، قدرتی آبشاروں اور رنگارنگ پھولوں کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

گرجتا ہوا دریا، گھاس سے بھرے میدان، جنگلات والے پہاڑ بالآخر کسی کو احساس ہوتا ہے کہ بعض اوقات سفر منزل سے زیادہ اھم ہوتا ہے۔

ڈنّہ جانوئی کے لوگ اپنی مقدّس عبادات (جمعہ-عیدین) کا فریضہ سرانجام دینے اور اشیاء خردونوش کے حصول کیلئے جانوئی کا رُخ کرتے ہیں، جبکہ ڈنّہ پھولاوئی کے لوگ پھولاوئی کی مساجد اور بازار کا رُخ کرتے ہیں۔

بلندی پر ہونے کی وجہ سے ڈنّہ میں دیگر دیہاتوں کی بنسبت قدرے زیادہ برف پڑتی ہے، جس کی وجہ سے یہ گاؤں سال کے بارہ مہینے ٹھنڈا رہتا ہے۔موسمِ سرما میں برف کی وجہ سے یہاں کی زندگی بہت اجیرن ہوتی ہے، چانچہ یہاں کے اکثر لوگ سردیوں کے سیزن میں اسلام آباد اور مظفرآباد کا رُخ کرتے ہیں۔ڈنّہ میں ہسپتال کی سہولت نا ہونے کی وجہ سے مریضوں کو طبّی امداد اور ہسپتال تک لے جانے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے اکثر اوقات مریض ہسپتال تک پہنچنے سے قبل ہی اپنے خالقِ حقیقی کے پاس پہنچ جاتا ہے۔

ڈنّہ میں لوکل نیٹ ورک ایس کام کی سروس چلتی ہے۔یہاں کے مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش محنت مزدوری، گھروں کی تعمیر، بھیڑ بکری، اور لکڑی کی فروخت ہے۔جبکہ بعض افراد روزگار کیلئے پاکستان کے مختلف شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔

یہاں کے لوگوں کے حالات کو بہتر کرنے کیلئے تعلیم اور ہنر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ لوگ اچھے روزگار کے مواقع حاصل کرکے ترقی کی جانب گامزن ہوں۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.