Wednesday, May 8
Shadow

تبصرے

کتاب: سائنسی جنگل کہانی ۔تبصرہ :انگبین عُروج

کتاب: سائنسی جنگل کہانی ۔تبصرہ :انگبین عُروج

تبصرے
تبصرہ :انگبین عُروج(کراچی)۔مُصّنفہ کا تعارفمحترمہ تسنیم جعفری ادبِ اطفال کے اُفق پر ایسا روشن ماہتاب ہیں جن کا نام یقیناً کسی تعارف کا محتاج نہیں۔مُصنّفہ کی شخصیت اور ادب کے لیے ان کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترداف ہے۔آپ کی مثبت شخصیت عجز و انکساری،نرم خوئی اور اخلاق و کردار میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔گہوارۀ علم و ادب کا روشن و تاباں چراغ محترمہ تسنیم جعفری جنہیں پاکستان میں"ادبِ اطفال میں سائنس فکشن" کا بانی کہا جاۓ تو بے جا نہ ہو گا۔فی زمانہ محترمہ تسنیم جعفری کا شمار پاکستان میں ادبِ اطفال کی خدمات اور ترویج کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنے والے چند ایک بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے۔محترمہ تسنیم جعفری کا تعلق پاکستان کے علم و ادب سے منسلک شہرِ لاہور سے ہے۔آپ عرصۀ دراز سے شعبۀ تدریس سے وابستہ ہیں،یہی وجہ ہے کہ قوم کے ننھے معماروں اور نوجوانانِ وطن سے بہت گہرا قلبی و ...
بین کرتی آوازیں/ میں تانیثیت اوروجودیت کااظہار

بین کرتی آوازیں/ میں تانیثیت اوروجودیت کااظہار

تبصرے
محمدشاہدحفیظشعبہ اردو،گورنمنٹ گریجویٹ کالج میلسی (پاکستان)        نسترن احسن فتیحی معروف محقق،نقاد ،ناول وافسانہ نگارہیں۔آپ سمستی پور،بہار(انڈیا)میں سید محمداحسن کے گھرپیداہوئیں۔۱۹۸۶ء میں ایم۔اردو کیااورگولڈ میڈلسٹ قرارپائیں۔۱۹۹۱ء میں پنجاب یونیورسٹی (چندی گڑھ) سے پی۔ایچ۔ڈی کیا۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے پروفیسر علی رفادفتیحی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں تو علی گڑھ (یوپی)میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔نسترن احسن فتیحی بنیادی طورپرناول نگار ہیں۔تاہم انھوں نے "ایکوفیمینزم اور عصری تانیثی اردوافسانہ"(۲۰۱۶ء)سے تحقیق وتنقید کے میدانِ کارزار میں قدم رکھا۔اس کتاب کویوپی اردواکیڈمی سے پہلاانعام حاصل ہوااوربہاراردواکیڈمی سے دوسراانعام ملا۔تانیثیت اورتانیثی افسانے پر مشتمل یہ اہم کتاب( ۲۰۱۸ء) عکس پبلی کیشنز کراچی (پاکستان)سے بھی شائع ہوچکی ہے۔فکشن کے میدان میں ان کا پہلاناول "...
عباس علی شاہ کے مقالہ پر نگاہِ عاجزانہ/ آفتاب شاہ

عباس علی شاہ کے مقالہ پر نگاہِ عاجزانہ/ آفتاب شاہ

تبصرے
آفتاب شاہ سیالکوٹ ایک علمی مقالہ بغیر تحقیق اور تنقید کے ردی کی دکان ہوتا ہے۔ اور ایسی ردی کی دکانیں ملکِ خداداد میں جابجا بکھری پڑی ہیں ۔موجودہ عہد میں جہاں پر ہر شعبہ زوال کا شکار ہے وہاں پر یونیورسٹیوں میں لکھے جانے والے مقالہ جات بھی اس علت کا شکار نظر آتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ مقالہ جات تحقیقی اور تنقیدی اوصاف سے عاری نظر آتے ہیں شعبہ اُردو کے غبی اور گپی اساتذہ کرام اپنی رقم کھری کرنا چاہتے ہیں جبکہ طلباء و طالبات ڈگری کے حصول کے لیے آسان پسندی کا شکار نظر آتے ہیں اس آسان پسندی میں اساتذہ کرام کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جو گلی محلوں کے شعراء اور ادیبوں پر مقالہ جات لکھنے کی اجازت دے کر وقت ٹپانے کی خوبصورت روائت کو نبھاتے چلے جارہے ہیں شاگردانِ ارسطو و افلاطون چاہتے ہیں کہ انہیں ایسا موضوع مل جائے جس پر زیادہ محنت درکار نہ ہو اور چند دنوں میں مقالے کی ہنڈیا تیار کر کے اساتذہ کرام کے س...
رباب عائشہ کی خودنوشت “لمحوں کی دھول”، تاثرات: نصرت نسیم

رباب عائشہ کی خودنوشت “لمحوں کی دھول”، تاثرات: نصرت نسیم

تبصرے
تاثرات: نصرت نسیم بہت پیاری رباب عائشہ کی منفرد خود نوشت لمحوں کی دھول  کا مسودہ میرے ہاتھوں میں ہے ۔اور۔مجھے بے پایاں مسرت محسوس ہورہی ہے ۔اس مسرت کی وجہ تو آخر میں بیان کرونگی ۔فی الوقت لمحوں کی دھول پر بات کرتی ہوں ۔جو لمحوں کی دھول نہیں ۔بلکہ ایک پورے دور پورے عہد کو رباب نے پوری سچائی کے ساتھ محفوظ کردیا ہے ۔آج سے 50 سال پہلے کا روالپنڈی ،مقامات۔،حالات ،رشتے داریاں ،رسم۔ورواج وضع۔داریاں ،محبتیں  ان سب رنگوں سے دمکتی خود نوشت ہے۔یہ ایک کارکن صحافی اورجرات مند خاتون کی داستان حیات ہے ۔کہ جس نے کارزارِ حیات کی کٹھنایئوں اوررکاوٹوں کاڈٹ کر مقابلہ کیا ۔دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اخبار کی نوکری کو ئی آسان بات نہ تھی ۔مگر ہمت و حوصلے کے تیشے سے اس نے مشکلات کے کوہ گراں تسخیر کئے ۔پچاس سالہ صحافتی زندگی کی اس داستان میں عائشہ نے بڑی جرات اورسچائ کے ساتھ ملک کے دو بہت بڑے اورمشہور اخبارات کے اس...
“لمحوں کی دھول “از رباب عائشہ/تبصرہ : قانتہ رابعہ

“لمحوں کی دھول “از رباب عائشہ/تبصرہ : قانتہ رابعہ

تبصرے
تبصرہ : قانتہ رابعہ "زندگی صرف ایک بار ملتی ہے کسی کے لیے یہ زہر کی مانند ہے اور کسی کے لیے تریاق ،کامیاب ہے وہ جو دوسروں کی زندگی سے سبق سیکھتا ہے ناکامی کا ہو تو بچنے کی کوشش اور قابل رشک ہو،تو اسے اپنانے کی"۔  کسی بھی نامور شخصیت کی داستان حیات بالعموم اس کے مرنے کے بعد لکھی جاتی ہے لکھنے والا جو لکھتا ہے وہ سو فیصد ویسی نہیں ہوتی جو زندگی گزارنے والے نے گزاری۔   انیس بیس کا فرق رہتا بھی ہے لیکن جو داستان حیات لکھنے والے نے خود لکھی وہ ایک فلم کرنے والے کیمرہ کی مانند ہوتی ہے جس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔  میری رائے میں بہترین کتاب وہ ہے جو شروع کریں تو ادھوری چھوڑنا مشکل ہو جائے ۔کتاب ہاتھ سے رکھنا پڑے تو دھیان گیان اسی طرف رہے۔  میرے پاس بھی کسی ناول کے کرداروں سے مزین  ،افسانوں جیسی دلچسپ  اور کہانیوں جیسی سادگی لئے معروف  خاتو...
ممتاز غزنی ہوریں نی آں ادبی خدمات: لِخُت: نقی اشرف

ممتاز غزنی ہوریں نی آں ادبی خدمات: لِخُت: نقی اشرف

تبصرے
لِخُت: نقی اشرف میں فیس بُک اُپر لوکیں بہت چھانی پھٹکی تے ایڈ کرنا ہُونیس۔ اُس نی وجہ ہیک ایہہ دی کہ  کُوتے کوئی ایسا انتہا پسند شخص یا خاتون نہ ایڈ ہوئی  گچھے جس وچ دُوئے کی اختلافِ رائے نا حق دِتے نی ہمت و جرات نہ ویہہ تے او گالم گلوچ اور بدتمیزیار اُتری اَچھیہہ اُٹھی۔   چروکنی گل دی ہیک  مولوی ٹائپ جے ممتاز غزنی نامی بندے نی فرینڈ ریکوسٹ آئی۔میں پروفائل پڑھی دیکھی ایڈ کری شوڑے۔ بَلہی بَلہی پتہ لغا او کوئی روائیتی مولوی نئیں،  بِچا جور دے۔ فیس بُکار میں اُنھیں نیاں پہاڑی تحریراں نظری آئیاں۔فیر بُجیا اُنھیں نی کوئی کتاو آئی، فیر ہور کتاو، فیر ہور کتاو۔ تُسیں کہائی، جس لیتری وی آخنے،اُس نا تے پتہ ہوسی نا ،بہوں سارے لوک مِلی تے ٹہولیں باجیں کنے کہاء کَپنے ہونے سے۔ اس توں علاوہ ہیک ہور کہائی ہونی۔ تویئیر جیہڑی کالخ لغی نی ہونی تے جدوں توا تتہ ہونا تے اُس اَگ ل...
کتاب؛”ننھا سلطان تبصرہ نگار :انگبین عروج

کتاب؛”ننھا سلطان تبصرہ نگار :انگبین عروج

تبصرے
کتاب؛"ننھا سلطان تبصرہ نگار :انگبین عروج تبصرہ نگار :انگبین عروجمحترمہ شمیم عارف صاحبہ سے کون واقف نہیں۔آپ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔نثر اور نظم دونوں اصناف پر طبع آزمائی کرتی ہیں۔ادبی حلقوں میں شمیم عارف صاحبہ کی وجہ شہرت ان کا سفرنامہ حج "عشق کی نگری" بنا،جسے آپ نے ۲۰۱۷ میں حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد قلم بند کیا۔اس کے علاوہ ۲۰۱۹ میں آپ کی شاعری پر مشتمل مجموعہ "ابھی ہم راہ گُزر میں ہیں"،نے بھی ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کی۔زیرِ مطالعہ کتاب "ننھا سلطان" ترک ماں بیٹے کی زندگی پر مشتمل کہانی پر ایک ناولٹ ہے۔مصنفہ محترمہ شمیم عارف صاحبہ کے مطابق یہ ایک سچی داستان ہے۔اس کتاب کے خوبصورت سرورق پر ایک معصوم سے کمسِن بچے کی تصویر دیکھ کر مجھے پہلے پہل محسوس ہوا کہ یہ کہانی بچوں کے لیے لکھی گئی ہے لیکن اس کتاب کو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہوتے دیکھا تو اس کتاب کو پڑھنے کا مصمم ارادہ...
بِسواس: اِس ڈَکے نی گَل ایہہ ہور دی                          لِخُت: نقی اشرف

بِسواس: اِس ڈَکے نی گَل ایہہ ہور دی                          لِخُت: نقی اشرف

تبصرے
لِخُت: نقی اشرفدُنیارا بہوں ساریاں زباناں تے بولیاں مکیر دیاں۔ اِنھیں زبانیں تے بولییں نے اس طرح دندیر پُجے نی وجہ  نہ لِخن ہونا دا۔ انھیں وچا ہیک ساڑی مآ بولی پہاڑی وی دی۔ پہاڑی بولنونی تے بہوں بڑے علاقے تے بہوں بڑیا آبادیاچ دی فہ لخے نے حوالے کنے ساڑے پاسے  اس زبانچ بہوں کہٹ کم واہا۔ سیانے آخنے جس زبانچ ادب تخلیق ویہہ او کدے نی مُکنی۔ ساڑے پاسے اس بارے کُنی کہٹ ایہہ سوچیا۔ جدوں میں یو چِنتا تے بسواس کِیتے والے نے باریچ سوچنیس تے ہیک ناں  میں بہوں مٹا مٹا لخا نا دُورا نظری اینا، او ناں دا ڈاکٹر محمد صغیر خان۔ سارے تھی پہلے اُنھیں پہاڑی آخان کتابی صورت وچ کہٹھے کِیتے فیر ساڑیا پونچھی پہاڑی وچ افسانیاں نی پہلی کتاو ‘‘کٹھی بَٹی‘‘ لِخنیں، ‘فیر ‘‘سَت برگے نا پُھل‘‘، فیر شاعری، سفرنامہ لِخنیں تے ہبن بُجیا پہاڑی خاکیں نی کتاو وِی آچھے والی۔ میں آخنیس بیئک بیئک  نا کی لِخی گئ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact