Friday, May 17
Shadow

اردو

آزاد نظم بہ عنوان : ایک خواہش ناگزیر/ رابعہ حسن

آزاد نظم بہ عنوان : ایک خواہش ناگزیر/ رابعہ حسن

شاعری
رابعہ حسندنیا کے جھمیلوں سے نکل کرزندگی کے میلوں سے پرےآو ہم ایسا کرتے ہیںاک چاہ کی چادر بنتے ہیںپیار کے تارے جس میں ٹانکتے ہیںخلوص کے بوٹے اس پر سوزن کرتے ہیںپھرنفرت کی بارش میںاس کو سر پر اوڑھ کرہم ایک ایسی دھنک زمیں پہ اتر جاٸیںجہاں ٹہنی گل کی کنار جو کو چومتی ہوجہاں پرند مصروف ثنا ہوںجہاں غزال مست اپنی چال میں ہوںجہاں بانگ مرغ میں شاملپیار کی لے ہوجہاںنفرت کا گزر نہ ہوجہاں پیار کی چھاوں ہی چھاوں ہوآو رابی ایسا کرتے ہیںدنیا کے جھمیلوں سے نکل کرزندگی کے میلوں سے پرےآو ہم ایسا کرتے ہیں۔۔۔ ...
قانتہ رابعہ کا افسانوی مجموعہ  ” اک سفر جو تمام ہوا”، تاثرات: ممتاز شیریں

قانتہ رابعہ کا افسانوی مجموعہ  ” اک سفر جو تمام ہوا”، تاثرات: ممتاز شیریں

تبصرے
تاثرات: ممتاز شیریں (قطر)محترمہ قانتہ رابعہ صاحبہ کی کتاب " اک سفر جو تمام ہوا"  موصول ہوئی ۔کسی بھی نئی کتاب کو دیکھ کر دل فوری طور پر مچل جاتا ہے کہ اسے فورا پڑھا جائے۔ یہی آج بھی ہوا ۔جیسے کتاب ملی گھریلو مصروفیت میں سے تھوڑا سا بھی وقت ملتا تو ایک صفحہ پڑھنے بیٹھ جاتی اور یوں ایک ایک کرکے اب تک ان کے تین افسانے پڑھ چکی ہوں۔  "زمانے کے انداز بدلے گئے" آج کے معاشرتی حالات میں گھر گھر کی کہانی ہے۔ہمارے زمانے کی امیاں "کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے "کی قائل تھیں ۔آج سے تین چار عشرے قبل کے بچے معصوم ہوا کرتے تھے اس وقت موبائل فونز اور طرح طرح کی ڈیوائسیس کا عفریت گھروں میں داخل نہیں ہوا تھا لیکن جیسے جیسے ہم ترقی کرتے چلے گئے زمانہ تنزلی کی طرف چلاگیا۔ بلاشبہ   زمانے کے انداز بدلے گئےنیا ساز ہے راگ بدلے گئے ۔رائٹرز کچھ الگ طرح کے لوگ ہوتے ہیں، مشاہدہ گہرا کرتے ہیں، محسوس شدت...
ایوارڈ یافتہ افسانہ : شمع اور قیدی / اقرا یونس 

ایوارڈ یافتہ افسانہ : شمع اور قیدی / اقرا یونس 

افسانے
اقرا یونس  سیلن زدہ کال کوٹھری کے ایک کونے میں دبکا میلے کپڑوں والا قیدی اندھیرے کی وجہ سے اسے ایک جلتی شمع تھما دی گئی اس نے اسے اسی کے موم  سے ٹوٹے فرش پہ گاڑ دیا. فرش پہ ٹکی شمع کی لو مدھم سی جل رہی تھی جب قیدی نے اپنا چہرہ اس کے قریب کیا. اس کی روشنی سے وہ چہرہ زرد روشن سا ہو گیا. اور اس کا سایہ دیوار پہ لہرانے لگا جو پوری کوٹھری کو خوفناک بنا رہا تھا.  شمع کو خوفزدہ دیکھ کر قیدی ایک دم ہنس پڑا اور بولا: "روشنی ہو گی تو سایہ تو بنے گا اور تم سائے سے ہی ڈر گئی. ہاہاہا.... " شمع دھیرے سے مسکرائی اور کہنے لگی  "میں سائے سے نہیں، تمہارے جلنے سے ڈری ہوں."  قیدی نے حیرت سے پوچھا "میرے جلنے سے کیسا ڈر؟" شمع نے گہرا سانس لیا اور کہا: "آگ جب حد میں ہو تو روشنی دیتی ہے امید کی، خوشی کی، اندھیروں کو مٹانے کی۔۔۔۔یہ موم تو حد میں رکھنے کی کوشش می...
افسانہ : مذہب انسانیت /محمود الحسن عالمیٓ

افسانہ : مذہب انسانیت /محمود الحسن عالمیٓ

افسانے
محمود الحسن عالمیٓ علامہ محمد سفیان صاحب نے محمد عمر علی باقی صاحب کو "علوی جامع مسجد" کی تہہ در تہہ لمبی قطار نما بنی سیڑھیوں سے اُترتے دیکھ لیا تھا اور اب وہ بڑی بے صبری سے اِس انتظار میں تھے کہ کب باقی صاحب  نمازیوں کے ہجوم سے نکلتے ، سیڑھیوں سے نیچے اُترتے ہوئے ان کی جانب کو آتے ہیں۔آخر کار علامہ صاحب کا انتظار ختم ہوا اور باقی صاحب مسجد کی قطار نما سیڑھیوں سے خراماں خراماں پُراعتماد قدم اُٹھاتے ہوئے باہر سڑک کو آ نکلے لیکن علامہ صاحب کی توقع کے عین برعکس مخالف سمت میں گھر واپسی کی نیت سے چل دیے۔ علامہ صاحب دُوڑتے ہوئے باقی صاحب کی طرف لپکے اور کسی تفتیشی انسپکٹر کی طرح اُن کے کاندھے پر اپنا بھاری بھرکم ہاتھ رکھ کر اُنھیں روکتے ہوئے با آواز بلند کچھ یوں ڈھارے: او باقی صاب ۔۔۔ ! آپ کہاں سے اور کب سے اِن  جھوٹے ، مکار ، کافروں کی مسجد میں آنے جانے لگ گئے جبکہ پچھلے جم...
تضیع اوقات سے اجتناب / تحریر : سحر شعیل

تضیع اوقات سے اجتناب / تحریر : سحر شعیل

آرٹیکل
تحریر: سحر شعیلمیرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کسی بھی محفل یا دعوت پر میں دیئے گئے مقررہ وقت پر پہنچ جاتی تھی اور ہمیشہ ایسا ہوتا کہ پروگرام کا دور دور تک پتہ نہ ہوتا تھا۔بلکہ اکثر جگہوں پر تو شاید اس وقت انتظامیہ بھی اپنے کاموں میں لگی ہوئی ملتی تھی۔ایک محفل میں اپنی اس کا عادت کا ذکر چند ہم عصروں سے کیا تو ایک قہقہے کے ساتھ یہ جواب ملا کہ کسی بھی جگہ پر لیٹ جانا آج کل ایک  ٹرینڈ بن چکا ہے۔ ہم کتنی آسانی سے خامیوں کو ٹرینڈ کا نام دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں ۔گویا جو ٹرینڈز کے مطابق نہیں چلتا وہ درست ہوتے ہوئے بھی دقیانوسی کہلائے گا ۔انفرادی اور اجتماعی طور پر پائی جانے والی خامیوں میں یہ بھی قومی  خطا کے طور پر سامنے آئی ہے کہ ہم وقت کی قدر نہیں کرتے۔ہر جگہ لیٹ  ہونا  ماڈرن ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ ہماری روزمرہ انفرادی زندگی کی بات کریں تو روزانہ کتنے ہی قیمتی منٹ ہم ایسے ہی بے مقصد...
جناب شیخ ریاض کی سوانح  عمری “ریاض نامہ  ” / سرور غزالی (جرمنی)

جناب شیخ ریاض کی سوانح  عمری “ریاض نامہ  ” / سرور غزالی (جرمنی)

تبصرے
تبصرہ : سرور غزالیکچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو اپنے  ساتھ لگے لاحقے کے ساتھ ایک انسیت کا احساس دلاتے ہیں ۔  ریاض نامہ ایک ایسا ہی نام ہے،  ایسی ہی کتاب ہے جس میں  پہلی نظر میں ہی ریاض اور نامہ کے الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ اٹوٹ جڑے نظر آتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کتاب ریاض نامہ آج پہلی بار  نہیں بلکہ برسوں سے  میری نظروں کے  سامنے رہی ہے۔  یا شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ میں ریاض بھائی کو برسوں سے جانتا ہوں اور عرصے سے انہیں دیکھتا چلا آرہا ہوں۔ ریاض بھائی ،بھابھی اور بچوں کے ساتھ جو انسیت ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کا نام گرچہ کہ" ریاض نامہ "ہے مگر اس میں شاید سب سے کم ذکر خود ریاض بھائی کا ہے لیکن انہوں نے جن تجربات، واقعات اور حالات کا نچوڑ اس کتاب میں سمودیا ہے وہ قابل تعریف بھی ہے اور قابل توجہ بھی ہے اور اس میں سیکھنے اور معلومات کے لی...
افسانہ *میرا گھر میری جنت* نگہت سلطانہ

افسانہ *میرا گھر میری جنت* نگہت سلطانہ

افسانے
تحریر: نگہت سلطانہ " دیکھورمشہ! تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ۔ ۔ ۔ "مجھے کچھ معلوم نہیں میرا صبر اب ختم ہو گیا ہے"اس نے حامد کا ہاتھ جھٹکتےہوئے کہا اب کرسی پر سے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی " یہ ۔ ۔ ۔ یہ میرے چہرے کی رنگت دیکھی تم نے گھر کی پریشانیوں نے برباد کر دی میری صحت میری خوبصورتی ۔ ۔ ۔ "" مجھ سے غلطیاں ضرور ہوئی ہیں مگر اب لڑائی کرنے کا فائدہ نہیں ہے ۔ ۔ ۔"" غلطیوں سے سیکھا بھی تو نہیں تم نے ۔ ۔ ۔"کمرے کا دروازہ ہلکے سے دھکے کے ساتھ کھلا آگے چار سالہ علی اور پیچھے چھ سالہ دعا علی کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے، علی نے کمرے کے اندر جھانکا اور دھیرے سے کہا "مما ! مما ! ۔ ۔ ۔ "مما اور بابا نہ سن سکے اس کی آواز ۔۔دعا نے اسے پیچھے کھینچ لیا اور دروازہ آواز پیدا کئے بغیر بند کر دیا۔ دونوں واپس اپنے کمرے میں آگئے اور مذاکرات جہاں ختم ہوئے تھے وہیں سے شروع ہو گئے عل...
تخیل، تحریر: افشاں نور

تخیل، تحریر: افشاں نور

افسانے
Afshan Noor, writer, Trainer, Okara (Pakistan)تحریر: افشاں نورتخیل ایک ایسی انجانی قوت ہے کہ انسان کو زمان و مکاں سے پرے، دور کہیں لے جاتی ہے۔ کبھی حقیقت کو وہم اور کبھی وہم کو حقیقت بنا کر پیش کرتی ہے۔ اگر یہ تخیل نہ ہوتا تو انسان کے لیے وقت اور حالات وہ بارِ گراں ہوتے کہ سانس لینا دو بھر ہوجاتا۔ حقیقت کی تلخیوں میں تخیل وہ فرحت بخش احساس ہے جو زندگی کو جینے کا ہنر سکھاتا ہے۔ میرے لیے تخیل ایک بیش بہا خزانہ ہے جس کے ہوتے دل اور روح کبھی نہیں مرجھا سکتے۔ طلوعِ آفتاب سے ہی میرا تخیل مجھے اپنے پروں میں چھپائے دور کہیں ان دیکھی دنیاؤں میں لے جاتا ہے اور مجھ پہ نئے نئے راز منکشف کرتا ہے۔ ایسے ہی ایک روز میرا تخیل مجھے صحراؤں میں لیے لیے پھرا اور میں صحرا کی وسعتوں میں اپنے وجود کی تلاش میں سرکرداں ہانپ سی گئی۔ پھر دفعتاً میرے اندر سے آواز آئی کہ میں تو صحرا کے بے شمار ٹیلوں پہ اربوں کھربوں ری...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact