تاثرات: ممتاز شیریں (قطر)
محترمہ قانتہ رابعہ صاحبہ کی کتاب ” اک سفر جو تمام ہوا” موصول ہوئی ۔کسی بھی نئی کتاب کو دیکھ کر دل فوری طور پر مچل جاتا ہے کہ اسے فورا پڑھا جائے۔ یہی آج بھی ہوا ۔جیسے کتاب ملی گھریلو مصروفیت میں سے تھوڑا سا بھی وقت ملتا تو ایک صفحہ پڑھنے بیٹھ جاتی اور یوں ایک ایک کرکے اب تک ان کے تین افسانے پڑھ چکی ہوں۔
“زمانے کے انداز بدلے گئے” آج کے معاشرتی حالات میں گھر گھر کی کہانی ہے۔ہمارے زمانے کی امیاں “کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے “کی قائل تھیں ۔آج سے تین چار عشرے قبل کے بچے معصوم ہوا کرتے تھے اس وقت موبائل فونز اور طرح طرح کی ڈیوائسیس کا عفریت گھروں میں داخل نہیں ہوا تھا لیکن جیسے جیسے ہم ترقی کرتے چلے گئے زمانہ تنزلی کی طرف چلاگیا۔ بلاشبہ
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا ساز ہے راگ بدلے گئے ۔
رائٹرز کچھ الگ طرح کے لوگ ہوتے ہیں، مشاہدہ گہرا کرتے ہیں، محسوس شدت سے کرتے ہیں، سوچتے دیر تک ہیں، سیکھتے اپنے اور دوسروں کے تجربات سے ہیں، سنتے توجہ سے ہیں اور لکھتے گہرائی و گیرائی سے ہیں۔ ” اک سفر تمام ہوا” کے پہلے مضمون نے دوسرا مضمون پڑھنے پر اکسایا اور دوسرے نے تیسرا۔
ہم سوچتے ہیں نجانے سعود عثمانی صاحب نے یہ شعر کیسے کہہ دیا کہ ۔۔! یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی” کتابوں کا عشق تو سر چڑھ کر بولتا ہے جو ابھی مجھے رات کے دو بجے بھی قانتہ رابعہ صاحبہ کی کتاب سے نظریں نہیں ہٹانے دے رہا ہے دیدہ ذیب چھپائی اور بہترین افسانوں سے مزین اس کتاب نے خود کو پڑھنے پر مجبور کردیا ہے ۔
” چار دن کے فاصلے پر عید” نے اللہ سے قرب کو بڑھا دیا ۔
اللہ کی محبت اور اس کے قرب کا خواہشمند ہونا انسان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن ہونا چاہیے۔انسان کی خواہش ہونی چاہیے کہ کل قیامت کے دن جب اعمال نامہ پیش ہو تو میرا رب مجھے اپنے مقربین کے ساتھ کھڑا کرے ۔ جب جنت کی بستی میں خدا کا دربار لگے تو انسان خدا کے درباریوں میں کسی پچھلی صف ہی میں سہی موجود رہے۔
روزمرہ کی گہما گہمی میں بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم خود کو نفسانی خواہشات اور زندگی کی رنگینیوں میں اپنے آپ کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں لیکن اچھی تربیت اور سلیم الفطرت انسان جلد اچھائی اور برائی کے درمیان فیصلہ کر لیتا ہے۔ اور اللہ کی شانِ کریمی اسے بڑھ کر تھام لیتی ہے۔
موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے