تاریخ کے  جھروکے سے

ماوراء زیب
جب سورۃ الانفال کی تفسیر پڑھی تھی تو دو آیتیں یاد رہ گئی تھیں۔

يَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۖ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّـٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۖ فَاتَّقُوا اللّـٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَاَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝٓ اِنْ كُنْتُـمْ مُّؤْمِنِيْنَ۔آیت نمبر 1)
*ترجمہ*
وہ آپ سے غنیمت کا حکم پوچھتے ہیں، کہہ دیں غنیمت کا مال اللہ اور رسول کا ہے۔سو اللہ سے ڈرو اور آپس میں صلح کرو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر ایمان دار ہو۔

وَاعْلَمُوٓا اَنَّمَا غَنِمْتُـمْ مِّنْ شَىْءٍ فَاَنَّ لِلّـٰهِ خُـمُسَهٝ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِـذِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِۙ اِنْ كُنْتُـمْ اٰمَنْتُـمْ بِاللّـٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللّـٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (آیت نمبر 41)
*ترجمہ*
اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں بطور غنیمت ملے خواہ کوئی بھی چیز ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اگر تمہیں اللہ پر یقین ہے اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتاری جس دن دونوں جماعتیں ملیں اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
مندرجہ بالا دونوں آیتیں پڑھ کر الجھن کا در وا ہوگیا۔ پہلے کہا گیا مال صرف اللہ اور رسول کا ہے پھر مالِ غنیمت کی تقسیم بتا دی گئی لیکن پہلی آیت پھر بھی موجود ہے۔ اس کا مطلب ہے حقیقت میں مال اللہ کا ہی ہے تقسیم تو بعد میں ہوتی ہے۔
ان آیات کا معاملہ اس وقت سلجھا جب تاریخ کے وہ اوراق نظروں کے سامنے آئے جو جنگِ قادسیہ کا احوال سمیٹے ہوئے تھے۔ تاریخ میں جنگِ قادسیہ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس جنگ نے مسلمانوں کا اصل کردار دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔ آپﷺ کے زمانے میں اکثر مشرکین یہ پیشن گوئی کرتے رہتے تھے کہ آپﷺ کے بعد اسلام ختم ہوجائے گا۔ جنگِ قادسیہ میں مسلمان مجاہدین کے کردار نے یہ ثابت کیا کہ اسلام ہمیشہ رہنے والا مذہب ہے۔ یہ دنیا اور اس کا مال صرف اور صرف اللہ عزوجل کے لیے ہی ہے۔
جنگِ قادسیہ میں مسلمانوں نے بہت مال غنیمت جمع کیا تھا۔ فارس کے ہر شہر سے اتنا مالِ غنیمت ملتا تھا کہ عرب کے سیدھے سادے بدو مخمصے میں مبتلا ہوجاتے تھے کہ اس مال کو استعمال کیسے کیا جائے۔ مدائن کی فتح کے وقت تو سونا وافر مقدار میں ہاتھ آیا یوں معلوم ہوا گویا کہ مدائن میں سونے کی کان موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں سونے کی کوئی کان نہ تھی بلکہ عوام کا خون چوس کر فارسی حکمرانوں نے عیاشی کا سامان ترتیب دیا تھا۔ اس سامان میں ایک قالین بھی ملا تھا جس کا نام ”بہار“ تھا۔ یہ قالین اپنی طرز کا ایک نمونہ تھا اس لیے اس کا ذکر تاریخ کی مختلف کتابوں میں موجود ہے۔
اس بہار نامی قالین کا تعارف یہ ہے کہ اس قالین کا ناپ ساٹھ مربع گز تھا۔ اس قالین پر بہار کے تمام مناظر بنائے گئے تھے۔ اس قالین کے عین درمیان میں سبزہ بنایا گیا تھا۔ قالین کے چاروں طرف نہریں اور  راستے بنائے گئے تھے۔ اس قالین پر ہر قسم کے درخت موجود تھے اور ان درختوں پر ہر قسم کا پھل، میوہ، کونپل اور شگوفہ لگایا گیا تھا۔ یہ تمام چیزوں زر و جواہرات کی بنائی گئی تھی۔ اس قالین کی زمین سونے کے تاروں سے بنائی گئی تھی۔ اس قالین میں زمرد کا قیمتی پتھر بطور سبزے کے لگایا گیا تھا۔  نہریں، نقشے اور روشیں وغیرہ پکھراج سے بنائی گئی تھیں۔ درختوں پر سونے چاندی سے کشیدہ کاری کی گئی تھی، پتے حریر کے بنائے گئے تھے اور پھولوں پھلوں کے لیے ہیرے جواہرات کا استعمال کیا گیا تھا۔
محمد حسنین ہیکل نے اس قالین کے بارے میں لکھا ہے:
”یہ فرش (قالین) ساٹھ مربع گز تھا اور شاہانِ آلِ ساسان اسے موسمِ بہار گزر جانے کے بعد شدتِ سرما میں استعمال کرتے تھے۔ اس پر سلطنت کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ اس کی زمین سونے کی تھی جس پر موتیوں کی نہریں بنی ہوئی تھیں۔ کناروں پر چمن تھے جن میں سبز رنگ کے درخت بنائے گئے تھے۔ ان درختوں کے تنے سونے کے، پتے ریشم کے اور پھل جواہرات کے تھے۔“
*بہار* قالین کی مدائن کے محل میں بہت اہمیت تھی۔ اس قالین کو خزاں کے موسم میں استعمال کیا جاتا تھا اسی لیے اس کا نام ”بہار“ رکھا گیا تھا کہ یہ قالین خزاں میں بہار کی شکل بنا دیتا ہے۔ بعض مؤرخین کے نزدیک اس کا استعمال خزاں گزرنے کے بعد شدتِ سرما میں کیا جاتا تھا۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ قالین دراصل بہار کا موسم گزر جانے کے بعد بہار کی یاد تازہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس قالین کو صرف شراب پینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بادشاہ اس قالین پر بیٹھ کر جام نوش کرتے تھے اور یہ جام نوش کروانے والیاں بھی چنی ہوئی حسین کنیزیں ہوا کرتی تھیں۔ عام کنیزوں کو اس قالین پر آنے کی اجازت نہیں تھی۔
مدائن کی فتح کے وقت یہ قالین مسلمانوں کے ہاتھ بطورِ مالِ غنیمت آیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اس قالین کی تقسیم کے وقت الجھ گئے کہ یہ تو سب کے حصے میں آتا ہے پھر اس کی تقسیم کیسے کی جائے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے تمام مجاہدین کے مشورے سے اس قالین کو خمس کا حصہ بنا کر اور بعض روایات کے مطابق خلیفہ کے لیے بطور تحفہ مدینہ بھجوادیا۔  جب یہ قالین مدینہ منورہ پہنچا تو وہاں بھی اس کی تقسیم کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ آپ کے لیے مجاہدین کی طرف سے تحفہ آیا ہے آپ اسے اپنے پاس رکھ لیجیے لیکن حضرت عمرؓ کو ایسی کوئی بھی چیز اپنے پاس گوارا نہیں تھی جس میں سب کا حصہ ہو۔ ان سب کا اس بات پر یقین تھا کہ مال تو صرف اللہ کا ہے اور اللہ کا حکم ہے کہ صلح کا معاملہ کرو تو معاملہ صلح کا ہونا چاہیے۔ کوئی ایک شخص چاہے وہ خلیفہ ہی کیوں نہ ہو تمام مال اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔
حضرت عمرؓ نے اس سلسلے میں حضرت علیؓ سے مشورہ کیا۔ حضرت علیؓ کا سیدھا سیدھا جواب یہ تھا کہ دنیا میں وہی چیز انسان کی اپنی ہوتی ہے جو وہ اپنی مرضی سے کسی کو دے سکتا ہے یا کھا کر ختم کرسکتا ہے یا پہن کر پرانا کر سکتا ہے۔ یہ  قالین وراثت بن سکتا ہے کیونکہ نہ یہ کھا کر ختم ہوگا اور نہ ہی پہن کر پرانا ہوگا۔ ہوسکتا ہے وراثت میں یہ قالین کسی ایسے بندے کے پاس چلا جائے جو اس کا حق دار نہ ہو لہٰذا اس قالین کو تقسیم ہی کردیا جانا چاہیے۔
حضرت عمر ؓ کو حضرت علی ؓ کا مشورہ پسند آیا۔ چنانچہ اس قالین کو تقسیم کردیا گیا۔ قالین سے سونے اور چاندی کے تار، ہیرے جواہرات، قیمتی پتھر اور موتی سب اکھاڑ کر جمع کر لیے گئے اور حساب لگا کر ان سب کو تقسیم کرلیا گیا۔ تمام چیزیں نوچنے کے بعد جو تھوڑا سا کپڑا رہ گیا تھا اسے بھی پھاڑ کر برابر ٹکڑوں میں کاٹ کر تقسیم کر لیا گیا۔
*غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے*
*جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آراء*
اس تقسیم کا مغربی مؤرخین نے بہت مذاق اڑایا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو بدذوق، آرٹ سے نابلد، ریگستان کے جاہل اور نجانے کیا کچھ کہہ ڈالا ہے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کو اعلیٰ ذوق کی کوئی خبر ہی نہ تھی کہ اتنا نادر قالین تاریخ سے غائب کر ڈالا۔ اصل میں مغربی مؤرخین اس بات سے نابلد تھے کہ مومنین دنیا کے مال کو اللہ کا مال سمجھتے ہیں اور وہ جھگڑے والا مال اپنی اولاد کو وراثت میں دینا بھی پسند نہیں کرتے۔
*یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے*
*وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو*
آج کا مسلمان دنیا اور اس کی محبت میں اتنا گم ہوچکا ہے کہ اپنے اسلاف کا کردار بھول کر غیروں کی تقلید میں اندھا دھند دوڑتا چلا جارہا ہے۔ مال تو اصل میں اللہ اور اس کے رسول کا ہے اس کے بعد اس کی تقسیم کی جاتی ہے۔ آج کے دور میں کسی کے ہاتھ کسی بھی قسم کا مال آجائے تو اسے اپنا حق سمجھ کر چھپا دیتا ہے اور لوگوں سے چھپ چھپ کر خرچ کرتا ہے۔ افسوس ہم اپنے اسلاف کے قدموں کی دھول برابر بھی نہ ہوئے۔

*تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی*
*کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیار

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact