تحریر:آرسی رؤف
اسے رہ رہ کر دادی کی دعا یاد آرہی تھی “خدا تیرا نصیب شہزادوں جیسا کرے”شہزادوں جیسی آن بان سے تو وہ ویسے بھی رہ رہا تھا کہ ابا مڈل ایسٹ میں عرصے سے ملازمت کر رہے تھے اور کافی کچھ چھوڑ کر مرے تھے۔اور پھرنیلم کو پاکر آج تو واقعی وہ خود کو دنیا کا خوش نصیب ترین انسان سمجھ رہا تھا۔کل کا دن خوب تر تھا جب وہ اس کے عقد میں آئی تھی۔صبح  دم اس کے چہرے پر نظر پڑی تو وہ جان ڈن کی “دا سن رائزنگ”کی طرح مصرع در مصرع اس کے دل کے افق پر طلوع ہورہی تھی۔
اس نے اپنے دل کے تمام جذبات،جو اس نے اپنی شریکہء حیات کے لئے بچا کر رکھے تھے تمام تر پاکیزگی اور خلوص کے ساتھ اس کو دان کر نے اور اسے اپنے دل کی مسند پر بٹھا کر ہر تلخی  گرمی  خود پہ سہہ کر اسے زمانے کے تند و  کا ترش سے بچانے کا دل ہی دل میں خود سے عہد کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حنائی ہاتھوں کو اپنے کلچ پر بڑی نزاکت سے ٹکائے ،شرماتی لجاتی وہ پری وش سیڑھی در سیڑھی اس کے دل میں اترتی جارہی تھی۔صد شکر وہ کوئی نامحرم غیر عورت نہیں تھی،بلکہ اس کی منکوحہ تھی۔وہ اسے پا کر بہت خوش تھا۔مرد ہوتے ہوئے بھی اس نے پوری زندگی سینچ سینچ کر قدم رکھا تھا کبھی کسی عورت پر نگاہ غلط ڈالنا تو کجا نگاہ تک اٹھا کر کبھی کسی غیر  عورت کی طرف نہیں دیکھا تھا۔اس نے اپنا دامن داغدار اور میلا ہونے سے بچائے رکھا۔وہ ایسی ہی ہی کسی مثل حور بیوی کا حقدار تھا۔ باپ کو مرے ایک عرصہ بیت چکا تھا،لیکن تین بڑی بہنیں اور ماں جن کی آنکھوں کا وہ تارا،اورہتھیلی کا چھالا تھا،اسے نیلم کے سپرد کر کے نیند آنکھوں میں لئے سونے کے لئے جا چکی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نفیسہ بیگم کو پاکستان آئے ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے۔ان کے بارے میں اس کے علاوہ اور کوئی کچھ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ ایک بیوہ ہیں۔ان کی بیٹی نے نغمانہ  کے کالج میں داخلہ لیا تھا اور اس کو دیکھتے ہی وہ اسے اپنی اکلوتی بھابھی کو روپ میں متصور کرنے لگی تھی۔
………………………….
زندگی کی ستاون بہاریں دیکھ لینے کے بعد بھی تیمور ٹیکسی ڈرائیور  کی وجاہت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔اور پھر آخر اس نے بھی اس خوبرو حسینہ جس کے والدین بھی ایک عرصے سے یہیں مقیم تھے،کی ضد کے سامنے  گھٹنے ٹیک دئیے۔لیکن ایک ماہ بعد ہی ایک ایکسیڈنٹ ہو گیا۔اسکی لاش اس کے اصل وطن پاکستان بھجوا دی گئ۔جس کی خاطر اس نےجتنوں سے ماں باپ کو منایا تھا اس کو تو  قبر کی مٹی بھی  چھونے کو نصیب نہ ہوسکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سویرے ہی نفیسہ  بیگم ناشتہ لیےاپنے ڈرائیور کے ساتھ اکیلے ہی آ براجمان ہوئیں گھر میں اور تھا ہی کون۔ ایک نیلم تھی وہ بھی نیلم انور ملک سے نیلم علی تیمور بن چکی تھی۔ولیمے کی تیاری میں فی الحال کسی کو کوئی خاص جلدی نہیں تھی کہ لنچ کی بجائے ڈنر پر سب مدعو تھے”شبو برتن سمیٹ لو”۔شبو کو آواز لگاتیں  واجدہ تیمور ڈائننگ سے اٹھ آئیں۔ٹی وی ریک کے دراز میں سے ، ٹی وی لاؤنج  کے جہازی سائز  صوفے پر بیٹھی علی تیمور کی والدہ اپنی بہو اور سمدھن کو دکھانے اپنا فیملی البم اٹھا لائیں۔سب ذوق و شوق سے انہیں اپنے خاندان کے ہر فرد سے متعارف کروا رہے تھے۔ایک تصویر پر ان کی نظریں جیسے گڑ سی  گئیں جس میں واجدہ تیمور ایک نوبیاہتا کم سن خاتون کے روپ میں ایک وجیہہ نوجوان شخص کے پہلو میں مسکرا رہی تھیں۔ وہ بولے جارہی تھیں لیکن نیلم کے کان ،ہاتھ،بدن اور دماغ جیسے سن ہو چکا تھا۔نیلم کو اپنے اردگرد ہر سو کیکٹس سے اگے ہوئے محسوس ہونے لگے۔سر پر سورج اپنی چلچلاتی دھوپ سے شعلے برساتا اس کے سر پر کھڑا،حلق میں کانٹے پیوست کرنے لگا۔اور ہر کانٹا ایک بھرپور کیکٹس کا روپ دھارے اس کے بدن کو چھلنی کر رہا تھا۔اسے یوں محسوس ہو رہا تھا اس کے بدن سے  جا بجا لہو کے فوارے ابل پڑے ہیں۔اسے اپنے دماغ کی نسیں پھٹتی ہوئی محسوس ہوئیں۔علی تیمور  ہر بات سے بے خبر مسکراتے  ہوئے پانی کا گلاس  ہاتھ میں پکڑے ان کے پاس آ بیٹھا تھا،اسے اندازہ بھی نہ ہوا کہ دادی کی دعا پوری ہو چکی تھی اور  قسمت اسے قدیم یونانی شہزادے، اوڈیپس

(Oedipus)

کا دوسرا جنم قرار دے چکی تھی۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact