تبصرہ : صالحہ محبوب
مایہ نا ز مصنفہ محترمہ قانتہ رابعہ کا نیا افسانوی مجموعہ “اک سفر تمام ہوا” موصول ہوا۔ کتاب کا ٹائیٹل بہت دیدہ زیب ہے ۔زندگی کے رنگوں سے مزین اور خوبصورت ۔ مصنفہ کا تعارف پڑھ کر حرف چند سے بہت سے عمل کے موتی چنے ۔
کتاب کا پہلا افسانہ” زمانے کے انداز بدلے گئے “حقیقت سے قریب بلکہ تلخ سچائی ہے ۔پہلے تربیت کے لیے بچیوں کی رہنمائی کی جاتی تھی اور اب مائیں اچھی مائیں بننے کی فکر میں ہلکان ہیں ۔
“چار دن کے فاصلے پر “عید میں بدی کی ڈھلوان پر تیزی سے لڑھکنے کو موضوع بنایا گیا ہے ۔اچھی تنبیہ ہے ۔”زمین کے بوجھ” ٹرانس جینڈر مسئلے پر محتاط مگر فکر انگیز کہانی ہے ۔ کہانی اشرف المخلوقات کی پڑھ کر میں حیران بھی ہوں اور ششدر بھی ۔ازدواجی زندگی کا اتنا نازک معاملہ اور اس میں بہترین رہنمائی ۔تجربہ کار اور پختہ سوچ اور پھونک پھونک کر چلتا قلم ۔بہت عمدہ قانتہ
“دل ویران” ایک عمومی رویے کا بیان ہے ۔شوہر کی پسند و ناپسند پر بیوی کے ارمانوں کا خون ۔مگر میری رائے میں آخر میں سدرہ کو تیار ہوناچاہیے تھا ۔امید کی کرن خواتین کو نظر آتی ۔
“ممتا تو بس ماں کی ہے “پڑھ کر دل دھل ہی گیا۔ماں کو بھی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔
“اب تماشا دیکھ “میں بہت سا سامان عبرت ہے ۔بہت عمدہ دیسی گھی کا سبق تو ہم سب کو زبانی اور پکا یاد کر لینا چاہیے ۔محنت سے کمائی گئی نیکیاں کیسے ضائع ہو سکتی ہیں ۔
صدقہ کہانی میں کیا نیا ہی زاویہ نظر ہے ۔سمجھنے اور افسوس کرنے میں کچھ دیر لگی۔
“احساس “میں ملازم یتیم بچے کی بھوک کا خیال رکھنا قاریین کے لیے عمدہ رہنمائی ہے۔”عام الحزن” ہم نے سیرت کی کتب میں پڑھا تھا مگر اسے عمومی غم پر قانتہ ہی منتبق کر سکتی ہے ۔کہانی کے آخر کی دعا تو ہر سہاگن کے دل کی آرزو ہے ۔”اپنے من میں ڈوب کر “شکر گزاری اور صحت کی نعمت کے احساس پر اچھی کہانی ہے ۔
“عارضی ٹھکانہ “بھی دنیا کی بے ثباتی پر احساس دلاتی تحریر ہے ۔یو ٹرن میں دو مسائل اور ان کا حل ہے ۔شادی کے بعد نئے ماحول کا فرق ۔کھانا پکانے اور برتنے میں تبدیلی ۔دلہن کی تعریف کی تمنا اور سسرال کا سرد رویہ ۔مگر خاصے کی چیز غیبت کا احساس اور اس سے بچنے کی کوشش ہے ۔حل نکل آتے ہیں مگرنیک نیتی کی بدولت ۔
اس کتاب کی بہترین کہانی مجھے” بھید “لگی ۔شہناز بیگم کا ایک مخنس کی پیدائش پر ردعمل معاملہ فہمی اور دور اندیشی ۔اس مسئلے کا ایسا عمدہ حل قانتہ کے قلم کا بہترین استعمال ہے ۔
“نیا ذائقہ “انفاق فی سبیل للہ کا جذبہ جگاتی کہانی ہے ۔”گھنا سایہ “بیرون ملک کام کرنے والوں اور ان کے خاندانوں کے مسائل پر روشنی ڈال رہی ہے ۔والد کا سایہ اولاد خصوصاً بیٹیوں کے لیے ازحد ضروری ہے ۔
“اک سفر جو تمام ہوا “دین دار گھر کے لڑکے کے سنگر ایکٹر اور ماڈل بننے اور ماڈل سے شادی کرنے کے سفر اور ندامت و احساس کے ساتھ پلٹنے کی داستان ہے ۔والدین کی
دعاؤں کی تاثیر پر اچھی تحریر ۔
“فالوز کی دنیا “پڑھ کر مصنفہ کے دور جدید کی نئی بدعات سے شناسائی کا اندازہ ہوتا ہے ۔بالکل جعلی اور نقلی دنیا جو صرف دکھاوہ ہی دکھاوہ ہے اور اسکے نقصانات ۔ولی بھی کمانے کے لیے بیرون ملک جانے اور پھر فضول خرچی کے رجحان کے بارے میں معاشرتی کہانی ہے ۔تقدیر موجودہ دور کی مادہ پرستی کی منظر کشی ہے ۔جس کا اختتام خاصا مضحکہ خیز ہے ۔
“نسلوں کی امین “آزادی کی اہمیت اور دو قومی نظریے پر لکھی کہانی ہے۔” اپنی نبیڑ تو “تو دور جدید میں موبائل کی ایپلیکیشن کے جائز ہونے یا نہ ہونے پر سوال کی دلچسپ روداد ہے ۔ کتاب کی آخری کہانی میں طوبی للغربا کا مفہوم سمجھ میں آرہا ہے ۔ قانتہ کی کتاب کی چھپائی بھی اچھی ہے اور املاء بہت درست ۔کہیں کوئی غلطی نہیں نظر آتی ۔کہانی کے ساتھ تصویروں نے اچھا تاثر چھوڑا ہے اور آخری صفحے پر مصنفہ کی ساری ہی کتابوں کی تفصیل ہمیں خوش بھی کر رہی ہے اور متاثر بھی ۔خوش رہو قانتہ اور بہترین کہانیاں لکھتی رہو ۔ محبت کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ کتاب منگوا کر شیلف میں نہیں رکھی بلکہ دل و دماغ کی زینت بنا لی ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.