تبصرہ نگار: قیصرہ شفقت
“عائشہ کہنے لگی : ماں اس واقعہ کو سنسر کر دینا چاہیئے
اسد نے کہا: نہیں جب لکھ رہی ہیں تو سچ لکھیں اورسب لکھیں،
اور اس ایک واقعہ نے پورا ہفتہ مجھے دلگیر رکھا ۔
جیسے میرے دل میں پھانس اٹک گئی
پھر خود کو کیسے آمادہ کیا کوئی مجھ سے پوچھے”
ایک ایسی حسین و جمیل ادیبہ جو صاحبِ ہنر ہیں جن کے رواں قلم نے ایک تہذیب کو نہ صرف قلم بند کیا بلکہ جانتی ہیں لفظ کو برتنا ،اتنی سچی اور صادقہ کمال ہےاور پھر پٹھان ، ہندکو و سرائیکی کلچر اور ریت رواج سُچی تہذیب گو کہ اب قصّۂِ پارینہ بن چُکی ہے- وہ خوراکیں وہ گلی کُوچوں میں بِکنے والے چینی والے لچھے، آلو کچالو، میوے گُڑ اور بھنے ہوئے بھٹوں کا مزہ اور محلوں اور خاندانوں کی محبتیں اور اُس کے خدوخال نصرت نسیم صاحبہ نے اپنے صائب قلم سے کاغذ کے پَنّوں پر ایسے اُتارے گویا ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر بنوں کوہاٹ پشاور بلکہ پورے کے پی کے کی تاریخ لکھ دی جو اُن کی زندہ وجاوید کتاب میں درج ہے۔
لاہور میں تھی جب عظیم میری کتاب “قصّہ چار نسلوں کا” بُک کارنر جہلم سے منگوا رہے تھے تو بزنس مائنڈڈ عظیمُ جو بہت پڑھے لکھے نوجوان ہیں اور عزیزہ حبیبہ جیسی گُنوں والی لڑکی کے شوہرِ نامدار ہیں- بڑے پَتّے کی بات کی جب میں نے کہا : عطیم بیٹے! وہ کتاب شاید آپ کے مطلب کی نہ ہو وہ تو بس میں نے فرصت کے لمحوں کو زندگی دے دی۔
تو عظیمُ کہنے لگے : آنٹی ! آپ کے اُستادِ محترم جناب رَؤف کلاسرہ کی کتاب “ایک قتل جو نہ ہوسکا “پڑھ کے بیٹھا ہوں ۔ایسی تلخ حقیقتوں پر بس آنکھیں بھیگ گئیں۔ اُنھوں نے آپ کی کتاب کو بہت سراہا ہے تو کتاب مجھے پسند آئے گی اور میں سمجھتا ہوں اصل تاریخ عام لکھاری لکھتا ہے کیونکہ وہ بلا جھجھک سچ بولتا چلا جاتا ہے-کوئی رکاوٹ مانع نہیں ہوتی۔
عظیم کی بات کی سچائی مجھے سچائی کی مُروارید نصرت نسیم صاحبہ کی یہ کتاب پڑھ کر بالکل درست لگی۔
میرے جیسی لکھاری کی تو روشنی کے چاندنی چوک کے آگے کوئی وقعت ہی نہیں۔جن معتبر ہستیوں نے اُن کی بُک پر تاثرات دیئے ہیں وہ تو یاقوت کا ہار ہے جو شفاف خوشبودار مالا کی صورت نصرت صاحبہ کے گلے کا ہارہے۔
شجاعت علی راہی صاحب، جنہوں نے آپ کے بارے لکھا ، وہ حاملِ مطالعہ اور اور قلم کے ساتھ الفاظ کی حرمت سے آگاہ ہیں،
پھر صفدر ہمدانی صاحب نے اتنا پیارا لکھا – ناصر علی سیّد تحریر کے ساتھ ساتھ اچھوینی سے بھی کام و دہن کا کام لیا چاہے تصور کی دُنیا میں
اور ماحول میں ایسے اُتارتی ہیں کے قاری اُن سے چپک کے بیٹھ جاتا ہے۔
ریل گاڑی کے سفر کے ساتھ عجیب سی رومانیت جُڑی ہے جو مصنفہ محسوس کرتی ہیں ویسا ہی مجھ پر بیتتا ہے۔
بھُٹے بھنوانے ہوں،سردیوں میں پوندوں کی آمد مٹی کے برتن ، گھونگڑیاں ، کونڈے، لاؤڈ سپیکر پر نعتیں اور منقبتوں کے علاوہ شادیوں پر گانے، تنور کی پتیری روٹیاں،پشاور کے دروازوں کا ہوڑا،پشاور کی ڈومنیاں،پارا چنار کی بڑی بڑی چاہائیاں یعنی ماچے اوربڑے تھالوں میں شولہ کھانا، کافرستان کے مُردوں کی ہڈیاں اور زیورات،کافرستان کی دوشیزاؤں اگلے سال نیا دُلہا چُن لینا اور سوئی دھاگے سے ٹک لگانا سب بے حد دلچسپ اور الف لیلوی داستاںیں ہیں،
نیازیں ،مُربے،گھوگھڑے پھیلیاں ،دُلہا و دُلہن کے پھولوں کی لڑیوں والے سہروں کی باتیں ہوں کتنا اچھا فقرہ لکھا “وقت اور پیسہ دونوں میں برکت تھی” سچ میں تھی۔
کوہاٹ سے ٹل تک ریل کاحسیں سفر، کتاب دوستی اور کتابوں کے انبار اور پھر شخصیات نگاری کا کمال ، ڈیڈی کی پُر سحر شخصیت اور یوں اُنکے مسحور کُن خوب صورت گھر میں آنکھ کاتارا بن کر بچپن سے لڑکپن و جوانی کے مدارج آس پاس انکل ، دیدی ، بجو اور پھوپھو جیسی شخصیات کا ہونا – کتاب سے عشق اور سہولت اس ماحول کی ودیعت ہے ان تینوں خواتین کی ادھوری خوشیاں جس انداز میں تحریر کی ہیں آنکھیں نم ہوگئیں- اُن کی پیاری شخصیات دل پر نقش ہوکر رہ گئیں،
اپنے پیاروں کے حُسن اور حسنِ اخلاق کے قصّے مبہوت کرنے کو کافی ہیں- پھر کوئی سنسنی خیز یا المناک واقعہ لکھ کر جھنجھوڑ دینا جیسا کہ کوہاٹ میں پینسٹھ کی جنگ میں سر بُریدہ اجسام جو ایک بم پھٹنے کا نتیجہ تھا ،بہت لرہ خیز واقعہ ہے،
پھر دلچسپ و متوجہ کرنے والے واقعات جیسے کوہاٹ کی مشہور سیاسی شخصیت افتخار گیلانی جو حسینہ مسرت نذیر گلوکارہ و ادکارہ کے بہنوئی تھے -اُنھوں نے چاندی کے جوتے اپنی بیگم صاحبہ کے لئے بنوائے جو مصنفہ نے بھی ویسے بنوائے کہ آئیڈیا اچھا تھا جو اُنھوں اپنے ستاروں سے بھرے جھلمل کرتے بلیو ریشمی سوٹ سفید ڈوپٹہ اور چاندی کے جوتوں کے ساتھ قابل دید تھا۔
دریائے کُنڈکے کنارے ریسٹ ہاؤس کی شہد کی مکھیاں اور پورے چھتے کی مکھیوں کا لڑکیوں کے پیچھے لگ جانا بہت سنسی خیز اور دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔
مصنفہ جس چابکدستی سے شخصیت نگاری کرتی ہیں اسی دلکش انداز سے مختلف جگہوں کے سیر سپاٹے ، خصوصاً کافرستان کاسفر ، کراچی پھر موہنجوداڑو، شہباز قلندر اور وہاں کا دھمال، جھیل سیف الملوک کے بارے میں ریل سفر کے قصّے سب کسی ماہر و من موجی سیاحت کے رسیا کی طرح بہت باریک بینی سے لکھے ہیں۔
اپنے اساتذہ، تعلیمی مدارج ، سہیلیوں اور ہاسٹل کے قصّے اور ماحول کو جس زاویہ نگاہ سے جانچا اور لفظوں کو سفید کاغذ پر جس انداز میں لکھا بہت کم لوگ ایسا لکھ سکتے ہیں کہ ماحول اور شخصیات بلکہ اس دور کی تہذیب سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔
سچی بات ہے کہ وہ کوئی صدیوں پُرانی تہذیب و تمدن نہیں بلکہ چند دہائیوں پہلے کی بات ہے مگر آج کے دور سے موازنہ کریں تو لگتا ہے جیسے وہ ہم نہ تھے وہ تہذیب و اقدار وہ رکھ رکھاؤ وہ وضع داری وہ سچائیاں چند دہائیوں میں اُڑن چھو ہوگئیں۔
اچھا ہے نصرت صاحبہ نے قلمبند کرلیا ورنہ تو وہی چینی والا لچھا یا آج کل کی کاٹن کینڈی جیسے چُھوا ،ہونٹوں کو لگایا ،منہ ڈالا تو گویا سب گُھل گیا – اُس دور کے سارے رنگ کہیں گھُل مِل گئے ہیں – اُن کے ڈیڈی ، بجو، دیدی اور پھوپھو کی طرح رزق خاک ہوگئے ہیں وہ وقت وہ لمحے وہ پل اور ہمارے لوگ۔نصرت صاحبہ جو ایک خوب صورت ہمہ جہت شخصیت ہیں اپنے خاندان کی پہلی بہت پڑھی لکھی لڑکی ،مانی پرمانی مقررہ ، مصنفہ ، کتابوں شیدائی ، لیڈی کونسلر ، پرنسپل و سوشل ورکر لیکن کیوں ؟آخر کیوں ؟احتجاج تک نہ کیا “تھپڑ “ بھئی یہ کوئی صبر نہیں یہ غلط تھا ایسے کیسے فزیکل ہونے دیا ، پورا خاندان بَلا سے زہر کا گھونٹ بھر لیا آپ نے کیوں اسے صبر کا نام دے کر باب بند کردیا!
“عابدہ حُسین صاحبہ بڑا سا سگار پیتے ہوئے بِلا تکان بولے چلے جارہی تھیں- جبکہ اُن کے برعکس فخر امام صاحب حسبِ عادت خاموشی سے میوہ جات کھا رہے تھے – مجال ہے کے فخر امام کو اس پورے دورے میں تقریر کے علاوہ بولتے سُنا ہو”،یہ سب آپ نے لکھا۔
بھائی صاحب نسیم بھائی صاحب کے کتنے گُن آپ نے بتائے کہ اُلٹا بندہ اُن کے کردار کا قائل ہوجائے اپنا بھی تو بتائیں کہ تعلیم کے اتنے فرق کے باوجود آپ نے ہر طرح کا ماحول اور زندگی کو جیا و برتا۔
اپنی کتاب کی اصلی و موتیوں جیسی سُچی ہیرؤئن تو آپ ہیں۔
ورنہ لُتری لُتری بے باک ، گھریلو سیاست کی فتنہ ساز صنفِ نازُک کو آپ جیسی پڑھی لکھی خاتون مزہ چکھاتی تو کتاب رنگ اور گوڑھے ہو جاتے بےحد دلچسپ و دلاویز ہو جاتے، مزہ آجاتا۔
آپ ایک سادہ ،ذہین ،سلجھی ہوئی حسینہ ہیں جسے رَبّ نے اتنے گُن دیئے پر تھوڑی سی اگلے کو ٹکور لگانے کی عادت بھی مل جاتی تو سونے پر سہاگہ ہوتانسیم بھائی صاحب تو اپنی قسمت چاندی بھی نہیں سچ میں سونے کے ورقوں میں لپیٹ کر لائے ہیں- آپ جیسی شریکِ حیات ملی۔
بس ایک چیز پر آپ کوتھپڑ پر بخشا ، حالانکہ کتنے دن میں بکھری رہی کہ فریحہ ، اسد اور عائشہ کو نکھارنے والی ماں نے اپنے گھر کے ماحول کو ہمیشہ پُرسکون اور پڑھا لکھا رکھا – ورنہ فخر امام صاحب وقابلیت و ذہانت میں اپنی نصف بہتر سے بڑھ کر ہیں- عابدہ بی بی نے راج کئے۔
آپ کے شعر نے مجھے بہت متاثر کیا، جو آپ نے اپنے جگر پاشوں کے لئے لکھا:
تمہارے دم سے ہے مرے لہو میں کھلتے گلاب
یہ میری زیست کا سارا نظام تم سے ہے
بس یہی گلاب کھلانے کا شوق کی وجہ سے آپ کو معافی مل گئی۔
آپ کی حسینہ دیدی کے لئے بھی آپ کے ڈیڈی نے ولن کا سا کردار نبھایا حالانکہ کتنے نفیس اور وضع دار تھے – پریوں کے دیس کی رانی جیسی بیٹی بھی رول دی۔
خوش رہیں ۔قلم کو نکھار بخشنے والی پیاری مصنفہ نصرت نسیم صاحبہ۔
اس خاموش ماحول میں نصرت صاحبہ کو پڑھنا بھی افسانوی عمل ہے
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.