Saturday, April 27
Shadow

رباب عائشہ کی خودنوشت “لمحوں کی دھول”، تاثرات: نصرت نسیم

تاثرات: نصرت نسیم

بہت پیاری رباب عائشہ کی منفرد خود نوشت لمحوں کی دھول  کا مسودہ میرے ہاتھوں میں ہے ۔اور۔مجھے بے پایاں مسرت محسوس ہورہی ہے ۔اس مسرت کی وجہ تو آخر میں بیان کرونگی ۔
فی الوقت لمحوں کی دھول پر بات کرتی ہوں ۔جو لمحوں کی دھول نہیں ۔بلکہ ایک پورے دور پورے عہد کو رباب نے پوری سچائی کے ساتھ محفوظ کردیا ہے ۔
آج سے 50 سال پہلے کا روالپنڈی ،مقامات۔،حالات ،رشتے داریاں ،رسم۔ورواج وضع۔داریاں ،محبتیں  ان سب رنگوں سے دمکتی خود نوشت ہے۔
یہ ایک کارکن صحافی اورجرات مند خاتون کی داستان حیات ہے ۔کہ جس نے کارزارِ حیات کی کٹھنایئوں اوررکاوٹوں کاڈٹ کر مقابلہ کیا ۔دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اخبار کی نوکری کو ئی آسان بات نہ تھی ۔مگر ہمت و حوصلے کے تیشے سے اس نے مشکلات کے کوہ گراں تسخیر کئے ۔
پچاس سالہ صحافتی زندگی کی اس داستان میں عائشہ نے بڑی جرات اورسچائ کے ساتھ ملک کے دو بہت بڑے اورمشہور اخبارات کے اس تلخ اورناروا سلوک کابھی ذکر کیا ہے ۔جنگ کی 25 سالہ خدمات کے باوجود انہیں کنٹریکٹ نہیں دیاگیا۔نواے وقت نے بھی ان سے وعدے ایفا نہیں کئے۔افسوس صد افسوس کہ وہ جو سچ اور نیکی کے پرچار کے دعویدار ہوتے ہیں ۔ان کے مالکان کارویہ بھی سرمایہ داروں سے کم نہیں ہوتا ۔
رباب کے اندر عجز و انکساری ہے ۔رباب عائشہ کی والدہ علیگڑھ کی گریجویٹ تھیں ۔مشہور ادیبہ الطاف فاطمہ سگی خالہ زاد بہن تھیں ۔علمی وادبی خاندان سے تعلق رکھنے والی رباب عائشہ حددرجہ منکسر المزاج ہیں ۔جب وہ لکھ رہی تھیں تو خاندان کے ان تمام علمی وادبی لوگوں کاتذکرہ نہیں کرنا چاہ رہی تھیں ۔کہ اسے بڑائی پر محمول نہ کیاجاے ۔میں نے کہا نہیں آپ یہ سب ضرور لکھیں ۔پھر کہنے لگیں ۔میں تو سادہ سا لکھتی ہوں ۔تمہاری طرح نہیں لکھ سکتی ۔میں نے کہا ہم نے تو آپ سے لکھنا سیکھا ہے۔تو یہ ان کی انکساری اوربڑا پن ہے ۔ورنہ جس عمدہ اسلوب اورموثر پیراے میں انہوں نے لکھا ہے ۔وہ انتہائی دلکشی ہے ۔سادگی وسلاست کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ ادبی اورتخلیقی جملے کتاب کوحسین تر بناتے ہیں ۔خاص طور پر آخری ابواب جہاں وہ جوانی اور اپنے حسن کاتذکرہ کرتی ہیں ۔ایک حسین وجمیل خاتون کا پورے وقار اور شائستگی کے ساتھ صحافت کے میدان میں رہنا بڑی بات ہے ۔
 ،نمود ونمائش سے دوربہت باوقار رباب جی آپ اب بھی خوب صورت ہیں ۔سفید بالوں کے ساتھ بہت پاکیزہ اورباوقار دکھائی دیتی ہیں ۔پیرانہ سالی  اور نظر کی خرابی  کے ساتھ آپ نے جس طرح قلیل عرصے میں تین کتابیں تصنیف کیں ۔یہ سب قابل تعریف بھی ہےاور قابل تقلید بھی ۔
سلامت رہیں لکھتی رہیں ۔

حالیہ عرصے میں ان کی کتب ” سدا بہار چہرے” اور”خاک کے آس پاس “زیور طباعت سے آراستہ ہوکر سامنے آئیں ۔
اوراب” لمحوں کی دھول “آپ کے سامنے ہے ۔
رباب جی کی یہ کتابیں میرے لئے سرمایہء افتخار ہیں ۔میں ان کی ہمت واستقامت کوبھی سلام پیش کرتی ہوں ۔انہیں خوش دیکھ کر ،اپنی خوشی کوبیان کرنے کے لئے میرے پاس لفظ نہیں۔
 سلامت رہیں قلم بدست رہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact