Wednesday, May 1
Shadow

زندگی کی حقیقتوں کا عکس: “آئینے کے پار”/ تبصرہ نگار: ماہم جاوید

مبصرہ : ماہم جاوید

چند دن پہلے “مہوش اسد شیخ” کا افسانوی مجموعہ موصول ہوا ۔اس کے ساتھ چند ایک کتابیں اور تھیں ۔یوں تو سب کتابیں بہت خوب ہیں مگر جو وجۂ جاذبیت بنا وہ تھا کتاب کا سرورق ۔کتاب کے سرورق کے بارے میں کیا لکھوں ؟میں خود ایک طلسماتی دنیا میں رہنے والی لکھاری  ہوں ۔اس لیے کتاب کا سرورق دیکھتے ہی میں ایک طلسماتی دنیا میں چلی گئی ،ایک بے حد خوبصورت  کتاب  جس کے افسانوں نے مجھے یہ سکھایا کہ ہر سوال کا جواب ضرور ہوتا ہے ۔ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہوتی ہے ،ہر بند دروازے کی کنجی ہمارے آس پاس ہی ہوتی ہے ۔فقط ضرورت ہے تو اسے ڈھونڈنے کی ۔اسے کھوجنے کی۔

پہلا افسانہ پڑھتے ہی اس بات کا اندازہ ہوا کہ مصنفہ معاشرے کے بظاہر چھوٹے چھوٹے نظر آنے والے مسائل پر بڑی وسیع نظر رکھتی ہیں ۔افسانہ ” میری کشتی وہاں ڈوبی” اس ہی بات کی غمازی کرتا ہے کہ بظاہر نظر آنے والے چھوٹے مسائل اور چھوٹی چھوٹی خواہشات  انسان کو اندر سے کیسے کھوکھلا کردیتی ہیں کہ وہ حقیقت پر جھوٹ کے پردے ڈال کر خود کو مطمئن کرتا ہے ۔ آخر میں صحیح لکھا گیا کہ “نجانے یہ مصنف لوگ اپنی کتابوں پر جوانی کی تصویر لگا کر کس جذبے کی تسکین کرتے ہیں”۔ دراصل ہم سب ہی اپنی حقیقتوں پر پھولوں کی چادر اوڑھا کر خود کو چھپانے کی سعی کرتے ہیں۔

” اعتبار کا موسم “۔ بے شک ہر انسان کو اعتبار کے موسم کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور سب سے زیادہ قلت اس ہی جذبے کی پائی  جاتی ہے میاں بیوی کا خوبصورت رشتہ اگر شکوک سے پاک رہے تو دنیا کا کوئی  گھر کبھی نہ اجڑے ۔ ” ذرا سوچئے گا ” دل دکھا دینے والا حقیقت کا ایسا منظر جو ہر آنکھ دیکھتی ہے مگر اس پار آواز اٹھانے کی جرات کوئی  نہیں کرتا ۔اس افسانے کو پڑھ کر دو اسباق ملتے ہیں ۔ایک یہ کہ گناہ سے منسوب ہر انسان گناہگار نہیں ہوتا ،کچھ لوگ اس دلدل میں رہتے ہوئے خود کو اس سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ،جیسے اس کے ایک کردار کو دکھایا گیا ہے اور دوسرا یہ کہ انسان اگر اپنے جائز رشتوں پر راضی رہے تو اسے کہیں بھٹکنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔یہاں ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کا فرض  ادا کرنے کے لیے کسی کی بیٹی کے لیے مشکلات نہ کھڑی کریں۔ “۔

 توبہ کے نفل” بے حد حساس موضوع ہے اسے پڑھ کر جانا کہ انسان کبھی بھی سامنے والے کا دکھ نہیں سمجھ سکتا، جب تک کہ خود کو اس کی جگہ رکھ کر نہ سوچے ۔بظاہر نظر آنے والے کھلتے گلابوں میں کئ کانٹے پوشیدہ ہوتے ہیں جو اس گلاب کی پتیوں کی نرماہٹ کو متاثر کرتے ہیں۔ افسانہ ” ناانصافی” دل دہلا دینے والا درد ناک وکرب ناک افسانہ تھا ۔میں واقعتاً بہت دیر تک اس کے اثر میں رہی۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے کئی بار انسان مسلسل دکھ دینے والے رویے جھیل کر اپنی برداشت کی حد ختم کرلیتا ہے اور پھر وہ شاید اپنا انسان ہونا بھی بھول جاتا ہے۔

افسانہ “آخری ورق ” اس افسانے کو پڑھ کر سب سے پہلے تو مجھے شدید ٹینشن ہوئی ۔مہوش اسد کا نام دیکھ کر کہ  ایسا لگا کہ وہ اپنے ہی کسی تجربے کو تحریر کر رہی ہیں مگر بعد میں جب انہوں نے اپنے ہی لیے ایسا دردناک انجام لکھا تو میں شدید پریشان ہوگئ  تاہم آخر میں محترمہ نے بتایا  کہ یہ ان کا تخیل تھا اپنے مستقبل کے لیے  تب ہمارے چہرے پر مسکراہٹ اور جان میں جان آئی ۔

” چور رستہ”۔ اف یہ مسئلے آج سے قبل کتنے چھوٹے لگتے تھے شاید ان مسئلوں پر کوئی بات ہی نہیں کرنا چاہتا اور جو کرتے ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے کسی بھی انسان کو اتنا مت ترسایا جاۓ کہ وہ چور رستہ اختیار کرلے ۔بے شک چیزیں فانی ہیں  مگر بخیل ہونے کے بارے میں ایسے لوگوں کو اسلام کے احکامات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ” ناولوں کی دنیا” جس طرح تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں اسی طرح زندگی کے بھی دو رخ ہوتے ہیں جیسے کہ میں نے کہا کہ میں بذاتِ خود خوابوں میں رہنے والی لڑکی ہوں ،یہ جانتے ہوئے بھی کہ آنکھ کھل جانے پر سب غائب ہو جاتا ہے یونہی مجھ جیسی کئ اور لڑکیاں  اور کردار ہیں جو آج بھی ناولوں کی دنیا میں رہتے ہیں ۔کیا کریں ناولوں کی دنیا ہوتی ہی اتنی حسین ہے کہ ہم حقیقت سے تھوڑے وقت کی چھٹی لے لینا چاہتے ہیں۔ افسانے میں لکھا گیا کردار بے شک بہت معصوم اور حساس دکھایا گیا ہے ۔مجھے نہیں لگتا کہ خوابوں کی دنیا میں رہنا غلط ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ ہمیں خوابوں کی دنیا سے کھینچ کر لانے والے غلط ہوتے ہیں ۔وہ لوگ حقیقت کو خوابوں جیسا بننے ہی نہیں دیتے ۔اللہ سب کی زندگیاں پرسکون رکھیں آمین ثمہ آمین “

“آئینے کے پار ” ہر بن بیاہی لڑکی کی داستان ہے یہ غم ہمیں اس قدر عادی بنا دیتے ہیں کہ ہم جانتے ہوۓ بھی کہ یہ تنہائی کا سفر نہ ختم ہونے والا ہے خود کو بہلاتے ہیں ،خود کو کسی آئینے میں الجھا کر ،کسی شہزادے کے خوابوں میں الجھا کر ،ویسے ہی جیسے اکثر اکیلے رہنے والے بچے اپنے لیے ایک امیجنیری فرینڈ بنا لیتے ہیں۔

 ” آہ” کرب ناک کہانی ہم سب جانتے ہیں کہ اپنے سگے رشتے ہمیں کبھی بددعا نہیں دیتے مگر کیا کبھی ہم خود میں جھانک کر سوال کرتے ہیں کہ ہم واقعی دعاؤں کے اہل ہیں بھی یا نہیں ۔کسی کی زبان پر اگر چپ لگ جائے تو دل کی آہ بہت شدت اختیار کرتی ہے ۔ہر انسان کو ظلم کرنے سے قبل مظلوم کی آہ سے ڈرنا چاہیے

” دوسرا رخ “کے تناظر میں  یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ہم انسان بنا سوچے سمجھے کسی کے بارے میں کوئ بھی رائے اختیار کر لیتے ہیں اور یہاں ایک اور بات پتا چلتی ہے کہ ہر پھپھو چالاک نہیں ہوتی اور ہر ساس ظالم نہیں ہوتی ۔

زندگی کبھی کبھی زندہ رہنے کا ایسا محصول مانگتی ہے جسے ادا کرتے کرتے ہم خود مر جاتے ہیں موت بے شک اٹل حقیقت ہے مگر کوئ مرنا نہیں چاہتا مگر بعض اوقات زندگی اتنی تنگ ہوجاتی ہے کہ جینے سے بہتر مرنا ہوتا ہے اور پھر شاید سب ہی اس بات کی حقیقت سے واقف ہوجاتے ہیں کہ شاید اب اس کا جینا اس سے مزید مشکل میں ڈال دے گا اور یہی ” ” آخری سورج” کے کردار کے ساتھ ہوا ،اللّٰہ سب پر اپنا کرم فرمائیں۔

 ” سونا آنگن ” یہ کہانی ہر اس ماں کے لیے ہے جو ماں ہے مگر اس کی گود خالی ہے اور جو ماں ہے مگر اس کی جیب خالی ہے ۔یہ کہانی دلسوز اور اشکبار کردینے والی کہانی تھی ۔کئ بار زندگی ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے کہ ہمیں اپنے ہی کلیجے کے ٹکرے خود سے جدا کرنے پڑتے ہیں ،یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ایک جسم کے دو حصے الگ الگ مقام پر زندہ رہیں تو ان کے درمیان کتنی دوری آجاتی ہے۔

 ” روز محشر ” اف ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی تحریر۔ بے شک ہر قاری کے قلم سے خیر و شر جاری کرنے کا فیصلہ اس کا اپنا ہوتا ہے اور قلم ایک صدقہ جاریہ ہیں ۔قلم ایک ایسی جنگ کا ہتھیار ہے جو کئ لوگوں کو اندر تک بدل دینے کی طاقت رکھتی ہے ۔اللّٰہ ہم سب کے قلم سے خیر جاری فرمائیں آمین ثمہ آمین۔

” توکل” انسان بہت ناشکرا اور بے صبرا ثابت ہوا ہے کبھی کبھی ہماری ناشکری اور بے صبری یا جلد بازی ہمیں کئ ایسے مسئلوں میں الجھا دیتی ہے جس سے ہم پوری عمر نہیں نکل پاتے اور جس جال کے میں پھنس کر ہمارے اپنے بھی متاثر ہوتے ہیں ،اولاد اللّٰہ کی طرف سے ملنے والا عظیم اور عزیز تحفہ ہے اور تحفہ کہیں س بھی آۓ اسے دیکھ کر خوشی ہی محسوس ہونی چاہیے اور یہ تحفہ تو رب کریم کی عنایت ہے ۔بیٹا اور بیٹی میں تفریق رکھنے والے  اس انسانی حقوق کی کبھی پاسداری نہیں کرسکتے۔ آخر میں یہی لکھوں گی کہ یہ مہوش اسد شیخ  کی  پہلی کتاب تھی جو میں نے پڑھی اور جسے پڑھ کر اتنی ہی خوشی ہوئی جتنی کسی ماہر اور قابل لکھاری کو پڑھ کر ایک قاری کو ہوتی ہے ۔اللّٰہ ان کے قلم کی طاقت کو مزید اجاگر کریں اور یونہی ہمیں اپنی خوبصورت تحاریر سے اچھے اچھے پیغام دیتی رہیں ۔اللّٰہ عمر میں برکت دیں اور آپکی محنت قبول فرمائیں۔

                                                   

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact