تبصرہ کرن عباس کرن
’’جہنم کا کیوبیکل نمبر 7‘‘ کتاب پریس فار پیس کی ٹیم کی وساطت سے مجھ تک پہنچی، جس کے لیے ان کی بہت مشکور ہوں۔
افسانوں کے اس مجموعے کی سب سے دلچسپ بات اس کا نام ہے۔ کتاب موصول ہونے کے بعد جس نے بھی کتاب کو دیکھا اس نے حیرت اور تجسس سے کتاب کو الٹ پلٹ کر ضرور دیکھا اور کتاب کے نام کے بارے میں اپنی حیرت کا اظہار کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف کور پیج بلکہ کتاب کا نام قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں بہت اہمیت رکھتا ہے، لیکن دلچسپ امر یہ کہ نہ صرف کتاب کا نام بلکہ تقریباً ہر افسانے کا عنوان کچھ ایسا ہی منفرد ہے۔ پہلا افسانہ ’’بجازو‘‘ مکمل کرتے ہی مصنف کے لیے داد و تحسین کا جذبہ ابھرتا ہے اور جوں جوں مزید افسانے سامنے آتے جاتے ہیں اس جذبے میں مزید تقویت آتی جاتی ہے۔ ہر افسانے کا اختتام اور آخری جملہ افسانہ نگار کی تخلیقی اور فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے جو بے ساختہ قاری کو داد دینے پر مجبور کر دیتا ہے۔
افسانوں کے موضوعات کی بات کی جائے تو مصنف نے موجودہ دور کے حقیقی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن موضوعات پر لکھا ہے جن پر لکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اپنے افسانوں ’’سیاہ کمرے کے مکین‘‘ اور ’’جہنم کا کیوبیکل نمبر 7‘‘ میں وہ ایک قلم کار کو جیسا دیکھنا چاہتے ہیں یا اس سے جیسی امید رکھتے ہیں وہ خود اس کی عملی تفسیر ہیں۔
کتاب کے مطالعے کے دوران جس افسانے نے مجھے شدید متاثر کیا وہ حکمرانی کے بے رحم میوزیکل چیئر گیم پر مبنی افسانہ ’’بارش نہیں ہو رہی‘‘ ہے۔ بے رحم سیاسی نظام پر اس وقت اس سے بہتر نوحہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ افسانہ میں نے اس وقت پڑھا جب ملک کے حالات سے دل برداشتہ کئی نوجوان سمندر کی بے رحم موجوں کی نظر ہو گے تو عین اسی دوران سینٹ کے چیئرمین کی بعد از ریٹائرمنٹ مراعات موضوعِ بحث بن گئی، دوسری طرف جس ریاست کے کئی نوجوان اس بدقسمت کشتی میں سوار تھے تو وہاں کے سابق وزرا کے لیے مراعات کا اعلان ہو رہا تھا، ساتھ ہی کرسی کی اس جنگ میں ایک چھوٹی سی ریاست کے لیے وزرا کی لمبی فوج کی تیاری بھی حتمی ہو چکی تھی۔ اب جب کہ صداؤں پر بھی قدغن ہے، ایسے میں علامتی انداز میں تحریر کردہ ’’بارش نہیں ہو رہی‘‘ افسانہ اس نظام کے منہ پر زوردار تماچہ ہے۔ محض اس ایک افسانے کو پڑھ کر لگتا ہے قلم کار نے قلم کا حق بخوبی ادا کر دیا ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اس افسانے کو ہر اخبار میں شائع اور ہر کسی کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس افسانے سے چند سطریں ملاحظہ ہوں
’’یہاں محل میں کئی اہم ترہن امور ہماری توجہ کے زیادہ حقدار ہیں۔ لوگ تو ہمیشہ مرتے رہتے ہیں۔ یہ کون سی نئی بات ہے؟‘‘
’’بھائیو باہر بارش ہو رہی ہے۔ شہر ڈوب رہا ہے۔ لوگ مر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبھی لوگ باہم دست و گریباں تھے۔ کرسی کی اس جنگ میں میری آواز کون سنتا۔‘‘
’’بارش نہیں ہو رہی‘‘ اگر سیاسی نظام کا نوحہ ہے تو وہیں ’’تشمو گول‘‘ سماجی نظام پر تنقید، جو تیزی سے بے مقصدیت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آج کے معاشرے کو لایعنی اور بے معنی باتوں کے پیچھے لگانے میں سوشل میڈیا اہم فرض ادا کر رہا ہے۔ ایک کی دیکھا دیکھی سب بے روح امور کے پیچھے دوڑے چلے جا رہیں ہیں، یہ افسانہ اس سماجی بےمقصدیت پر گہری چوٹ ہے، جہاں مقصدیت پر بے مقصدیت کو فوقیت حاصل ہے۔
اسی طرح ’’پتلے‘‘ افسانے میں علامتی انداز میں افسانہ نگار نے ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ مضبوط صداؤں کا گلا گھونٹ بھی دیا جائے وہ زندہ رہتی ہیں۔
’’سیاہ کمرے کے مکین‘‘، جہنم کا کیوبیکل نمبر 7، ’’سراب‘‘ افسانے جہاں تخلیق کار کی اندرونی کشمکش، اس کی اپنے فن کے لیے جہدوجہد، حقیقی زندگی کی خامہ فرسائی کے پہلو پر مبنی ہیں وہیں تخلیق کار کی اپنی تخلیق سے زیادہ اپنے نام پر ترجیح پر بھی بین کرتے نظر آتے ہیں۔
دیگر تمام افسانے اور افسانچے بھی اپنے موضوعات کے لحاظ سے منفرد اور دلچسپ ہیں۔ البتہ کوئی افسانہ محض ادبی چاشنی، ذہنی گنجلک یا ذاتی کیتھارسس پر مبنی نظر نہیں آتا۔ تمام افسانے معاشرتی رویوں، انسانی نفسیات، سماجی چلن کے پیدا کردہ مصائب کے کرب کا بیانیہ ہیں۔
افسانوں کی زبان اور بیان کی بات کی جائے تو مصنف ایک بار پھر مکمل کامیاب نظر آتے ہیں۔ افسانوں کی معنویت، موضوع اور فن یعنی تمام جہتوں پر مکمل عبور مشکل امر ہوتا ہے۔ اکثر موضوع پر مکمل گرفت رکھنے والے افسانہ نگار کی فن پر قدرت کمزور پڑتی دکھائی دیتی ہے یا پھر اگر زبان و بیان عمدہ ہو تو موضوع کے ساتھ مکمل انصاف نہیں ہو پاتا لیکن ایک اچھا افسانہ نگار توازن برتے ہوئے موضوع اور فن دونوں کی خوبصورتی برقرار رکھتا ہے۔صبیح الحسن کو علامتی افسانہ نگار کہنا بہتر ہو گا کہ ان کے کم و بیش تمام افسانے علامتی انداز لیے ہوئے ہیں۔ موثر مکالمے افسانوں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں، وہیں علامتی کردار مثلاً پھول، ورق، خواب، پودے، تتلی جیسے کردار افسانوں کی دلچسپی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ دل فریب جملے، تشبیہات، استعارے اکثر تحریر کو چار چاند لگا دیتے ہیں لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ فنی پہلو جاندار ہو تو لکھاری کی توجہ موضوع سے ہٹ کر اسلوب پر مبذول ہو جاتی ہے، لیکن صبیح الحسن کے افسانوں کی خوبصورتی ہے کہ قاری جہاں فن و زبان سے بھی لطف اٹھاتا ہے وہیں موضوع پر داد دیے بنا نہیں رہ پاتا۔
افسانہ نگار کو ماہر افسانہ نگار کی طرح جملہ سازی پر مگر عبور ہے، کئی جملے تحریر کے حسن کو دوبالا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ افسانوں سے چند ایک جملے ملاحظہ کریں۔
’’زندگی کی موت‘‘ میں زندگی کی تشریح کچھ یوں کرتے ہیں
’’میں تو پانی ہوں۔ گیلی مٹی ہوں۔ جو بناؤ گے بن جاؤں گی۔ تم بتاؤ کہ میں کیا ہوں۔‘‘ (زندگی کی موت)
’’رہنمائی بہت کٹھن کام ہے شاید میں یہ بوجھ نہ اٹھا سکوں۔‘‘
’’آسان تو صرف مرنا ہے۔‘‘ (سیاہ کمروں کے مکین)
’’میں نے اپنے دل کے نہاں خانوں میں جھانکا۔ زندگی صرف وہاں ٹمٹما رہی تھی جہاں قلم کے پر جلتے تھے۔‘‘
(سیاہ کمروں کے مکین)
’’باہر روشنی اپنا تسلط جما رہی تھی، لیکن اندھیرے کی فوج کے بچے کھچے سپاہی ابھی گھر کی چار دیواری میں خود کو محفوظ سمجھ رہے تھے۔‘‘ (نوروز)
’’پتھروں کے اس جنگل میں خوابوں کے آبگینوں کی اہمیت خس و خاشاک سے بڑھ کر نہیں تھی۔‘‘ (سراب)
’’روش سے ہٹنے والے یا تو آسمان چھو لیتے ہیں یا پیروں تلے کچلے جاتے ہیں۔‘‘ (سراب)
’’ایک فنکار کا کام اس کے دل کا آئینہ ہوتا ہے۔‘‘ (سراب)
’’میں نے یہی جانا ہے میرے دوست کہ اگر آپ کا نام طاقتور ہے تو آپ کی خامی بھی خوبی بن جاتی ہے۔‘‘
(سراب)
’’ڈائری میں چھپا خواب‘‘ کے اختتامی جملے بھی قابل ستائش ہیں۔
مختصر یہ کہ صبیح الحسن کے افسانوں کا مجموعہ جہاں فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے وہیں موضوع کے اعتبار سے اسے نظام اور سماج کا نوحہ کہنا بے جا نہ ہو گا۔ یہ مصنف کی پہلی تصنیف ہے لیکن افسانہ نگاری میں مہارت کو دیکھتے ہوئے بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ مصنف کا پہلا مجموعہ ہے۔ اس تخلیق پر بے حد داد کے ساتھ ان کے مستقبل کے لیے ان گنت دعائیں۔
آخر میں ظفر اقبال صاحب اور پریس فار پیس کے لیے داد کہ اتنی میعاری تخلیقات منظرِ عام پر لا رہے ہیں۔ مزید برآں میں نے ابھی تک پریس فار پیس کی جتنی بھی کتب کا مطالعہ کیا ہے کہیں پر کمپوزنگ، پرنٹنگ کی ادنیٰ سی غلطی نظر نہیں آتی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پریس فار پیس کی ادارتی ٹیم سخت کوش ہے، ان کے لیے الگ سے داد و تحسین۔