Tuesday, May 21
Shadow

تحسین گیلانی کی کتاب “منٹو کا بھگت'” پر پروفیسر خالدہ پروین کا تبصرہ

کتاب کا نام ۔۔۔۔ منٹو کا بھگت
صنف ۔۔۔۔۔۔ افسانہ
مصنف ۔۔۔۔۔ سید تحسین گیلانی
مبصرہ ۔۔۔۔۔ خالدہ پروین
مصنف کا تعارف:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمہ جہت قد آور ادبی شخصیت سید تحسین گیلانی  کا تعلق بورے والا پاکستان سے ہے ۔ جدید اُردو ادب میں بطور شاعر ، افسانہ نگار  ، انشائیہ نگار اور مائکرو فکشنسٹ ایک خاص مقام کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ مدیر انہماک انٹرنیشنل جریدہ اور چئرمین : سفیران_ ادب عالمی ادبی تنظیم  اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اردو ادب میں نئے رجحانات کو متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔
 حریم ادب ، پارسا ، خرمن ،  سفیر بورےوالا میں بطور مدیر اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے چکے ہیں
ادبی خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1: انٹرویوز :مجیب الرحمن شامی( چیف ایڈیٹرروزنامہ پاکستان )
2: پروفیسر جمیل احمد عدیل (پاکستان) ، دیپک بدکی انڈیا  ، طلعت زہرا ( کینڈا )  گلزار ملک ( پاکستان)
3: ناصر عباس نیر کے انشائیے ” تانگہ ”  کا اردو سے پنجابی ترجمہ
4: ڈاکٹر رشید امجد کے مضمون “کچھ انشائیہ بارے” کا اردو سے پنجابی ترجمہ
5: ڈاکٹر وزیر آغا کی انشائیہ نگاری ، مضمون ، مطبوعہ گلبن انڈیا   
6: فراز کی غزل کا ساختیاتی مطالعہ . مطبوعہ، کتاب ادبی مجلہ
7: ستیہ پال آنند کی نظم ” میں زاویہ قائمہ نہیں ہوں ” کا فکری و ساختیاتی جائزہ
8: رقیق سندیلوی کی نظم ” عجیب مافوق سلسلہ ہے ” کا تجزیاتی مطالعہ ، مطبوعہ خرمن لاہور
9: مظہر الزماں خان کے افسانے “آسمان”  کا ساختیاتی مطالعہ ، مطبوعہ ، مظہر الزماں فکر و فن کے درمیاں . دہلی
پاکستان میں پہلی مائکرو فکشن کانفرنس کا انعقاد  سید تحسین گیلانی کی قابلِ داد ادبی خدمت ہے ۔
زیر طبع تصانیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناہمواریاں ( انشائیے )
پرت در پرت ( تنقید )
غزل کے بعد ( نظمیں )
مائکرو فکشن کی کتاب ( تحقیق )
             کتاب کا تعارف اور تبصرہ
             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 منٹو کی تصویر سے مزین اور عنوان سے مطابقت رکھتا سرِ ورق اگر قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتا ہے تو کتاب کھولتے ہی
 “نیّر مسعود ، گلزار اور سمیع آہو جا کے نام”
 انتساب ادب اور ادیب کی پزیرائی کا عکاس ہے ۔
نفسیاتی تکنیک کا حامل حرفِ اوّل ۔۔۔ کیا لکھوں ؟ تحریر کے ایک ایک لفظ کو توجہ سے پڑھنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔
 حرفِ اوّل کتاب کے معیار کا نقیب ہوتا ہے ۔ اعلیٰ معیار ، پختہ اور منفرد اسلوبِ بیان کا حامل  حرفِ اوّل نا صرف ایک تخلیق میں موجود سوچ و فکر ، موضوعات، معاشرے کی سوچ اور رویے کا اظہار ہے بلکہ علامتی انداز میں تخلیق کار کے معیار سے متعلقہ نظریات کو مکالمے کا روپ عطا کر دیا گیا ہے ۔ کہیں خود کلامی کا انداز ہے تو تخیل کی کارفرمائی ، کہیں مکالمہ تجسیم نگاری کا روپ اختیار کرتا ہے تو کہیں فلسفیانہ انداز غالب دکھائی دیتا ہے ۔ تخلیقی عمل ایک ایسا درد ناک اور کرب ناک عمل ہے کہ اس میں سے گزرنے والے کی تفہیم ایک عام انسان کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔ تخلیق کار اور قاری کے مابین پیش کیے جانے والے مکالمے اس قدر چست اور رواں ہیں کے قاری اس “ٹن ٹن” کو محسوس کرتا ہے جسے مصنف بیان کرتا چاہتا ہے ۔
منٹو کا بھگت میں  “دِتّا” ، “کہانی ایک خواب کی” ، “کیمیکل” ، ‘کہانی کتھا” ، “یہ قصّہ کچھ اور ہے” ، “چائے کی پیالی” ، “لا – جواب” ، “ما بعد جدید کہانی” ، “برا کہانی کار” ، “اماوس نگری” ، “اکے نا بسورے تماطے کھا “، ‘منٹو کا بھگت’ ، “پپّو” ، “لا-شے” اور “آخری افسانہ” کے عنوان سے کل پندرہ (15) افسانے شامل ہیں جو  منفرد ، پر تجسّس اور تجریدی انداز کے حامل عنوانات کی بنا پر دلچسپی اور اہمیت کے حامل ہیں ۔
 : دِتّا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک کرداری افسانہ جس میں دتے کا کردار  پِنڈ کے ایک چلتے پرزے ، ہر گھر کے ہم راز ، ہر گھر اور ہر خوشی وغم کی گھڑی کی ضرورت ، ہر ایک کے ہمدرد اور صلاح کار ، خوب صورت ، جوان اور با کردار  شخصیت کے طور پر سامنے آتا ہے ۔
دتا ایک ایسی شخصیت ہے جس سے نہ خواتین کا پردہ ہے اور نہ گھر والوں کو خطرہ ۔  چودھری جمال بھی مفرور بیٹی کی وآپسی کے لیے اس کا محتاج اور احسان مند ہے اور اللّٰہ یار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دتے کے کردار میں موجود پراسراریت قاری کے ذہن میں مختلف سوالات پیدا کرتے اسے حیرت کے سمندر میں دھکیلتی چلی جاتی ہے کہ بن بتائے اسے کیسے پتا ہے کہ ماسی مختاراں  کی بیٹی کی تکلیف دور کرنے کے لیے کسے بلانا ہے؟ چودھری جمال کی بیٹی کہاں ملے گی ؟
کڑیل جوان ہونے کے باوجود کیوں کسی کو گھاس نہیں ڈالتا ؟ شوخ اور ذومعنی جملوں کا تبادلہ کرنے کے باوجود دل نہ ہونے کا عذر کیسے پیش کرتا ہے ؟ وڈا چودھری اللّٰہ یار کیوں اسے بلا ناغہ دن رات ڈیرے پر رکھے ہوئے ہے ؟
افسانے کا ڈرامائی اختتام نا صرف تمام سوالوں کے جواب فراہم کرتا ہے بلکہ دتے کے ذریعے  معاشرے کے نام نہاد عزت دار چہروں کی حقیقت واضح کر دیتا ہے ۔
“اوئے دتے ادھر آ میرے کول بیٹھ جا جیسا تو نے کہا تھا میں نے سب ویسا ہی کیا یہ لڑکی وہی ہے جس کا تم نے کہا تھا ، اس کے مامے کو پورا لکھ روپیہ دے کر اسے لایا ہوں ۔ اسے میں نے سب بتا دیا ہے کہ مجھے وارث چاہیے ۔!!
دتے نے کمینی سے ہنسی کے ساتھ مونچھ کو وٹ دیتے ہوئے کہا ۔
چودھری جی میں تو کاما ہوں حکم کا غلام ہوں جی جو حکم مائی باپ کا !!
آپ کی مچھ نیویں نہیں ہونے دوں گا ۔
جوڑے ہوں گے جی جوڑے ۔
آپ کو پتا ای ہے چودھری صاحب
ماسی مختاراں کی کڑی کا!!”
افسانے کا انداز بیانیہ لیکن تجسّس بھرپور ہے۔  تحریر کی روانی اختتام پر دھماکہ خیز ثابت ہوتی ہے ۔
مخصوص طبقے اور ماحول کے مطابق زبان دلچسپ ، مکالمے بر جستہ اور پختہ اسلوبِ بیان مصنف کی کہنہ مشقی اور عمیق مشاہدے کا عکاس ہے ۔
معاشرے کی سوچ ، نفسیات، رویوں ، اور اخلاقی گراوٹ کی عمدہ عکاسی کرتا ہوا قابلِ تعریف افسانہ ۔
 : کہانی ایک خواب کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک منفرد اور ان چھوئے موضوع پر لکھا گیا علامتی افسانہ جس میں “سورہ کہف” سے جنم لینے والی ایک سوچ اور خواہش اور اس خواہش کی شدت کا خواب کی صورت اختیار کرنا یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے جس سے انکار کرنا ممکن نہیں ۔
انسان کی شدید خواہش جب حقیقت میں تسکین حاصل نہیں کر پاتی تو وہ خواب میں تکمیل پاتے ہوئے باعثِ تسکین ٹھہرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ افسانے کا کردار کبھی پانی میں تیرتا ہے تو اپنے ارد گرد موجود احباب کا باطنی روپ دیکھتا ہے جس میں وہ سوئے ہوئے ہیں لیکن پیٹھ پر حملہ کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ کبھی ہوا میں اڑتے ہوئے ان نادیدہ بستیوں تک جا پہنچتا ہے جن کا تذکرہ سنا یا پڑھا ہوتا ہے جو نافرمانی، لالچ،نفاق کا شکار ہو کر مسخ حالات کا شکار ہوئیں۔
افسانوی کردار کی حضرت ذوالقرنین کے دور کو جاننے کی شدید خواہش اسے خواب میں اس دور کا نظارہ کرواتی ہے جہاں یاجوج ماجوج اور مظلوم انسانوں کا منظر دکھاتے ہوئے اور ذوالقرنین کو ایک خوب صورت شہزادے کا روپ دیا گیا  جس کی وجہ سے مظلوم رینگتی ہوئی قوم دیو ہیکل ظالموں سے محفوظ ہو سکی ۔
خواب میں خواہش کو مجسم کرتے ہوئے کبھی جل پری اور کبھی پرواز کرتی ہوئی پری کے روپ میں پیش کیا گیا ہے ۔
موجودہ زندگی کے لیے سمندر کی علامت بہت شاندار ہے جس میں انسان مچھلی کے روپ میں مگرمچھوں کے درمیان تیرنے پر مجبور ہے۔  ماضی کا سفر کرتے ہوئے پرواز (تخیل آفرینی) کی صلاحیت کا حاصل ہونا ایک خوب صورت علامت ہے جس کے بغیر دور از کار سفر کرتے ہوئے بنی اسرائیل اور حضرت ذوالقرنین کے دور میں پہنچنا ممکن ہی نہیں ۔یاجوج ماجوج کے لیے قوی ہیکلِ انسانوں کی علامت ، مظلوم کے لیے رینگتی مخلوق ، حضرت ذوالقرنین کے لیے خوب صورت شہزادے کی علامتیں خوب صورت اور قرین از قیاس ہیں ۔
خوابوں سے متعلقہ نفسیاتی تھیوری کو بڑی عمدگی سے افسانوی روپ میں پیش کیا گیا ہے ۔
علامتیں خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ فہم اور تفہیم میں آسانی کا باعث ہیں ۔
افسانے کی متاثر کن روانی قابلِ تعریف اور دلچسپی کا باعث ہے ۔
 : کیمیکل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک شاہکار تخلیقی کاوش جس میں نفسیاتی گرہ، جذباتی کاٹ دار انداز اور بے حس رویے کو” کیمیکل “کی علامت کے ذریعے سے افسانوی رنگ عطا کیا گیا ہے ۔
افسانے میں موجود دو مرکزی کردار  مردانہ اور نسائی کردار (نورین) نا صرف نفسیاتی کیمسٹری کا اظہار کرتے ہیں بلکہ دونوں کرداروں کے ذریعے  خلقی اور فطری فرق بھی سامنے آ جاتا ہے جس کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ۔
مردانہ کردار نرم خو ، مثبت انداز اور رجائی سوچ کا مالک ہے جو محبت، احساس اور صبر کی دولت سے مالا مال ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل مکالمے اس کے کردار کی لفظی تصویریں ہیں :
       “دیکھو تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو۔”
      ” اور۔۔۔۔ کیا سوچتی ہو میرے بارے میں تم ؟”
     ” کیا کبھی ہماری محبت ہمارا وہ جنون تمہیں یاد نہیں آیا ؟”
“ہم تو انسانوں کے اس قبیلے سے ہیں جن کے رشتوں کو بدن کی ضرورت نے جوڑا ہے ورنہ یہ نظام کب کا رک گیا ہوتا انسان کب کا اپنی لاش پر بین کر چکا ہوتا ۔”
“دیکھو اس وقت شاید تم بہت خفا ہو ، ہم پھر بعد میں بات کریں گے ۔”
 “دیکھو تم بول رہی ہو میں غور سے سن رہا ہوں لیکن تم میری وفا کو تو مت بھولو ۔”
اس کے برعکس نسائی کردار (نورین )سخت ذہنی ابتری کا شکار ہے ۔ احساسِ محرومی نے اس درجہ قنوطی بنا دیا ہے کہ وہ گزشتہ خوش گوار پانچ سالوں کو اپنا ادبی قتل،  اپنی ضرورت کو بھی مردانہ عیاشی ، اپنی عظمت کو اپنا زوال و گراوٹ ، مرد کو خوف ناک بلا اور عورت کو سراپا وفا گردانتی ہے۔   نورین کے مکالمے محاکات نگاری کے وہ نمونے ہیں جو اندرونی اذیت ، دکھ اور نفرت کا مؤثر اظہار ہیں ۔
“اب تمہاری خوشبو میں وہ خوشبو نہیں جس کی میں دیوانی تھی۔۔۔۔۔۔”
“تمہارا وجود مجھے کسی خوف ناک بلا سے بھی بدتر دکھائی دیتا ہے ۔۔۔۔۔”
“اگر وہ لمحہ مجھے کہیں مل جائے تو میں اس کا منہ نوچ لوں “
” تم نے اپنے جسم کے لا حاصل وار کر کے میری روح کو زخموں سے اتنا چھلنی کیا ہے کہ میری سانسوں سے بھی لہو چھنتا ہے ۔”
” مجھے میرے پانچ سالوں کا حساب چاہیے جو تم نے برباد کیے تم ایک مصنفہ کے قاتل ہو۔”
“میری آنکھوں میں غور سے دیکھو وہاں ایک اداسی کا جنگل ہے ذرا اس میں ایک پھیرا تو لگا کر آؤ ۔”
” اگر وفا سیکھنی ہے تو کسی عورت کے دروازے پر مرد کو صدیوں ستاروں کی نیاز دینا ہو گی تو شاید وفا کا ایک ذرہ مرد کو بھی بھیک مل جائے ۔۔۔۔۔”
افسانے کے اختتام پر ڈاکٹر صاحبہ کا جملہ :
   ” ہم معافی چاہتے ہیں پرانی رپورٹس غلط تھیں شاید کیمیکل میں کچھ مسئلہ ہو گا۔
مبارک ہو آپ ماں بننے والی ہیں ۔”
 اس ساری ذہنی ابتری ، نفرت ،غم اور غصے کی کیفیت کا راز فاش کرتے ہوئے سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ خرابی کس کیمیکل میں تھی ؟
کیا یہ واقعی کیمیکل تھا یا احساسِ محرومی ؟
نوٹ:
اس افسانے پر ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کا تفصیلی تجزیہ  کتاب میں موجود ہے ۔

 : کہانی کتھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت گزاری ، ہوس اور خودغرضی کی عام سی کہانی کو مصنف کی تجسیم نگاری کی خوبی نے شاہکار کا درجہ عطا کر دیا ہے ۔
کہانی کار اور کہانی کسی بھی تحریر کے دو لازمی جزو ہیں انھیں نہ ایک دوسرے سے جدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی نظر انداز ۔ کہانی ، کہانی کار کے اندر موجود ہوتی ہے لیکن منظر عام تک آنے کے لیے ہر لمحہ اس تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے جو تخلیقی عمل کا خاصہ ہے ۔
کہانی کو ایک مدت تک اپنے اندر پروان چڑھانے کے بعد تخلیق کار جذباتی اذیت ، نفسیاتی کش مکش اور اخلاقی حدود قیود کی رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہوئے مجبوراً زیبِ قرطاس کرتا ہے کیونکہ وہ چاہنے کے باوجود کہانی کو منظر عام پر آنے سے نہیں روک سکتا ۔
کم الفاظ  اور جھلکیوں کی صورت میں
” صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں “
کے انداز میں سب کچھ واضح کر دینے کی صفت تعریف کی محتاج نہیں ۔
 : یہ قصّہ کچھ اور ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پراسراریت سے بھرپور رومانوی کہانی جس میں بہت مہارت اور عمدگی سے کرداروں کے دو رخے انداز کو افسانے کا قالب عطا کر دیا گیا ہے ۔
 چند مکالمے ملاحظہ فرمائیں:
لیکن بات کچھ اور ہے وہ مجھے بہت غور سے دیکھ رہی تھی ۔
اگلے دن میں زمبابوے چلا گیا ۔
میری مجھے وہاں ملنے آئی ۔
ڈنر کے بعد وہ دیر تک میرے گلے لگ کر روتی رہی ۔
اس نے مجھے بتایا تمہاری شکل میں مجھے میری پہلی محبت واپس مل گئی ۔دوسال پہلے وہ مجھے وہ مجھے برازیل میں ملا تھا ہفتے بعد ہی ایک ایکسیڈنٹ میں مارا گیا ۔
اس کا چہرہ محبت بن کر میری آنکھوں اور دل میں ٹھہر گیا ۔
میں ون مین وومن ٹائپ ہوں ۔
اسے نہیں بھلا پائی ۔
اتنا روئی ہوں کہ اب میرے آنسو بھی مجھ پر روتے ہیں ۔
اس نے ایسا ہی کہا ۔
پھر اس نے مجھے اس کی تصویر دکھائی ۔
تو میری آنکھ سے آنسوؤں کے ساتھ وہ چہرہ بھی بہہ گیا ۔۔۔وہ میرا “اپنا” چہرہ ۔
“ون مین وومن ٹائپ” اور “اپنا چہرہ”  ان دو اصطلاحات میں سارا افسانہ پوشیدہ ہے۔
 : چائے کی پیالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بظاہر مزاح سے بھرپور ہلکے پھلکے مکالماتی انداز میں تحریر کردہ افسانہ لیکن کمال یہ ہے کہ شوہر (ادیب) کے چائے کی پیالی مانگنے پر چائے کے بجائے بیوی کی زبان سے ادا کیے گئے مکالمے ۔۔۔ خواتین کی زبان ، سطحی سوچ ، سسرالیوں سے تعصب ، میکے والوں پر فخر ، ہر موضوع پر بے تکان بولنے ، بات کا بتنگڑ بنانے اور مرد کو بےحیثیت سمجھنے کی عادت کی عکاسی  کے علاوہ  ادیب کی خستگی اور بےقدری کے مظہر ہیں ۔
افسانہ “عورت کے مَکر” کی عمدہ مثال ہے ۔
مکالموں کی چستی اور بیان کی عمدگی نے ڈپٹی نذیر احمد اور مرزا ہادی رسوا کی یاد تازہ کر دی ۔
: لا جواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بظاہر عزرائیل اور انسان کے درمیاں مکالمہ جس کے ذریعے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں ، مقام اور امکانات کے ساتھ ساتھ موازنے کا انداز اپناتے ہوئے انسان کی قنوطی سوچ ، خدا سے شاکی انداز ، مجبورِ محض کی داستان کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ ڈرامائی اختتام اس وقت حیران کن ثابت ہوتا ہے جب یہ واضح ہوتا ہے کہ مکالمہ عزرائیل اور انسان کے مابین نہیں بلکہ دو انسانوں کے درمیان ہے فرق اندازِ فکر اور طرزِ عمل کا ہے۔ منفی سوچ نا شکری اور مثبت سوچ خدا شناسی کا باعث ہے ۔
 لا _جواب ۔۔۔۔ افسانہ لا جواب خیال اور لاجواب اسلوبِ بیان کی لا جواب مثال ہے ۔ تصوف کے موضوعات کو فلسفیانہ انداز اور فصیح زبان نے جدت عطا کرتے ہوئے شاہکار کے درجے تک پہنچا  دیا ہے ۔
انسان کے دنیا میں ظہور پزیر ہونے کا بیان ملاحظہ ہو :
    “پہلے مجھے بنا پوچھے بنا بتاۓ کسی شوخ گھڑی کا ثمر بنا کر سپردِ زماں کر دیا گیا پھر ایک ایسی زندگی کو میرے ساتھ نتھی کیا گیا جس کا بخت بھی بد بخت تھا”
انسان کے مقام ومرتبے کا جائزہ لیتے ہوئے:
   “اے بنی آدم! تمہاری مٹی کو درد سے گوندھا گیا ، حسرت و یاس کے شعلوں کو اس میں ملا کر ، ہوائے غم کا چھینٹا لگا کر مجسم کیا گیا۔خلعتِ عرفان سے تمہارا بدن سجایا گیا ، دستارِ عشق سے سج دھج بڑھائی گئی ۔ درد کے سرمے کو تیری آنکھ کے فرات سے ملا کر وسعتِ افلاک کے قابل بنایا گیا ۔”
زندگی کے تلخ حقائق اور شاکی انداز کا تذکرہ:
 ” اے صاحبِ اجل ! میری آنکھ میں سپنے تو کیا پانی بھی سوکھ گیا ہے ۔ اس نے مجھے روحیں دیں اور بھوک دی اور وہ جو ازل کے بھوکے تھے وہ جو نوچنے والے تھے انھیں بھر بھر جھولیاں دیں ۔ اور وہ ۔۔۔۔ وہ جو ایک رسی کو پکڑ کر اپنے کنبوں کو قربان گاہ کی جانب ہانک کر لے گئے اس نے انھیں کٹتے ہوئے دیکھا اور خاموش دیکھتا رہا ۔”
سنو اے نادان انسان ! مالک کا فرمان سنو
“حق بات ہمیشہ نئی ہوتی ہے۔”
مکالموں کی بنت ، چستی ، ان میں موجود تجسّس اور شاعرانہ ادبی اسلوبِ بیان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔
 : ما بعد جدید کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بےشک فطری تقاضوں کی عدمِ تسکین کی بنا پر جنم لینے والے مسائل کے حل کے متلاشی جہالت کی بنا پر عاملوں اور کاملوں کے کاروبار کو چمکانے کا باعث بنتے ہیں ۔
منفرد اور پر تجسّس عنوان مگر سادہ اسلوب بیان کا حامل افسانہ ۔
 : برا کہانی کار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ایسے مصنف کی کہانی جس کو صرف اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ بھیڑ چال چلنے کے بجائے اپنے لیے الگ اور منفرد راہ کا انتخاب کرتا ہے ۔ وہی انفرادیت جس کی بنا پر اسے برا کہانی کار قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے  بعد ازاں اس پر کی جانے والی بحث نقادوں کی کامیابی کا باعث ٹھہرتی ہے ۔
ایک مشکل افسانہ جسے اردو و عالمی ادب ، فلسفہ اور نفسیات کے وسیع مطالعے کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ۔
 : اماوس نگری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوب صورت علامتی افسانہ جس میں جس میں فلیش کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے اوہام و ابہام کے اسیر اور تہذیب ، ثقافت اور اقدار سے عاری اذہان کی زندگی کی جھلک پیش کی گئی ہے ۔ رہنما ڈر اور خوف کی ترویج کرتے ہوئے نوجوان نسل کو بے عملی کا شکار کر چکے ہیں ۔ جسمانی طور پر زندہ اور روحانی طور پر مردہ افراد مذہب سے دور شجر پرستی اور قبر پرستی میں مبتلا دکھاتے ہوئے تاریکی میں مدہوشی کی کیفیت کی عمدہ منظر نگاری کی گئی ہے ۔ اس اماوس نگری میں انسان ایسے جانوروں کی صورت اختیار کر گئے ہیں جن سے جانور بھی پناہ مانگتے ہیں ۔  اس بستی میں روشنی اور محبت کا پیغام دینے والا سنگسار کر دیا جاتا ہے ۔ جہاں حضرت خضر علیہ السلام کے معجزے کی توقع بھی خام خیالی کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ جو خود اصلاح و ترقی کا خواہش مند نہ ہو اس کی بہتری ممکن ہی نہیں ۔
حالاتِ حاضرہ کی عکاس عام فہم علامتوں اور اشاراتی مگر ادبی زبان و اسلوب سے مزین نا قابلِ فراموش اور قابلِ داد تحریر ۔
 : ا کے نا بسورے تماطے کھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اساطیری عنوان کا حامل افسانہ جس کی شان دار منظر نگاری ، پراسرار ماحول ، انسانی مگر مشکوک کردار ، مافوق الفطرت عناصر اور واقعات کے بیان اور ان تمام عناصر کے نا پختہ ذہن پر مرتب ہونے والے اثرات کے عمدہ بیان نے قاری کو اپنی گرفت میں لیے رکھا ۔
 محاکات نگاری کے معیار کو چھوتی ہوئی منظر نگاری سحر طاری کرنے کا باعث بنی ۔
 : منٹو کا بھگت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منٹو کی کہانیوں کا دلدادہ کہانی کار اور اس کے تخلیق شدہ کردار (شہزادی) کے مکالمے پر مبنی افسانہ جس کے ذریعے منٹو کے نمائندہ افسانوں کا حوالہ دیتے ہوئے افسانوں کی باطنی سوچ اور ظاہری لذت کی حقیقت واضح کر دی گئی ہے ۔بے شک  عام قاری “منٹو راما “کے افسانوں (ٹھنڈا گوشت ، ہتک ، کالی شلوار ، موزیل اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)کے براہِ راست اسلوبِ بیان میں اس طرح الجھ کر رہ جاتا ہے کہ  منٹو کی حقیقی سوچ ، تحریر میں موجود غم اور واقعہ کی شدت تک اس کی رسائی نہیں ہو پاتی ۔
منٹو کی روح کو سمجھنے کے لیے سوچ وفکر میں پختگی اور ٹھہراؤ کا ہونا ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ “منٹو کے بھگت”کا کردار کہانی کار اپنے پسندیدہ نسائی کردار شہزادی کو اپنے سامنے مجسم محسوس کرتا ہے کیوں کہ تخیلاتی دنیا میں وہ اس کردار کو جی چکا ہوتا ہے ۔  شہزادی کے ساتھ بیس سال تخیلاتی تنہائی میں گزارنے کے بعد وہ روح اور جسم کی حقیقت کو جان لیتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جس تک منٹو اپنے قاری کو پہنچانا چاہتا ہے لیکن یہاں پہنچنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔
منٹو اور قاری کے درمیان موجود سوچ وفکر کی پختگی کے اسی بُعد کو تحسین گیلانی نے کمال مہارت سے افسانے میں پیش کیا ہے ۔
“منٹو کا بھگت” میں موجود پیغام کو سمجھنے والا قاری
“منٹو” اور “تحسین گیلانی” دونوں کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
(اس نمائندہ افسانے کی سوچ مجموعہ “منٹو کا بھگت” میں موجود تمام افسانوں میں کار فرما دکھائی دیتی ہے ۔)
 : پپّو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بےوقوف انسان کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح “پپُّو” کے عنوان اور تلمیحاتی رنگ لیے ہوئے مخصوص طبقے کی سوچ وفکر اور دوہرے کردار و رویوں کا عکاس افسانہ ۔
شادی کے بعد ساون کی خاموشی ، بےچینی اور پریشانی سے شروع ہونے والی کہانی جس کا مرکزی خیال ہے :
  “طہارت والوں کے لیے طہارت والیوں کا وعدہ ہے۔”

معتدل انداز اختیار کرتے ہوئے مصنف نے بڑی خوب صورتی سے یہ حقیقت واضح کر دی کہ باکرہ  یا  “ورجن” کی شرط جتنی صنفِ نازک کے لیے ضروری ہے اتنی ہی صنفِ آہن کے لیے اور اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں وعدے کی خلاف ورزی نہیں
معاشرے اور کردار کا ایک رخ اگر ساون کے ذریعے دکھایا گیا ہے تو دوسرا عارف کے ذریعے ۔
اسجد کا یہ کہنا کہ:
“یار تم پڑھے لکھے انسان ہو اور تمہیں یہ باتیں زیب نہیں دیتیں ۔ جبکہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ غزل ایک اتھلیٹ بھی ہے ۔”
ایک واضح پیغام لیے ہوئے ہے کہ ماڈرن ازم کے حامیوں کو ماڈرن لائف کی قباحتوں سمیت تسلیم کرنا چاہیے نا کہ انسان آدھا تیتر آدھا بٹیر بن کر رہ جائے ۔
نام نہاد شرافت کا ڈھونگ رچانے والوں کے لیے عمدہ پیغام کا حامل افسانہ ۔
 : لا  شے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورۃ “والعصر” کی تلمیح استعمال کرتے ہوئے بڑی خوب صورتی سے اپنی ذات میں موجود “میں”  ، “زعم ” ، “خودی” اور دوسرے کے لیے کمتری کی علامت “تم”  کے ذریعے شے اور لا۔شےکی حقیقت کا عمدہ علامتی بیان ۔ بےشک انسان انہی وجوہات کی بنا پر خسارے میں ہے۔
“سفید پرندے” ، “اڑتا ہوا” لیکن “غیر مرئی انسان” ، “آئینہ” “خون کا پہاڑ” ، “زبان کا تھوک” اور “سبز وعدہ” کی علامات قابلِ فہم ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی حسن کو برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔
 : آخری افسانہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روح کو جھنجھوڑتی اور دل کو چھوتی ہوئی قابلِ داد تخلیق ۔ ماں کی روح سے کلام کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے کے مختلف طبقات اور اصناف میں موجود بے راہ روی ، شرافت کے بھیس میں چھپے ہوئے بھیڑیوں  اور ان بھیڑیوں کا شکار ہونے والے معصوموں ،
رشتوں سے دغا کرتے اور نظروں سے گرتے چہروں ، اصناف پر بے اعتباری اور مکرر اعتبار کی داستان جو   رحمان سے ٹکراؤ کے نتیجے میں انسان کی تباہی پر  اختتام پذیر ہوتی ہے ۔
لفظ بولتے  اور احساسات دل میں اترتے محسوس ہوتے ہیں ۔
“منٹو کا بھگت” میں سید تحسین گیلانی نے معاشرے میں موجود دوہرے کرداروں ، نفسیاتی گرہوں اور معاشرتی رویوں کو بہت عمدگی سے افسانوں کا حصہ بنایا ہے ۔ افسانوں کے کردار ظاہر کے پردے میں پوشیدہ باطن کی اصلیت اور زیریں سطح پر درد، کرب اور اذیت کی لہر تک رسائی کا ذریعہ ہیں ۔ کبھی فلیش بیک کی تکنیک حیران کرنے کا باعث ہے ۔کبھی قرآنی آیات کے ذریعے دوہرے معیار کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے ۔ کبھی قرآنی واقعات کی تلمیحات کے ذریعے نفس اور خواہش کی عکاسی متاثر کن ٹھہرتی ہے ۔
ڈھکا چھپا انداز ، واضح اور مانوس علامت نگاری تحسین کا خاصہ ہے ۔ کہانی کا پلاٹ ہو یا  کردار  نگاری مصنف کی گرفت مضبوط دکھائی دیتی ہے ۔ تحسین گیلانی خود منٹو کے بھگت کے روپ میں سامنے آتے ہیں لیکن کمال یہ ہے کہ منٹو کے براہ راست انداز نے انھیں فحش نگار قرار دیا کیونکہ سادہ بیانی اور براہِ راست انداز کو نظر انداز کر کے حقیقت تک پہنچنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں جبکہ تحسین کے ہاں تکنیک ، علامتوں کا استعمال اور تلمیحاتی انداز انھیں نا صرف فحش نگاری کے الزام سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ راہ میں الجھے بغیر قاری کی حقیقت تک رسائی آسان کر دیتا ہے ۔
مجموعے کا عنوان خوف زدہ کرتا ہے لیکن موضوعات اور مواد کا انتخاب داد دینے پر مجبور کر دیتا ہے ۔
علامتوں کا استعمال تحسین کی ایک ایسی خوبی ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔علامتیں قابلِ فہم اور قرات وتفہیم میں آسانی کے علاوہ اسلوب کی روانی میں بھی رکاوٹ ثابت نہیں ہوتیں ۔
مکالموں کے اندر کردار کا بولنا تحسین کا ایسا کمال ہے جو انھیں موجودہ دور کے افسانہ نگاروں سے بلند کرتے ہوئے کلاسیکی افسانہ نگاروں کی صف میں جا کھڑا کرتا ہے ۔ جس کا بھرپور اظہار “کہانی کتھا” میں بالخصوص اور تمام افسانوں میں بالعموم دکھائی دیتا ہے ۔
تحسین گیلانی کے افسانے وسیع مطالعہ ، عالمی ادب پر گہری نظر ، فلسفہ اور نفسیات کے مضامین سے گہریے لگاؤ ، عمیق مشاہدے اور منفرد فکر واسلوب کے عکاس ہیں ۔ ان کے  افسانوں سے مکمل حظ اٹھانے کے لیے قاری کے لیے بھی انھی صفات سے متصف ہونا ضروری ہے ورنہ افسانے کا علامتی ، اشاراتی اور تہہ در تہہ انداز کو سمجھنا قاری کے بس کی بات نہیں ۔
حرفِ آخر کے طور پر صرف اتنا کہوں گی کہ موجودہ انحطاط کے دور میں تحسین گیلانی کا نام ایک معیار ہے ، جدید اُردو ادب کی پہچان اور شان ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ مصنف کی تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا بخشتے ہوئے مزید عروج و کامیابیاں عطا فرمائے اور ان کے ذریعے اردو ادب کو فروغ وتقویت بخشے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact