تبصرہ نگار: بشری حزیں
شاعرہ ، ادیبہ
سابقہ رکن قومی اسمبلی و سابقہ پارلیمانی سیکریٹری وزارتِ ماحولیات
قرطاس و قلم کی دنیا میں کیفیات و احساسات کا سکہ چلتا ہے ۔
دورِ حاضر میں صاحبِ کتاب ہونا معمولی بات لگتی ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ” بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں “ جیسی کتاب منظرِ عام پہ آتی ہے اور آتے ہی چھا جاتی ہے ۔
الفاظ و معانی کے نام پہ اہلِ قلم نے نت نئے تجربات کو اپنی قابلیت جھاڑنے کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔ ایسی کتابیں دھڑا دھڑ شائع کی جا رہی ہیں جن میں محض لفظی جمع و خرچ سے سروکار ہوتا ہے ۔ رائج الوقت رجحان کے برعکس نصرت نسیم صاحبہ نے اپنی خودنوشت سے ہوا کا رخ بدلنے کا احسن کام کیا ہے ۔ نصرت نسیم صاحبہ نے اس کتاب کو ایک مرقعِ تہذیب و ادب کی صورت میں پیش کیا ہے ۔
کتاب کا خوبصورت ٹائٹل اور دیگر ڈیزائنگ پریس فار پیس فاٶنڈیشن کی روایتی اور معیاری پہچان کی تازہ کڑی ہے ۔اس خودنوشت پہ جناب صفدر ہمدانی ، ڈاکٹر محسن مگھیانہ ، شجاعت علی راہی ، ناصر علی سید اور سعود عثمانی صاحب کی پرخلوص آراء شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ غلام حسین غازی اور ڈاکٹر ثروت رضوی صاحبہ کے تبصرے بھی شاملِ اشاعت ہیں ۔” بیتے ہوٸے کچھ دن ایسے ہیں “ نصرت نسیم صاحبہ کے فہم وادراک ، دولتِ احساس ، اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار سے مزین خاندانی پس منظر اور ان کی ادب نواز شخصیت کا نہایت معتبر حوالہ بن کے آئی اور چھا گئی ہے ۔
اس کتاب کا مطالعہ شروع کرنے کی دیر ہے اس کے بعد یہ کتاب اپنا مطالعہ خود کرواتی ہے ۔میں نے اس کا مطالعہ روانی میں سرسری طور پہ نہیں کیا بلکہ اس میں مرقوم واقعات و ادوار کا ایسے دورہ کیا ہے جیسے کہ مجھے ٹائم مشین میں بٹھا کے بیتے وقت کی سیر کروائی جا رہی ہو ۔ نصرت نسیم کی یہ خودنوشت ایسی پُرتاثیر ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد مصنفہ بچپن کی ہمجولی لگتی ہیں ۔ بیتی ہوئی زندگی کی اتنی تفصیلی جزیات نگاری میں نے اس سے پہلے کہیں نہیں دیکھی ۔ ان کا حافظہ قابلِ رشک ہے ۔ وہ نثری ادب میں ہماری سماجی زندگی کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ محسوس ہوتی ہیں ۔ان کی صحت و تندرستی اور درازیِ عمر کی دعاٶں کے ساتھ یہ دعا ہے کہ وہ مثبت ادب کی دنیا میں اپنی قلمی کاوشوں کے شجر لگاتی رہیں تاکہ ہماری روایتی اقدار و تہذیب کا ورثہ نئی نسل کو منتقل ہوتا رہے ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.