نصرت نسیم
جاڑے کی یخ بستہ رات، گرم لحاف اوربچپنے کی پکی نیند اورایسےمیں دورسےآتی ہوئی پرسوز آواز اورخوبصورت لَے میں نعت کی آواز سماعت میں رس گھولتی دل میں اترجاتی۔ پھر دھیرے دھیرے آواز قریب آکر گھر کی دہلیز تک آجاتی، “اٹھو روزہ دارو سحر ہو گئی” اس کے ساتھ ہی گہری نیند سے بیدار ہو کر لحاف کی جھری سی بنا کر صورت حال کاجائزہ لیتے۔ دور سےپراٹھے بننے کی ٹھپا ٹھپ آوازیں ،اور توے پر سےاصلی گھی کےپراٹھوں کی خوشبو بستر چھوڑنے پر مجبور کر دیتی تولحاف ایک طرف پھینک کر چولہے کے پاس رکھی پیڑھی پر بیٹھ کر اعلان کرتے کہ ہم نے بھی روزہ رکھنا ہے۔گھروالے منع کرتے کہ جاؤ جاکر سوجاؤ، مگر ہم ضدکرتےکہ نہیں ہم روزہ ضرور رکھیں گے۔ یوں سحری کھانے کے شوق میں پتہ نہیں کس عمر سےروزے رکھنے شروع کیے۔
خیر وہ تھے بھی سردیوں کے روزے، آدھا دن تو سکول میں گزر جاتا، گھر آتے ہی افطاری کا اہتمام وانتظار شروع ہو جاتا۔اس وقت پکوڑے روزوں کا جزولاینفک نہیں بنے تھے۔ایک دو لذیذ سالن، طرح طرح کی چٹنیاں، اچار،مربے،پھپھو اماں گھر میں بناتیں۔ مردوں کے لیے الگ کھانا لگایا جاتا۔ گول چنگیر میں پھولی ہوئی خمیری روٹی کے ساتھ خوش ذائقہ سالن،اچار،مربے،چٹنیاں پروس دی جاتیں۔ جو گھر کی خواتین مل جل کر کھاتیں۔ اس کے بعد گرما گرم چائے کا دور چلتا جوزیادہ تر چینی کے گول پیالوں میں پی جاتی۔ گھر کے سربراہ میرے رشتے کے نانا جان، جنہیں سب ڈیڈی کہہ کر پکارتے ، ہم ان کے منظور نظر تھے۔ اللہ سبحان و تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ،سہ پہر کے وقت ہمیں پیسے دے کر کہتے کہ اپنی پسند کی چیزیں لے آئیں۔ گھر کے قریب ہی بیکری تھی جہاں سے میں کریم رول، پیسٹری اور کوکونٹ لے کر آتی اور انتظار رہتا کہ کب چائے بنے اور چائے کے ساتھ انہیں نوش جان کیا جائے۔ بچپن کے ذائقے اورعادتوں میں کیسی پائیداری پائی جاتی ہے کہ آج بھی چائے اور چائے کے ساتھ لوازمات اچھے لگتے ہیں۔ یہ اوربات کہ اب وہ مزے اور ذائقے کہاں؟ مسجد حاجی بہادر صاحب گھر کے قریب تھی لہٰذا آخری عشرے میں رونقیں بڑھ جاتیں۔ خصوصاً ستائیس ویں شب گھر اور باہر جشن کا سماں ہوتا۔ ستائیس ویں کو کھچڑی اوراس کے اوپر دہی ڈال کر کھانے کا رواج تھا، ایک دوسرے کو بھی حصے بخرے بھجوائے جاتے۔ اب سحری میں جگانے والے “الوداع اےماہِ رمضان الوداع” جیسی پُرسوز نعتیں اورپُر درد اشعار ،ایسے دردِ دل کے ساتھ اور خوش الحانی سے پڑھتے گویا محبوب کو رخصت کر رہے ہوں۔چولہے میں انگاروں کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے پھپھو اماں آبدیدہ ہو جاتیں اور آہ بھر کر کہتیں: ’’ہائے ایسا مہمان رخصت ہو رہا ہے۔ پھر کیا پتہ یا زندگی یا نصیب”۔ عید کے تصور میں مگن ہمیں تب اس اداسی کی سمجھ نہ آتی جیسے اب ہمارے بچوں کو سمجھانا مشکل ہوتاہے کہ عمر کے اس سنگ میل پر ایسے ماہِ مبارک، ماہِ کریم کارخصت ہونا کیسے من کو اداسی سے بھر دیتا ہے۔
بہرحال آخری راتوں میں مسجدوں میں رونقیں بڑھ جاتیں۔گھروں میں بھی ساری ساری رات جاگ کر نوافل پڑھے جاتے۔ ڈیڈی جب قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو پاس ہی تکیے پر لیٹ کر ان کے گھٹنے سے لگی ان کی تلاوت سنتی رہتی ۔ان کی بھاری اور پرسوز آواز میں تلاوت اور پر نور چہرہ آج بھی یادوں کے افق پر جگمگاتا ہے۔پھپھو اماں دودن پیشتر ہی مہندی کا کٹورا گھول رکھتیں تاکہ رنگ اچھا آئے۔ تب جلی ہوئی بدبو والی کون مہندی کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ سوندھی سوندھی خوشبو والی مہندی کے لیے بےچینی وانتظار بڑھتا چلا جاتا۔ ہماری خالہ کومہندی سے چڑتھی اس لئے پھپھو اماں ہی ہمارے دونوں ہاتھوں پر “مٹھی‘‘ والی مہندی )مٹھی والی یعنی ہتھیلی پر مہندی کا گولہ سارکھ کر مٹھی بند کر لیتے) لگا کر رومال سے ہمارے ہاتھ باندھ دیتیں تاکہ رنگ بھی اچھا آئے اورکپڑے بھی گندےنہ ہوں۔
انتیس واں روزہ افطار کرتے ہی ماموں بندوق لے کر چھت کی طرف بھاگتے۔ چاند دیکھنے کے لئے، اور چاند نظر آتے ہی بندوق سے فائرنگ شروع کر دیتے۔ یہ سن کر سب ننگے پاؤں چھت کی طرف دوڑ لگاتے۔ کدھر ہے چاند اورپھر چاند دیکھ کر سب ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے۔ اتنے میں تڑا تڑ فائرنگ کی آوازیں آنی شروع ہو جاتیں۔ عورتیں، بچے سب لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پر اپنی آنکھ سے چاند دیکھتےاور آج کل توپ نمادوربینوں سے بھی چاند دکھائی نہیں دیتا۔