زبیر احمد ظہیر
آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں جلال آباد نام کا خوبصورت پارک ہے، اس پارک سے خورشید نیشنل لائبریری کی عمارت جڑی ہوئی ہے ، قبل ازیں یہ لائبریری ایک چھوٹی سی مربع شکل کی عمارت میں ہوا کرتی تھی،اس پرانی عمارت کے ماتھے پر آج بھی خورشید نیشنل لائبریری کسی جھومر کی طرح کندہ ہے ۔
آج اس چھوٹی بچہ نما عمارت میں بچوں کی لائبریری قائم ہے ،یہ پوری قوم کیلئے فخر کی بات ہے کہ آزادکشمیر میں بھی کسی” عظیم دور اندیش شخصیت“ کو پہلی بار بچوں کوبڑا انسان بنانے کاخیال آیا ،بلکہ فی الواقع جدید قسم کی سہولتوں سے مزین لائبریری بنا دی ۔اس چلڈرن لائبریری میں ”بچوں کے ادب“ کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔
یہاں ہمارے بہت ہی پیارے مذہب ’اسلام‘ سے متعلق کتابوں کا ایک علیحدہ پورا سیکشن بھی موجود ہے ۔ جو غیر محسوس انداز میں بچوں کو اسلام کی دعوت دے رہا ہے ۔وہاں ہم نے ملٹی میڈیا ”پروجیکٹر “ کی سہولت بھی دیکھی ،یہ بچوں کو دستاویزی کہانیاں دکھانے کے کام آتی ہے ۔یہ آزادکشمیر کی تن تنہا ،واحد، اکلوتی سرکاری ”بچہ لائبریری“ ہے ۔
ہم اس خوشی پر ابھی پوری طرح پھولے سمائے بھی نہ تھے کہ اب تازہ اطلاعات ہیں کہ حکومت اس” بچہ لائبریری “کی جگہ میوزیم بنانے کا پکا ٹھکا ارادہ کرچکی ہے ۔
لائبریری کتابوں کا ایسا گھر ہے، جہاں مہنگے ترین نسخے بھی بھی بآسانی مل جاتے ہیں ، کسی بھی شعبے میں مہارت ،اور اس شعبے کی بلندیوں تک جانے کیلئے کتابیں پڑھنا نہایت ضروری ہے،آپ دیکھ لیں ،ڈاکٹر ،جج ،وکیل ،پروفیسر ،ایم فل ،پی ایچ ڈی،آرمی آفیسرز اورکسی بھی شعبے کے افسر کیلئے پڑھنا نہایت ضروری ہے ،این ٹی ایس ،پبلک سروس کمیشن ،،سی ایس پی ،آرمی ،نیوی ،ائیرفورس آفیسرز کے امتحانا ت ہی کو لے لیں،ا ن کیلئے نصابی اور غیر نصابی کتابیں پڑھنا ضروری ہیں۔
کتاب بینی،کتاب دوستی کامیاب زندگی کیلئے کتنی ضروری ہے اس کا اندازہ آپ کو اگلی سطور میں ہونے کو ہے ۔اب ہم پاکستان کی دو ممتاز،مشہورو مقبول ترین شخصیات کا تذکرہ کرنے لگے ہیں تاکہ قارئین کو یہ اندازہ ہوسکے کے کتاب کا مطالعہ زندگی کی کامیابی کیلئیکتنا اہم ہے ۔
کتابوں کے مطالعے کے حوالے سے ہم” جاوید چوہدری“ کے خیالات پیش کریں گے ۔
یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ”اردو“زبان کے کالم نگارہیں۔ ان کے بارے میں” صحافی اساتذہ“کا پکاٹھکافیصلہ ہے کہ یہ کالم لکھتے نہیں ،تخلیق کرتے ہیں۔ان کے کالم موضوعاتی ،کہانی کا سا ”دلکش اورپرتجسس “انداز لیے ہوئے، معلوماتی ،تحقیقی،نت نئی دریافتوں،ایجادات سے آگاہ کرنے والے،ولولہ انگیز،ہمت بڑھانے ،جذبہ بیدار کرنے ،تحریک اورترغیب پیداکرنے والے ہوتے ہیں۔
یہ پاکستان کے واحدتحقیقاتی کالم نگار ہیں جنہوں نے صدیوں پرانے” معلومات کے بخل “کا جنازہ نکال دیا ہے۔ان کی دلچسپی کیمطلوبہ معلومات اگر امریکی صدر کے دفتر میں ہوں یہ تب بھی انہیں حاصل کرنے کی کوئی راہ نکال لیں گے ۔یہ پاکستان میں زود نویسی اور اختصار نویسی کے بانی ہیں،یہ ناول ،کہانی،فلم اورہزاروں صفحات کی کتابوں کے لاکھوں الفاظکو صرف 15سو الفاظ میں سمونے کا ملکہ رکھتے ہیں، ان کی صحافتی تربیت کا خاص وصف اختصار نویسی ہے ،ان سطور کے لکھتے وقت بھی انہی کے ”اصول ِ صحافت“ کو مد نظر رکھا گیا ہے۔
ان کی کتاب دوستی کا عالم یہ ہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی کسی نئے موضوع پر کوئی کتاب شائع ہو،پاکستان میں سب سے پہلے ان کی لائبریری میں موجود ہوگی ،ان کی خطیر رقم کتابوں کی خریداری پر اٹھ جاتی ہے ۔
کتاب بینی کی اپنی عادت کی وجہ سے یہ معلومات کے حوالے سے سب سے زیادہ باخبر رہتے ہیں ،ان کا شمار پاکستان کے بہترین اینکر پرسن میں ہوتا ہے ،کالم نگار ی میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے سے پہلے یہ پس پردہ رہنے والے نیوز ایڈیٹر تھے،کتاب پڑھنے کی مستقل عادت نے انہیں ”روزنامہ پاکستان“ کے نیوز ایڈیٹر سے ملک کا سب سے بڑا کالم نگار بنادیا۔
پھر اس کتاب دوستی نے انہیں دنیا بھرمیں سب سے زیادہ پڑھا ،سنا جانے والا کالم نگار اور اینکر پرسن بنا یا ۔ا نکی ایک نرالی خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اخبار بینی کے ختم ہوتے ذوق کو دوبارہ زندہ کیا اورنئے سرے سے اپنے لاکھوں قارئین بنائے، کالموں پر مشتمل ان کی اب تک کئی کتابیں مارکیٹ میں آچکی ہیں اور کئی ایڈیشن اور جلدیں شائع ہوچکی ہیں ،انکی ’زیروپوائنٹ ‘کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہونے کا ریکارڈ رکھتی ہیں ۔
ان کے کالموں اور کتابوں نے کتاب بینی کے دم توڑتے ذوق کو دوبارہ زندہ کیا،اور کتاب بینی کا لوہا منوایا۔ انہوں نے کیئرئیر کاروان کے تحت ایک لیکچر دیا ، جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ دنیا میں پہلی بار 15ہویں صدی میں کتابوں کی اشاعت کا آغاز ہوا،اس سے قبل کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتیں تھیں۔
اور یہ بادشاہوں کی ملکیت ہوا کرتیں تھیں،اس زمانے میں بادشاہ کے سوا کسی کو کتاب پڑھنے کی اجازت نہیں تھی،یعنی صدیوں کا سچ یہ کہ بادشاہوں کی اصل حکومت کے پس پردہ کتاب کی حکومت کارفرما تھی۔
اب ہم آپ کو ملک کے سب سے بڑے اور مقبول ترین ٹرینر،موٹیویشنل اسپیکر اورممتاز ماہرِ’انقلابی، اخلاقی، عملی تعلیم ‘قاسم علی شاہ کی چند باتیں بھی بتاتے ہیں ۔ان کا تعلق لاہور سے ہے ،یہ بنیادی طور پر استادتھے اور آج استاد الاساتذہ ہیں۔تعلیمی نظام کی اصلاح انہیں ٹریننگ کی طرف کھینچ لائی،انہوں نے پہلے خود مہارت حاصل کی،اور آج آپ ملک کی سب سے بڑی مثالی تربیت ساز شخصیت ہیں ۔
آپ ملازمین میں کام کا جذبہ ابھارنے ،کسٹمر سروس مینجمنٹ،صارفین سے تعلقات پرلیکچر دیتے ہیں ،ذہنی دباؤ اور غصے پر قابو پانے،نظم ِوقت،لیڈر شپ،اخلاقی اقدار،اہداف کے حصول کی مہارت،کردار سازی ،تنظیم سازی، منتظمین کی صلاحیتوں میں نکھارجیسے موضوعات پر آپ کی ٹریننگ وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔،آپ نامورترغیبی ، تحریکی اورسوئے ہوئے جذبات جگانے والے عوامی مقرر،کیئریئر کاؤنسلر،لائف کوچ اور موجودہ وقت کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مصنف ہیں۔
آپ نے دنیا بھر کے” اردو “سامعین کیلئے” کامیابی ،خوشی“ کو عام فہم زبان عطا کی ،آپ عوام کے دل ودماغ میں بسنے والے عظیم دوراندیش ودرویش صفت لیڈر ہیں،آپ کے قومی وبین الاقوامی سطح پر براہ راست سامعین تیرہ لاکھ سے متجاوز ہیں ، آپ سوشل میڈیا ،فیس بک ،واٹس ایپ،ٹوئیٹر وغیرہ پر اس وقت پاکستان کی کسی بھی دوسری شخصیت کی بہ نسبت سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والے موٹیویشنل اسپیکر ہیں ۔
آپ کا فلسفہ ہے کہ تعلیم کا اصل مقصد تربیت ہے ،آپ کی فراہم کردہ ٹریننگ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ،آپ گورنمنٹ ،پرائیوٹ ،اور بے شمارکارپوریٹ اداروں کے افسروں کو ٹریننگ دے چکے ہیں ،ان میں فوجی ،پولیس ،کسٹم ، عدلیہ ،سول سروسز،نیشنل ہائی وے اورموٹروے پولیس آفیسرز بطور خاص شامل ہیں۔آپ نے 2017میں قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے نام سے ایک تربیتی ادارہ بنایا۔
آپ کا فلسفہ ہے ”سوچ بدلے گی تو پاکستان بدلے گا“ یہ ادارہ اس وقت پاکستان کے کسی بھی دوسرے فلاحی ادارے سے کہیں زیادہ بہترین اور سستی ترین ٹریننگ فراہم کررہا ہے ۔ ٹریننگ پاکستان میں مہنگا ترین شوق تھا ،انہوں نے یہ مہنگا ترین خواب بھی عام قدردانوں کیلئے آسان کردیا۔
قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کی جانب سے علمی ،عملی ،تربیتی اوراخلاقی اقدار پر مشتمل اب تک تین ہزار’ویڈیوز‘یوٹیوب ،فیس بک پر اپ لوڈ کی جاچکی ہیں
قاسم علی شاہ اپنی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ مطالعہ کو قراردیتے ہیں،گویا ان کی اپنی کامیابی اور دوسروں کو کامیاب بنانے کی مہارت کے پس پردہ سب سے نمایاں ایک ہی عادت ہے اور وہ کتاب بینی ،کتاب دوستی ہے ۔
قائدانہ اوصاف میں سب سے اہم کسی لیڈر کا سب سے باخبرہونا ہوتاہے اور یہ صفت صرف کتابوں کے مطالعے سے حاصل ہوسکتی ہے ۔ قاسم علی شاہ درجن بھر کتابوں کے مصنف ہیں ،جن میں ’کامیابی کا پیغام‘،ذرانم ہو،آپ کا بچہ کامیاب ہوسکتا ہے،بڑی منزل کا مسافر ،اونچی اڑان،اپنی تلاش،سوچ کا ہمالیہ،انسائیکلوپیڈیا کیئریئر،365اقوال خود شناسی،جیت کی جانب،گفتگو قاسم علی شاہ کے ساتھ،اور ترغیب شامل ہیں ۔
آپ کی یہ کتابیں اس وقت سب سے زیادہ پڑھی جارہی ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے کتابیں اس لیے لکھی ہیں تاکہ کتاب سے ٹوٹا ہوا رشتہ پھر سے استوار ہوجائے ۔
انکی آمدن کی خطیر رقم کتابوں کی خریداری پر خرچ ہوتی رہی ہے،اور آج آسانیاں بانٹے ، کتابیں بانٹنے میں خرچ ہوری ہے، وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں بادشادہوں نے اتنا عرصہ حکومت نہیں کی، جتنا کتابوں نے حکومت کی ہے ،قاسم علی شاہ اور جاوید چوہدری کی” کامیابی کا راز“ زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھنے کی مہارت میں پوشیدہ ہے ،دنیا کا کوئی بھی بڑا انسان کتاب پڑھنے بغیر بڑا انسان نہیں بن سکتا ۔
دوسری جانب آپ ہماری آزادحکومت کو دیکھ لیں یہاں آج بھی 15ویں صدی سے قبل کی بادشاہوں والی سوچ کارفرما ہے ۔بچوں کی لائبریری کیا بن گئی کہ اب بچوں کی کہانی پڑھنے پر پابندی لگنے کو ہے یادررہے بچوں کی کہانی پڑھنے کی عادت آگے چل کر اسے کتاب دوست بناتی ہے اور کتاب دوستی اسے بڑاانسان بناتی ہے۔
ہمارے کانوں سے آہ بھری جوآوازٹکراتی ہے وہ چلڈرن لائبریری کی ہے۔جو مقبوضہ کشمیر کے کسی مظلوم بچے کی طرح کہہ رہی ہے ۔ہائے مجھے بچا ؤ ․․․․ہائے مجھے بچاؤ ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.