ڈاکٹر صابر آفاقی
اس تحریر کے ساتھ تصویر بوسہ گلہ ضلع پونچھ (کشمیر) کی ہے۔ ( 1959)
آخر کار سات سال کے بعد میرا نمبر آگیا تو مجھے سینئر ٹیچر کا گریڈ دے کر 1858 میں پونچھ کے بوسہ گلہ ہائی سکول میں بھیج دیا گیا ۔مئی کے مہینے میں میرا تبادلہ ہوا۔مظفر آباد میں عبد الغنی غنی میرے دوست تھے۔ ان سے ملا تو وہ کہنے لگے: بوسہ گلہ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر میرے دوست اور پونچھ شہر کے مہاجر ہیں ،وہ آپ کو خوش رکھیں گے۔ چنانچہ میں نے کالی شیروانی بنوائی کہ اب ترقی مل گئی ہے ۔ایک دن باغ جانے والی ٹوٹی پھوٹی بس میں بیٹھ کر گیا ۔منگ بجری پہنچ کر بس سے اتر گیا ۔چھوٹے سے ہوٹل میں بیٹھ کر چائے نوش کی اور بوسہ گلہ کے بارے میں دو ایک آدمیوں سے معلومات حاصل کیں۔ اب شام کے چار بج چکے تھے آگے اکیلے جانا ممکن نہ تھا ۔چنانچہ منگ بجری کا نالہ عبور کرکے اس پار ایک ہوٹل پر رات کو قیام کیا یعنی ساری رات جاگ کر کاٹی کہ چارپائی شکستہ اور بستر نہایت گندہ تھا۔
صبح کو آٹھ کر نماز پڑھی ،آٹھ بجے پیدل چل پڑا تقریباً تین میل کی چڑھائی چڑھ کر پانیولہ پہنچا ۔پھر یہاں سے سرخ پتھروں کا راستہ چل کر جھولا ناڑ پہنچ گیا ،اب میں نے آدھا راستہ طے کر لیا تھا ،ہوٹل سے ایک روٹی دال کے ساتھ مل گئی اور اسے غریب الوطنی میں غنیمت جانا ذرا سستا کر سفر جاری رکھا ۔بھاگیانہ ،بھیڑیں اور داتوٹ کے جنگوں سے گزر کر بوسہ گلہ پہنچا تو دن کے بارہ بج چکے تھے۔