شمس رحمان

معاشرہ اور معاشرتی تبدیلی  ۔۔ سلسلہ وار کالم  

مقامی سطح پر جاگیردار ہی  ‘ مہاراجہ’  یعنی ماہی باپ تھے۔ وہ  پیداوار کا  بہت بڑا حصہ  لینے کے ساتھ ساتھ زمیندار سے مختلف قسم کے ٹیکس بھی وصول کرتے تھے۔ مثال کے طور پر  کاہ چرائی ، جنگل کا مالیہ ، کڑاہاٹوں ( پن چکیوں)   کی آمدنی پر ٹیکس اور قانونی جرمانے وغیرہ۔

مختلف خطوں میں جاگیرداروں کی  اور قسمیں یا  پہچانیں  بھی تھیں جیسے پٹہ دار، علاقہ دار، معافی دار اور مقرری دار وغیرہ

اب ظاہر ہے کہ جاگیردار یہ سب کام خود تو نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے ان کے نیچے زیلدار، نمبر دار اور چوکیدار وغیرہ ہوتے تھے۔   ریاست کی تقسیم تک   چوکیدار سے  لے کر مہاراجہ تک سب کی آمدنی کا  سب سے بڑا ذریعہ کسان کی محنت   کے ذریعے زمین سے پیدا ہونے والا اناج تھا۔  یوں اس عہد میں دو بڑے طبقے جو تھے وہ  کسان  اور  جاگیردار تھے ۔ اس زاویے سے مہاراجہ بھی دراصل جاگیردار تھا جو  ریاست میں زمین کا سب سے بڑا مالک تھا۔ تعداد کے لحاظ سے کسان سب سے بڑا طبقہ تھا۔  تاہم قریب سے دیکھیں تو ان میں بھی آگے پرتیں تھیں۔  مزارعوں  اور جاگیرادار کے درمیان ایک طبقہ تھا  جو زمین دار تھا لیکن اپنی زمین پر خود ہل چلاتا تھا ۔  کچھ جو تھوڑے بڑے زمین دار تھے یا کسی وجہ سے اپنی زمین  خود کاشت نہیں کر سکتے تھے   وہ کچھ زمین کسی بے زمین کسان کو ‘ پھکے’ پر دے دیتے تھے۔ جس پر ‘ بہھاک مزارعے’             کام کرتے تھے۔ س پر  پہاڑی زبان کے بڑے شاعر  استاد سلیم رفیقی نے ایک معروف نظم بھی لکھی ہے۔   ایسی صورت میں حصہ  اکثر آدھا آدھا ہوتا تھا۔  زمین پر مزارعے کسانوں  اور دستکاروں / کسب داروں کے ساتھ کھڑے ہو کر دیکھیں تو یہ یعنی   چھوٹے اور درمیانے زمیندار  ( اس دور میں )  دستکاروں کی نسبت قدرے خوشحال تھے اور اوپرلے طبقے کی نچلی پرتوں کے   ساتھ میل کھاتے تھے۔اکثر کے تعلقات  کی پہنچ زیلداروں، نمبرداروں اور چھوٹے سرکاری افسروں  تک ہی ہوتی تھی۔  قریب سے دیکھنے پر اس  زمیندار کو  اس عہد کا متوسط طبقہ قرار دیا  جا سکتا ہے۔  وہ ایک طرف  قدرے خوشحالی اور  ‘ اوپر’ تعلقات کے ذریعے اوپرلی پرت کے ساتھ جُڑا ہوا تھا اور دوسرے طرف زمینداری خود کرنے کی وجہ سے کسان کے ساتھ بھی جڑا ہوا تھا۔  میری معلومات کے مطابق مہاراجہ عہد میں میرپور میں جاگیردار زیادہ تر ہندو اور سکھ ہی تھے۔ زمینداروں میں مسلمانوں کی  شاید اکثریت تھی۔  تاہم اس پہلو پر مزید معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی اہم بات ہے کہ پیداواری تعلقات صرف زمین کے مالکوں اور زمین پر ہل چلانے والے کسانوں تک ہی محدود نہیں ہوتے۔ ہم جس عہد کی بات کر رہے ہیں اس  تک پہنچتے پہنچتے میرپور میں کاشتکاری کی معیشت   ( زراعت)   محنت کی تقسیم کے ہزاروں سالوں پر محیط  مسلسل عمل  کے نتیجے میں کئی ایک پیشوں/ کسبوں میں تقسیم ہو چکی تھی اور ان کسبوں/پیشوں سے تعلقات کا ایک پیچیدہ  اور  خاصا گھنا  سماجی  تانا بانا پیدا ہو چکا تھا ۔  کسان  اور زمیندار کے ساتھ ساتھ کسبوں کا یہ تانا بانا تقسیم سے قبل کے میرپوری معاشرے کی جڑ بنیاد تھا ۔زمین سے اناج اگانے کے لیے کسان کو بیلوں کے لیے  ہل پنجالی کی ضرورت تھی ۔ ہل پنجالی  ترکھان بناتا تھا۔ جب کہ ہل کو پھال  ( لوہے کا  تیز نوکیلا حصہ جو کسان کی ہتھی تلے   بیلوں کے زور سے زمین کا سینا چیرتا   ہے )  کی ضرورت ہوتی تھی ۔  پھال لوہار بناتا تھا۔ بیلوں کی بھاگیں اور چھکے وغیرہ کسان اور زمیندار  خود بنا لیتے تھے۔  کسان ، ترکھان اور  لوہار  یہ ساری محنت کیوں کرتے تھے؟

اناج (روٹی)  کے لیے۔

روٹی کہاں سے آتی تھی ؟

 زمین سے۔

اسی طرح     دیگر بہت سے پیشے  وجود میں آئے ۔دوسرے پیشوں  میں درزی، موچی، نائی، مستری، تیلی، کاسوی، کمہار، چوڑے چمیار، مسلی، مراثی  وغیرہ وغیرہ ۔

اس عہد میں مسجد کا امام یعنی مولوی صاحب کو بھی فصلوں کی پیدوار سے حصے کی شکل میں ‘ تنخواہ’ دی جاتی تھی ۔ یوں وہ بھی  اپنی  خدمات  کے بدلے اناج میں حصہ پاتے تھے۔

 ہر ایک پیشے کا مقصد  اناج  تک پہنچنا  ہوتا تھا ۔ مجھے یاد ہے  ہمارے بچپن میں محنت مزدوروی، ملازمت حتیٰ کہ مزدوری کے لیے ترک  وطن کو بھی روٹی کمانے کا عمل کہا  جاتا تھا۔

بس جی روٹی کما رہے ہیں۔  بیٹا یا بھائی روٹی کمانے گیا ہے۔ بس جی لگے ہوئے زمینوں سے روٹی کمانے۔ اب اس کے معنی  میں وسعت آ گئی ہے۔ پیشے کیرئیر بن گئے ہیں۔

زمیندار کی حیثیت کیوں زیادہ تھی؟  اس کی واضح وجہ یہ تھی کہ سب کو روزی زمین سے ملتی تھی  اور زمین زمیندار کے پاس تھی۔  لہذا جس طرح پوری ریاست میں مہاراجہ سب سے بڑا جاگیردار ہونے کی وجہ سے  سب سے اونچی حیثیت کا مالک تھا اس ہی طرح گاؤں کی سطح پر زمیندار کی حیثیت سب سے اونچی تھی۔

تاہم یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میرپور  ( اور ریاست )   میں اگرچہ طبقاتی تقسیم موجود تھی اور  بڑے زمینداروں سے لے کر سب سے اوپر مہاراجہ تک ‘ جاگیرداروں’ کو بہت سی مراعات حاصل تھیں اور  ان کے پاس دولت اور اختیار بھی تھا تاہم ان کے اور عام چھوٹے زمیندار ،  کسان اور دستکار  کے درمیان سماجی  فاصلہ بہت زیادہ نہیں تھا۔ مثال کے طور پر اندرون  پنجاب میں  مالک اور مزارعوں کے درمیان جتنا  فاصلہ تھا  میرپور میں اس سے بہت کم تھا۔  کیونکہ یہاں زمین  اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی پنجاب میں ۔

بہرحال یہ تھی  عوامی سیاست کے ظہور سے پہلے مہاجہ راج کے دوران ریاست جموں کشمیر کے اندر معاشرتی ڈھانچے کی جڑ بنیاد۔  پورا راج اس پھر کھڑا تھا۔ زمین پر   اس ڈھانچے  کو  کسان ، زمیندار اور اوپر بیان کیے گئے تمام کسب دار پیشوں کے محنت کش  مرد اور عورتیں ہر لمحے دھکیلتے رہتے تھے۔ وہ اس  معیشت کا ا نجن تھے۔  اس   میں  کسان و زمیندار کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ کیونکہ وہ اناج پیدا کرتے تھے ۔  اس حقیقت کو تقسیم سے پہلے ریاست کے باشعور باشندے سمجھنے لگے تھے۔   1932 کی ”  مالیہ بند تحریک” کے دوران سردار بدھ سنگھ نے اس بات کو  ان الفاظ میں  رعایا خاص طور سے  کسانوں کو    بتایا تھا۔

“کسانو تم پیداوار کرتے ہو اور مہاراجہ کی بلبلیں آتی ہیں اور کھا جاتی ہیں۔ راجہ کا راج تمھارے ہل پر کھڑا ہے ۔ اگر تم ہل روک لو تو راج زمین بوس ہو جائے۔”

ڈدیال کے معروف عالم دین اور سیاسی رہنما مولانا عبداللہ سیاکھوی  نے اس کو اپنی مشہور عام  نظم ‘ لیتر نامہ’  ( اس کو کچھ لتر نامہ بھی کہتے ہیں) میں بھی  اس تقسیم  کو  سمویا تھا۔ بعد ازاں استاد سلیم رفیقی نے  اپنی نظموں ‘ مہاڑی ریت’ اور ‘ مزارع’ میں پیش کیا تھا۔

ریاست میں سب سے بڑے طبقے کی دریافت  کے بعد اس کے  سیاسی شعور میں اضافے کے ساتھ ساتھ مہاراجہ راج ناقابل شکست نظر آنے کے باوجود بتدریج  فرسودہ ہو کر کمزور ہوتے ہوتے آخر ٹوٹ بکھر گیا۔

‘ مالیہ کی تحریک’  

انیس سو اکتیس / بتیس میں جو تحریک اٹھی تھی ، خاص طور سے مالیے میں اضافے کے خلاف  وہ ‘ مالیہ کی تحریک’  تھی ۔  اس کی قیادت میں   ہندو ، مسلمان اور سکھ شامل تھے۔  انہوں نے اس تحریک  میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ ان میں ان ساہوکاروں کے بیٹے بھی تھے  ۔ وہ اس تحریک کو ایک ظالمانہ حکومتی اور ساہوکارہ نظام  کے خلاف تحریک سمجھتے تھے۔ لیکن  کچھ مسلمان  اور ہندو لیڈروں نے اس کو مذہبی فرقہ واریت کی طرف موڑ دیا۔ ایسا کرنا آسان تھا۔ کیونکہ واقعی میرپور کے حکومتی ڈھانچے میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ خاص طور سے محکمہ مال میں جو سب سے بڑا محکمہ تھا کیونکہ وہ ریاست میں پیدوار کے سب سے بڑے زریعے زمین   سے ہونے والی پیداوار کا انتظام چلاتا تھا۔  تاہم سیاست کے نیچے جو حقیقت  عام   رعایا کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی  کہ:

کسانوں کی اکثریت مسلمان تھی ۔ سب کسان مسلمان نہیں تھے۔ ہندو بھی تھے۔

جاگیرداروں اور ساہوکاروں کی اکثریت ہندو تھی ۔ سب جاگیردار اور ساہوکار ہندو نہیں تھے۔ اصل مسئلہ وہ  مہاراجہ نظام تھا جس کی جڑیں صدیوں میں اُتری ہوئی تھیں۔ یہ نظام کسان کے ہل اور دستکاروں کے اوزاروں  اور محنت پر کھڑا تھا۔ لیکن کسان اور دستکاروں کی محنت کا مقصد زمین سے روزی حاصل کرنا تھا اور زمین کا اصل مالک ریاست کا سربراہ ہوتا تھا۔ ایسا  ریاست جموں  کشمیر میں بھی تھا جہاں کی اکثریت مسلمان تھی لیکن   حکمران ہندو تھا۔ لیکن ایسا ان ریاستوں میں بھی تھا جہاں کے حکمران مسلمان نواب اور نظام تھے لیکن پرجا کی اکثریت ہندو تھی۔ لیکن یہ حقیقت عوام کی کثریت سے اوجھل تھی  اس لیے یہاں بغاوتیں مذہبی رنگ اختیار کر جاتی تھیں۔ یا کچھ چالاک لیڈر ان کو مذہب کی طرف موڑ کر اپنے مفادات حاصل کرتے تھے۔

برطانوی راج کے نمائندے میجر سالزبری  کی رپورٹ

ریاست جموں کشمیر میں بھی اس مغالطے  کی وجہ سے سیاست جلد ہی  معاشرے کے بنیادی ڈھانچے کو بدلنے اور ناانصافیوں کو ختم کرنے کی راہ سے ہٹ کر فرقہ واریت کی اندھی کھائی کی طرف لڑھک گئی اور نفرت کے سمندر میں غرق ہو گئی۔  غیر منصفانہ ملکیت اور تقسیم کا نظام یعنی  معاشرتی ڈھانچہ وہیں کا وہیں رہا۔    دلچسپ بات یہ ہے کہ اس  فرقہ ورانہ سیاست پر تو کہی پہلوؤں سے کتابوں کی کتابیں لکھی گئیں ، لیکن اس سیاست کے نیچے روزی روٹی  کمانے کے رشتوں  سے  بُنے ہوئے تانے بانے  اور ان رشتوں کو  بہتر بنانے کی سیاست کے بارے کچھ کم ہی پڑھنے کو ملتا ہے۔ میرپور  کے معاشرتی ڈھانچے پر تو  1932 کی مالیہ تحریک کو کچلنے کے لیے آنے والے برطانوی راج کے نمائندے میجر سالزبری  کی طرف سے  تیار کی جانے والی رپورٹ کے سواء سماجی تاریخ کی کوئی  تحریر شاید کہیں ہو مگر   میری نظر سے تو نہیں گزری۔

اس رپورٹ  کی کچھ   متعقلہ جھلکیاں یہاں پیش کی گئی ہیں ۔ اس رپور ٹ کا تفصیلی تجزیہ  الگ سے پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔

اس رپورٹ کا عنوان تھا

 KASHMIR DISTURBANCES

( کشمیر میں  شورش) ۔

 اس  رپورٹ کے تین مقاصد تھے۔

1۔ میرپور میں زرعی اور دیہہ صورت حال  اور ریاستی انتظامیہ کی مختلف شاخوں  میں بہتری لانے کے سوال پر رپورٹ  کی تیاری

2۔ میرپور سے فوجوں کی واپسی کا سوال

3۔   سینئر سول افسر، کشمیر دربار اور    فوج کے  کمان دار کے تعلقات بارے ہدایات

اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 11 جنوری 1932 کو ریاست جموں کشمیر سرکار کی طرف سے میرپور  میں شورش کے حوالے سے  ایک ٹیلی گرام   برطانوی ہند کی حکومت کی بھیجی گئی تھی جس میں  درخواست کی گئی  کہ  ریاستی حکومت کو ایک جہاز دیا جائے جس پر سے   جموں کے کسانوں کے لیے مالیے کی نئی شرح ادا کرنے کی ہدایات پر مشتمل    اشتہارچے گرائے جائیں گے۔ اگلے دن یعنی 12 جنوری 1932 کو اس معاملے پر ایک اجلاس میں  مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر اس  درخواست کو مسترد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔   پہلی وجہ یہ کہ برطانوی ہند سرکار کو  یقین نہیں تھا کہ  نوٹسوں میں جو مالیے کی جو شرح مانگی گئی ہے وہ موجود حالات میں معقول  اور منصفانہ ہے اور  برطانوی ہند کی حکومت ‘ دربار’ اور اس کے’ کرایہ داروں’   کے درمیان جھگڑے میں کسی کی طرف داری نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان خطوط پر تعاون کے لیے ضروری ہے کہ    ‘ریزیڈنٹ’    زرعی حالات کا جائزہ لے کر اپنی رائے پیش کرے کہ درباری کی طرف سے جو ریاعات  دی گئی ہیں وہ موجودہ صورت حال میں کافی ہیں۔ ریزیڈنٹ سے کہا جانا چاہیے کہ جتنی جلدی ممکن ہو وہ اس معاملے پر اپنی رائے پیش کرے۔ ایک اور وجہ یہ بھی بیان کی گئی کہ نوٹس مفاہمتی نہیں بلکہ دھمکی آمیز تھے۔

جنوری 1932 کو  پنجاب کے گورنر جعفری مونٹ مورینسی  نے وزیر داخلہ  مسٹر ایمرسن کو خط لکھا جس میں کہا گیا اکتیس

” میرے خیال میں  ‘ریذیڈنٹ’ یا  میجر سالز بری سے کہا جائے کہ     میرپور پہنچ کر یہ معلوم کرنے کے لیے  صورت حال کا جائزہ لے  کہ  میرپور ، کوٹلی اور پونچھ وغیرہ میں   بغاوت   کی بنیادوں میں     حقیقی معاشی   شکایات کس حد تک موجود ہیں۔ کیونکہ اگر اس کی سیاسی  – فرقہ ورانہ   وجوہات   کو دبا بھی دیا گیا تو اگر اس کی بنیاد    میں جائز شکایات موجود ہیں تو بعد میں یہ دوبارہ بغاوت ہو سکتی ہے۔ “

اس رپورٹ میں بھی کسانوں اور دستکار پرتوں کی بجائے  مذہبی فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے معاشرے کو دیکھا گیا ۔ اس رپورٹ  کا خلاصہ یہ تھا کہ میرپور میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت کے باوجود  محکمہ مال اور دیگر شعبوں میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ مالیہ تحریک مالیے کی اونچی شرح کے خلاف شروع ہوئی تھی اور اس میں تمام طبقات کے لوگ شامل تھے۔ اس کے رہنماؤں میں سردار بدھ  سنگھ،  راجہ محمد اکبر،مولانا عبداللہ سیاکھوی  اور کئی ایک دیگر رہنما شامل تھے ۔ مسلمانوں نے مساجد میں قران پر حلف لے رکھا ہے کہ نئی شرح کے مطابق مالیہ ادا نہیں کرنا ہے۔ اس لیے  صورت حال کا حل یہ ہے کہ مالیے کی شرح میں اضافہ واپس لیا جائے ۔  اس تحریک میں شامل افراد اور جموں کشمیر اور برطانوی  ہند سرکاروں کی طرف سے پکڑ دھکڑ، پھانسیوں اور قیدو بند کے بارے میں تفصیلات نیچے دی گئی کتابوں میں شامل ہیں۔

خلاصہ اس حصے کا یہ  ہے کہ بنیادی  مسئلہ 1947 میں ہندو نہیں تھے بلکہ وہ استحصالی نظام تھا  جو ان گنت صدیوں سے  کسان  کی ہل اور کسب داروں کی محنت سے پیدا ہونے والی پیداوار پر پل رہا تھا۔ وہ نظام اب پسپا ہو رہا تھا۔   عوامی سیاست کے دباؤ کی وجہ سے سیاست کے میدان میں  انتخابات کے ذریعے نمائندے چُننے کے ساتھ ساتھ کسانوں اور زمینداروں کو زمین کی ملکیت دینے کی طرف بھی پیش رفت جاری تھی۔ لیکن پھر  غدر پڑ گیا ۔ جس کو ہمارے اس عہد کے بزرگ ‘ رولا’ کہا کرتے تھے۔

اس پر بھی بہت کچھ لکھا ہوا  دستیاب ہے۔

یہاں ہمارے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ اس ‘ غدر’ ، ‘ رولے’   یا  ‘ جہاد’  کے نتیجے میں مہاراجہ راج کے خاتمے اور  یر مسلموں کے قتل عام اور ان کے میرپور چھوڑ جانے کے سواء کچھ نہیں بدلا تھا۔     وہ نظام جس نے مزدور کسان و دستکار اور چھوٹے زمیندار کو جھکڑا ہوا تھا ، جس نے عام انسانوں کی زندگیاں اجیڑن بنائی ہوئی تھیں ۔ وہ نظام صیح سالم تھا۔ یعنی حقیقی  تبدیلی نہیں آئی تھی۔

ختم کیا ہوا تھا؟ مہاراجہ راج۔  ہندوؤں کا وجود۔ نظام وہیں کا وہیں رہا ۔ بلکہ بد سے بد تر ہوتے ہوتے اب تو بد ترین ہو چکا ہے۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact