معاشرہ اور معاشرتی تبدیلی  ۔۔ سلسلہ وار کالم  

تحریر  شمس رحمان 

 سنتالیس سے پہلے کا جو علم سنتالیس کے بعد موجود پیداواری  اور معاشرتی ڈھانچے سے حاصل کیا اور تاریخی مادیت کے علم کے ذریعے سمجھا اس کا  خلاصہ یہاں بیان کر رہا ہوں تاکہ ہم سمجھ  سکیں کے    یہاں کا پیداواری اور معاشرتی ڈھانچہ کیا  تھا اور کب تک  اس کو مرکزی حیثیت حاصل  رہی؟ پھر وہ کیوں بدلا ؟ کیسے بدلا ؟ کس حد تک بدلا ؟   جیسے سوالوں پر بات ہو گی۔  امید ہے کہ اس کے بعد ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں رہے گا کہ اس کی جگہ کس پیداواری ڈھانچے نے لی؟ کب؟ کیوں اور کیسے؟ اور یہاں کے معاشرتی ڈھانچے میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں ؟ کب اور کیوں؟ اور اب کیا ہے؟  اور آگے کیا معاشرتی تبدیلیاں ہونے  کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔

اوپر دی گئی معلومات کی بنیاد پر یہ تو  ہم سمجھ چکے ہیں کہ میرپور  ڈویژن کا علاقہ دنیا کے ان آٹھ قدیم خطوں میں شمار ہوتا ہے جہاں  شکاری انسان نے   کاشتکاری  کی ابتداء کی۔اس کے بعد یہ خطہ کئی ادوار سے گذرا لیکن   1960  کی دہائی تک  میرپوری معاشرے کی جڑ بنیاد یعنی بنیادی ڈھانچہ زرعی ہی رہا اور کاشتکاری ہاتھ سے استعمال کیے جانے والے آلات اور اوزاروں سے ہوتی رہی۔عین ممکن ہے کہ شہر میں اکا دُکا  مشینوں کا استعمال اس سے پہلے   شروع ہو چکا ہو لیکن مجموعی طور پر کم از کم کاشتکاری  جو کہ نوے فیصد پیداوار کا حصہ تھی اس میں مشینیں استعمال نہیں ہوتی تھیں۔

پیداوار کے کاشتکاری  و زرعی     عہد کے دوران جو قدیم زمانے سے 1930 تک بغیر کسی بڑی اجتماعی  عوامی مزاحمت کے جاری  رہا    اس کے اپنے مخصوص پیداواری تعلقات اور محنت کی تقسیم کے نمونے  ، سماجی و معاشی اور سیاسی حیثیت اور مرتبے کے پیمانے   اور دائرے تھے جو  ان پیدواری سرگرمیوں سے پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والی مختلف روایات، اقدار اور توقعات و فرائض اور ذمہ داریوں کے ذریعے جاری و ساری  چلے آ رہے تھے۔   تبدیلی کی رفتار اتنی سست تھی کہ  معاشرہ ساکت و جامد نظر آتا تھا۔  جیسے ہزاروں سالوں سے ایک ہی مقام پر کھڑا تھا۔ یہی وجہ تھی بزرگ زیادہ دانا ہوتے تھے۔ کیونکہ وہ نئے پیدا ہونے والوں سے کئی سال قبل سے  اس معاشرے میں رہ رہے تھے اور  پچھلی نسلوں سے سیکھے ہوئے علم، اپنے مشاہدات اور تجربات کی وجہ سے نئے پیدا ہونے والوں کے مقابلے میں  بہت کچھ جانتے ہوتے  تھے۔

اس کو بہت زیادہ تفصیل سے یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہاں تو بنیادی سمجھ بوجھ پیش کرنا ہی مقصد ہے نا ،  اس لیے  نیچے اس کی بس ایک جھلک ہی پیش کی گئی ہے۔

اشتراکی معاشرے کی سادہ ترین  شکل

پیداوار  کا بنیادی اور بڑا  ذریعہ  زمین تھی۔ لیکن زمین سے پیداوار حاصل کرنے کے لیے آلات  اور اوزار و ہتھیار بنانے کی ضرورت تھی۔ پیداوار کرنے کے لیے  پہلے سادہ  آلات  اور اوزار  بنائے اور استعمال میں لائے گئے ۔ پھر قدرے پیچیدہ اور پھر مزید  پیچیدہ ۔ ارتقاء کا سفر جاری رہا ۔ آلات کے ساتھ ساتھ تعلقات پیداوار بھی ارتقاء پذیر رہے۔  زمین سے پیداوار حاصل کرنے کے لیے آلات  اور اوزار اور ہتھیار بنانے   اور ان کو چلانے  کا   کام انسان نے انسانی محنت کے ذریعے کیا۔ اگر آپ تصور کریں تو تب بھی اور اب بھی  تو نظر آئے گا کہ پیداوار کا یہ سارا عمل صرف انسانی محنت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ورنہ   آلات اور اوزار اور ہتھیار بن سکتے نہ پیداوار ہوتی ۔ باقی سب کچھ تب کارآمد ہوا اور اب بھی تب کارآمد ہوتا ہے جب انسانی محنت اس میں شامل  ہوتی ہے یعنی انسان  ان کو کام  میں لاتا ہے۔ ورنہ  سب کچھ مٹی کا ڈھیر ہے۔

دراصل پیداواری تعلقات   ہی سے معاشرتی ڈھانچہ بنتا ہے۔   مختلف تحریری معلومات اور آثار قدیمہ کی دریافتوں اور جنیاتی علم کے ذریعے ملنے والی معلومات کو  تاریخی مادیت کی عینک سے دیکھنے پر  نظر آتا  ہے کہ قدیم ترین  شکاری معاشرے میں جہاں  پیداواری   سرگرمیاں  شکار کرنے اور قدرت کی طرف سے موجود  خوراک  حاصل کرنے  تک محدود تھیں  اس معاشرے میں پیداواری تعلقات بہت سادہ ، بنیادی  اور تھوڑے سے تھے۔ اس عہد میں کوئی چیز کسی کی ملکیت نہیں تھی۔ جس کو جو ملتا اور جو بھی جو کچھ حاصل کر سکتا  وہ اس کو استعمال کر لیتا۔ محفوظ کر کے  زخیرہ کرنے کا علم ابھی انسان نے نہیں سیکھا تھا۔ لہذا پیداواری سماجی  تعلقات کے حوالے سے  یہ   سنجھالی یا اشتراکی معاشرے کی سادہ ترین  شکل تھی۔

 اس کے بعد  جب کاشتکاری سیکھ لینے کے بعد انسان نے  ایک جگہ رہنا شروع کر دیا تو قبائل  وقوع پذیر ہوئے  جنہوں نے اپنے اپنے ‘خطے’ پر ڈیڑے ڈال لیے ۔ وہاں بسنے لگے اور وہ خطہ ان کا قرار پایا۔ اس معاشرے میں پیداواری سماجی رشتوں کی شکل قبائلی ہونے کی وجہ سے یہ معاشرے قبائلی کہلائے۔   ( ایسا بالکل نہیں تھا کہ پچھلا نظام  مکمل طور پر ختم ہو جاتا تھا اور پھر نیا پیدا ہوتا تھا۔ بلکہ یوں ہوتا تھا کہ  کسی بھی خطے میں انسانوں کے گروہ بقاء کی جنگ میں کچھ نیا  سیکھ لیتے ،  بنا لیتے یا معلوم ( دریافت یا ایجاد)    کر لیتے  تو ان کے اس گروہ کی زندگی  میں اس کے استعمال سے اس کے  مطابق  تبدیلی کا عمل بھی شروع ہو جاتا تھا۔ غور کریں تو اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ )

میرپور میں بھی ایسا ہی ہوا ۔ ہزاروں سال یہ خطہ  مختلف قبائل کی حکمرانی   میں چلتا رہا ۔ درحقیقت اس عہد میں حکمرانی کم اور حکمرانی کے لیے جنگ زیادہ ہوتی تھی۔ جو جس طرف سے چاہتا حملہ کر دیتا اور جیت جاتا تو نیا حاکم اور ہار جاتا تو پچھلا حاکم اپنا حکم جاری رکھتا۔

راجواڑوں کا  عہد

یہ ‘ حکم’ کا عہد تھا۔

مختلف راجواڑے قائم ہوئے اور پھر جو راجوارہ قدرے مستحکم ہو جاتا وہاں اناج اگانے اور اس کا بڑا حصہ حاکم  تک پہنچانے کے لیے زمینیں اپنے وفاداروں میں تقسیم کی جاتی تھیں۔ یہ وفادار  جاگیر دار کہلاتے تھے۔ جن کا کام ارد گرد سے کسانوں  کو اناج اگانے پر مامور کرنا  ہوتا تھا۔ یہ اناج کا بڑا حصہ حاکم کو ، پھر خود اور باقی جو بچتا کسان کو ملتا۔   یعنی کسان پیداوار کرتا تھا لیکن اس کو سب سے کم حصہ ملتا تھا۔ کیوں؟ حالانکہ کسان تعداد میں زیادہ ہوتے تھے؟

تاریخی مادیت   اور  اینگلز و مارکس  کے نظریے سے پہلے اس کی کئی تاویلیں کی جاتی تھیں۔ کئی جواز پیش کیے جاتے تھے اس غیر منصفانہ تقسیم کے۔   شاید   یہ سوال تاریخ کے کسی مرحلے پر  پیدا ہوا کہ   ملکیت اور محنت کا یہ نطام کس نے بنایا تھا؟ قدیم عہد میں   اس پر دو بڑے نظریے  پائے جاتے تھے۔  ایک یہ کہ یہ اللہ کی  مرضی تھی۔ اللہ کسی کو زیادہ طاقت و اختیار اور  رزق دیتا تھا اور کسی کو کم۔ یہ قسمت کے کھیل تھے۔ دوسرا نظریہ یہ تھا کہ  طاقت و اختیار دیتا تو اللہ ہی ہے لیکن طاقت والے لوگ اس کو غلط استعمال کرتے ہیں ۔ اس دور کے صالحین اور رہنماؤں کی طرف سے   یتیموں کا مال نہ کھانے  اور  کمزوروں ناداروں اور مسکینوں کا   خیال رکھنے کی تلقین کی جاتی تھی۔  اکثر  رعایا  بشمول غریب، مسکین، نادار، کمزور    اور کسان قسمت کی اس سمجھ بوجھ کے اتنے زیر اثر رہتے تھے کہ  غیر منصفانہ تقسیم پر سوال اٹھانا تو درکنار سوچنے کو بھی گنا کبیرہ سمجھتے تھے۔  اکثر خود کو اس کا ذمہ دار سمجھتے تھے کہ شاید ان کے اعمال ایسے نہیں تھے کہ  اللہ خوش ہو کر ان کو زیادہ دیتا۔ کچھ اپنے رہنماؤں اور پیشواؤں کی ان باتوں کو تسلیم کرتے تھے کہ ان کو اگلے  جہان ان  تکالیف و مصائب کا اجر ملے گا۔

قبائلی و جاگیرداری نظام

  تاریخی مادیت کے نظریے  کی روشنی میں تاریخ کو پڑھا گیا   تو یہ عقدہ کھلا کہ  سوال ملکیت کا تھا۔ بڑا حصہ وہ لیتا تھا جو زمین کا مالک تھا۔  پھر وہ جو مالک کے لیے براہ راست کا م کرتا تھا اور پھر جو بچتا وہ اس کو ملتا جو پیداوار کرتا تھا۔  یعنی تاریخی علم کی روشنی میں  صاف نظر آتا ہے  کہ دولت کی غیر مساوی اور  غیر منصفانہ تقسیم   یعنی  اونچ نیچ  کا رواج درحقیقت   تاریخ کے ایک مرحلے پر   پیداواری ذرائع کی  غیر برابر ملکیت  اور  غیر منصفانہ تقسیم سے پیدا ہوا تھا ۔

تاہم ‘ مالکوں ‘ کی طرف سے نجی ملکیت کو شدید تحفظ حاصل رہا اور آج بھی حاصل ہے۔  ملکیت کے اس نظام سے بتدریج پیداواری تعلقات کی اگلی شکل جاگیرداری پیدا ہوئی  جو برصغیر  کے بہت سے خطوں میں  ابھی تک  نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ آج بھی مذہبی عقائد کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔  16 مارچ 1846 کو جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے درمیان امرتسر کے مقام پر معائدے کے نیتجے میں ریاست جموں کشمیر  وجود میں آئی تو اس میں شامل ہونے والے علاقوں میں قبائلی و جاگیرداری نظام جڑیں پکڑ چکے تھے۔ کہیں دونوں کی شکلیں موجود تھیں۔(  میرپور میں تو آج بھی قبائلی اور جاگیرداری   تعلقات اور نظام  موجودہ ‘ سوداگری’ اور ‘ دوکانداری’ نظام کی مختلف شکلوں کے ساتھ ساتھ جاری و ساری ہیں) ۔

جاگیر داری 1846 کے بعد

اب اگر 1846 میں موجودہ  ( منقسم )     ریاست جموں کشمیر کی تشکیل کے بعد کو ذہن میں رکھ کر سوچیں تو زمین جو  لوگوں کی روزی روٹی اور ریاست کی آمدنی  کا سب سے بڑا ذریعہ تھی وہ مہاراجہ کی ملکیت تھی۔ کیونکہ مہاراجہ نے ریاست  برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو رقم ادا کر کے ریاست اپنے نام کروائی تھی جس میں ریاست کی حدود کے اندر زمین،  اس پر بسنے والے  لوگ اور وسائل شامل تھے۔   تاہم  نہ تو یہ ساری رقم مہاراجہ نے خود ادا کی تھی اور نہ ہی وہ ساری ریاست کی زمین خود کاشت کر سکتا تھا ۔ اس لیے اس نے زمینوں کا ایک بڑا حصہ ان  جاگیرداروں کے پاس رہنے دیا جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ادا کی جانے والی رقم میں حصہ ڈالا تھا۔   اس عہد کی تاریخ لکھنے والے اکثر مورخ   جانے یا ان جانے میں  یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ ان  جاگیرداروں  میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی ۔

تاہم یہ بھی سچ ہے کہ   ہندو اور سکھ جاگیردار زیادہ تھے اور ان کو مزید    جاگیریں عطا کی گئیں  ۔ لیکن غور کریں تو یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ  یہ اس لیے نہیں دی گئیں کہ وہ ہندو اور سکھ تھے بلکہ اس لیے کہ وہ پہلے سے جانے کتنی نسلوں سے جاگیردار چلے آ رہے تھے ۔ وہ  جاگیر کی حیثیت سے مہاراجہ کے لیے اپنا کام بہتر طور پر کر سکتے تھے۔ان کے پاس جاگیرداری کا تجربہ تھا۔   ان  کا  کام یہ تھا کہ وہ ان زمینوں کو کاشت کروا کر  پیداوار کا کچھ حصہ خود رکھیں اور باقی  مہاراجہ سرکار کو ادا  کریں۔ جاگیردار مسلمان ہوں یا غیر مسلم ان کو زمینوں کی کاشت کے لیے کسانوں کی ضرورت تھی۔ کسانوں کی بہت بڑی اکثریت اس عہد تک  مسلمانوں پر مشتمل ہو چکی تھی   اس لیے اکثر مسلمان اور غیر مسلم جاگیرداروں کی زمینوں پر کاشتکاری مسلمان کسان ہی کرتے تھے۔ کچھ مورخین جو  ایک بار  پھر جانے یا ان جانے میں  ریاست جموں کشمیر اور اس کی تشکیل سے پہلے اس کے خطوں خاص طور سے وادی کشمیر کی تاریخ کا آغاز  چودھویں صدی میں  یہاں اسلام کا غلبے کو ہی سمجھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ   امیر جاگیرداروں میں مسلمانوں کی شرح کم اور غریب کسانوں میں مسلمانوں کی شرح اتنی زیادہ کیوں تھی وہ بھول جاتے ہیں کہ  مسلم راج سے پہلے سب ہندو تھے۔ اس سے پہلے  ایک بہت بڑی  تعدا د بُدھ اور اس سے پہلے پھر ہندو۔ بادشاہوں کے ساتھ کسانوں کے مذہب بھی بدل جاتے تھے لیکن حالات نہیں۔ کسانوں کی اکثریت اگر  ڈوگرہ ریاست میں  محنت کے باوجود غربت کی زندگی بسر  کر رہی تھی  تو رنجیت سنگھ سے پہلے ابدالی اور اس سے پہلے مغلوں اور حتیٰ کہ عظیم  اور مہربان بادشاہ زین العابدین  کے عہد میں بھی خوشحال نہیں تھی۔ غیر مساوی تقسیم اور اس کی بنیاد پر طبقات تب بھی موجود تھے ۔  اب بھی موجود ہیں۔  آزاد کشمیر میں اپنے  ارد گرد نظر دوڑائیے  ۔ یہاں بھی ، آج بھی ، اتنے وسائل کے باوجود بھی لاکھوں   انسان انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے  ہیں۔اب تو حاکم بھی مسلمان ہیں اور محکوم بھی۔ پھر ایسا کیوں ہے؟َ  ان سوال  پر نظریات والے باب میں  بحث کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ معاشرے میں نظریات اور بیانیے کیسے پیدا ہوتے  اور پروان چڑھتے ہیں۔

میرپور میں زمین کی ملکیت اور   کاشتکاری

  جہاں تک ریاست جموں کشمیر کی تشکیل کے بعد  میرپور میں زمین کی ملکیت اور   کاشتکاری کے پیداواری  عمل  کا تعلق ہے یہاں   بھی اس عمل سے  تین بڑے طبقے جو پہلے بھی موجود تھے جاری و ساری رہے۔

سب سے اوپر اصل مالک  مہاراجہ اور  مہاراجہ کا  خاندان

پھر  مہاراجہ کے مذہب  اور ذات والے ۔ یعنی برہمن

پھر مہاراجہ کی برادری ۔ یعنی  ڈوگرے  اور راجے  ( ان میں مسلمان جاگیردار بھی شامل تھے)

پھر چھوٹے زمیندار

سب سے نیچے    پیداوار کرنے والے کسان  جن میں سے کچھ مالک تھے ، کچھ کرایہ دار اور کچھ مزارع

اس سے نیچے زمینداروں اور جاگیرداروں کو مختلف خدمات فراہم کرنے والے دست کار۔ جن کو اس قبائلی اور جاگیردار سماج میں کمی  کہا جاتا تھا۔  اور کمی کا مطلب نیچ  بنا ہوا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ کام کرنا بہت ہی مشکل تھا اور کوئی خوشی سے نہیں کرتا تھا۔ بلکہ مجبوری سے کرتا تھا۔ چھوٹے زمینداروں اور کسانوں کو اگرچہ ایسا  کہا نہیں جاتا تھا   لیکن سلوک ان کے ساتھ بھی وہی کیا جاتا تھا۔ یعنی جن لوگوں کی محنت پر سماج کھڑا تھا اور جن کی محنت سے  سب کے لیے روزی پیدا  ہوتی تھی وہی اس سماج کے سب سے دبے  کچلے ہوئے اور کم عزت  طبقات  بنا دیے گے تھے۔

عز ت ، حیثیت اور اختیارات کا تعلق  پیداوار پر حق اور حصے سے تھا۔ پیداوار کا بڑا حصہ مہاراجہ کو ملتا تھا، پھر جاگیرداروں  کو اور باقی جو کچھ بچ جاتا تھا وہ کسان کو۔ ” دانے پھکے’ کی مقدار امارت کا پیمانہ تھا جیسے آج  روپیہ۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact