معاشرہ اور معاشرتی تبدیلی   سلسلہ وار کالم ۔۔۔۔ 5

شمس رحمان ۔ میرپور مانچسٹر

کاشتکاری کے آغاز سے 1970  تک میرپوری معاشرے میں پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ زمین ہی تھی ۔ اور یہ پیداوار کاشت کاری کے ذریعے حاصل کی جاتی تھی۔ تاہم زمانہ قدیم میں جائیں تو یہاں بھی  اناج خود اگانا سیکھنے سے پہلے  روزی  شکار کے ذریعے ہی حاصل کی جاتی تھی۔  جانوروں، پرندوں اور مچھلیوں کے شکار  کی شکل میں شکاری عہد کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔ 1960 کے آخر اور 1970 کے  شروع میں میری ہوش تک زمین سے روزی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ کاشتکاری  ہی تھا۔ روزی روٹی پیدا کرنے کے عمل سے ہی  بہت سے سماجی و سیاسی اور ثقافتی  رشتے اور سرگرمیاں جڑی ہوئی تھیں  ۔ سب کی جڑیں زمین میں اتری ہوئی تھیں۔

کاشتکاری کے علاوہ دیگر پیشے جن کے ذریعے روزی کمائی جاتی تھی ان میں لکڑیاں کاٹنا، مال مویشی پالنا اور دودھ دہی  تیار کرنا،  سبزیاں اگانا،  کپڑا بُننا و سینا،    برتن اور جوتے بنانا، بال کاٹنا، تیل نکالنا، مکان بنانا، لکڑی کے در دروازے بنانا ، لوہے کے ہتھیار وغیرہ بنانا ، مچھلیاں پالنا،  مردہ جانوروں کو ٹھکانے لگانا  وغیرہ شامل تھے۔ لیکن ان سب پیشوں کے بدلے میں جو اناج ملتا تھا وہ زمین سے پیدا ہوتا تھا۔ اس لیے روزی کا  بنیادی زریعہ زمین ہی تھا۔ قریب سے دیکھ کر  غور کریں تو یہ سب پیشے تاریخ کے مختلف ادروار میں  زمین کے ساتھ پیداواری رشتوں سے ہی پیدا ہوئے تھے۔ یہ درحقیقت کاشتکاری سماج  کے مختلف ادارے تھے  جن پر قبائلی سماج کے جاگیرداری کے طرف آتے آتے  ‘ سماجی رنگ’ بھی چڑھ گیا اور ان کے سماجی حیثیتیں  بھی جُڑ گئیں۔

 جس طرح  کاشت کی جانے والی زمین کے مالکان کو زمیندار اور کاشت کرنے والوں کو کاشت کار  اور   کسان کہا جاتا تھا اسی طرح دوسرے کاموں  سے روزی حاصل کرنے والوں کے بھی مختلف شناختیں / پہچانیں تھیں۔   جیسے گجر، بکروال، کسبی ( کاسوی۔ جولاہے)  ملیار ( آرائیں) ، کمہار، موچی، نائی، درزی، نائی، تیلی، لوہار ، مستری، ترکھان، چمیار  ، مچھیرے وغیرہ وغیرہ۔ (ممکن ہے کوٹلی و بھمبر میں مزید ہیشے بھی ہوتے ہوئے ہوں  جن کا مجھے علم نہیں ۔ یہ معاشرے کی تصویر کو سمجھنے کے لئیے مثالیں ہیں ۔ مکمل فہرست نہیں ہے)۔  جب تک  میرپور  کے کاشتکار معاشرے میں ابھی منڈی اس سطح پر نہیں پہنچی تھی جہاں نقد تجارت ہوتی ہے، اس لیے    ان  تمام ہُنر مند   کاریگروں  اور دستکاروں کو   اپنا ہنر اور محنت  اناج کے بدلے بیچنا پڑتی تھی ۔  یعنی یہ اپنی خدمات  زمیندار کو دیتے تھے اور بدلے میں اناج لیتے تھے۔ لیکن یہاں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ ایسا بالکل نہیں تھا کہ کسان صرف ہل چلاتا اور فصل اُگاتا تھا۔ بلکہ کئی زمیندار اور کسان گھرانے کئی دیگر کام بھی کرتے تھے جیسے کپڑا بُننا یا خود جوتے  یا مکان بنا لینا وغیرہ۔ اکثر زمیندار اور کسان گھرانوں میں مال مویشی بھی ہوتا تھا جن میں سے کچھ بیوپار بھی کرتے تھے وغیرہ۔ اسی طرح ہنر مند کاریگر گھروں میں سے بھی کچھ کے پاس اپنی  زمین ہوتی تھی   یا کسی دوسرے کی کاشت کرتے تھے یا مال مویشی چرا لاتے تھے یا مال برداری وغیرہ کر لیتے تھے۔ تاہم شناخت اس کام اور پیشے سے بنتی تھی جو ان کی روزی کا بڑا ذریعہ تھا۔ یا پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب  پیشے کی پہچان ‘برادری’  کی شکل اختیار کر گئی تو پھر روزی کا ذریعہ بدل جانے کے باوجود پہچان وہی رہی ۔

اس کے علاوہ  تفریحی  سے متعلقہ پیشے بھی تھے۔  جن کو مقامی زبان میں ‘ دل پشوری’  بھی کہتے تھے۔ اس کے لیے  مختلف ڈھول باجے ( ساز)  استعمال ہوتے تھے  ۔ میں نے جو خود یکھے اور سُنے ان میں ڈھول، ڈھولکی، طبلہ، ہارمونیم، ستار،  اک تارا، توتنی/ شہنائی، بانسری اور جوڑی وغیرہ شامل ہیں۔ اس پیشے سے وابستہ فن کاروں کو ‘ بازی گر’  ( باجی گر) کہا جاتا تھا۔

موجود شہادتوں کے مطابق میرپور شہر اور گردو نواح  میں آج سے کم از کم دو ہزار سال پہلے شہر  بن چکے تھے جہاں تجارتی منڈیاں بھی موجود تھیں اور جہاں تجارتی سرگرمیاں غالب تھیں۔ سنتالیس سے پہلے   بھمبر کوٹلی و ڈڈیال بھی شہر تھے جن کے بارے میں مجھے زیادہ علم نہیں ہے ( ان شہروں میں موجود سماجی علوم و تاریخی مادیت سے دلچپسی رکھنے والے دوست و اہل علم لکھیں)  ۔ تاہم میرپور شہر  جو میرے گاؤں موڑا لوہاراں سے کوئی چار پانچ میل مغرب کی طرف تھا ، اس کی خود میری اپنی یاد تو صرف ایک  ہی ہے ‘  بوڑھ کے  درخت  سے لٹکتے چمگادڑ’ جنہیں ہم ‘ کھٹکر’ کہتے تھے۔ البتہ بزرگوں سے اور خاص طور سے انگلینڈ میں سب سے پہلے  کچھ رشتہ دار بزرگوں اور پھر  طارق عاجز مرحوم اور بعد ازاں  پروفیسر نذیر تبسم،  عبدالجبار بٹ، یونس تریابی، علی عدالت، پروفیسر نذیر نازش ، لالہ ارشد، منصف داد ایڈوکیٹ اور پروفیسر  محمد یعقوب وغیرہ  جیسے دوستوں سے حاصل ہونے والی معلومات اور اب پروفیسر صلاح الدین،  محترم مسکین عاصی  ، محترم ارشد،  مشیر تعلیم چوہدری یوسف،  سابق وزیر چوہدری یوسف مرحوم،  کی کتابوں سے جو معلومات ملیں اور دنیا میں شہروں کی  تشکیل اور معاشرے کے معاشی بہاؤ کو بہانے کے لیے کی جانے والی تجارتی  سرگرمیوں  کی جو تھوڑی بہت سمجھ ہے اس کی وجہ سے میرپور  شہر کی زیادہ واضح تصویر  دماغ میں موجود ہے۔  [1]

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس میرپور جس کو ہم  پرانا شہر کہتے ہیں  اس سے ہزاروں سال قبل اس علاقے کا مرکزی شہر چومکھ ( پرانا چومکھ)  شہر تھا  جو کہ موجود شہادتوں اور شوائد کے مطابق موجودہ  ‘ اوناع’  گاؤں   سے شمال کی طرف واقع تھا۔ پہلی بار یہ بات مجھے راچڈیل شہر میں رہنے والے شاید راجدھانی گاؤں سے تعلق رکھنے والے محترم  محمد افضل صاحب نے  ‘کشمیریوں کی زندگیاں’ ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں ایک انٹرویو میں بتائی تھی۔ بقول ان کے ہزاروں سال قبل یہاں شہر تھا  جو دریائے جہلم کے رخ بدلنے کی وجہ سے  دریا برد  ہو گیا تھا۔

   2023 کے شروع میں اپنے ایک   گھریلو دوست چوہدری محمد  ارشد    ( لالہ ارشد)   جن کا تعلق بھمبر سے ہے اور  1969 کے آخر سے  اولڈہم میں آباد ہیں  اور تاریخ اور  آثار قدیمہ میں خاصی دلچسپی  رکھتے ہیں ان کے ساتھ اوناع جانا ہوا ۔ وہاں کے  ایک مقامی بزرگ نے بھی بتایا کہ  قدیم زمانوں میں یہاں ایک بڑا شہر ہوتا تھا جو یہاں یعنی اوناع سے لے کر نیچے جنوب کی طرف  پرانے میرپور تک پھیلا ہوا تھا اور مکان اتنے گنجان تھے کہ چھتوں پر سے بغیر نیچے اترے   کئی میل جنوب کی طرف سفر کیا جا سکتا تھا۔

یہ بات یا دعویٰ  میں نے پہلے بھی سن رکھا تھا۔ 1970 کی دہائی میں     ہائی سکول میں   تھے تو  میں اور میرے ہم عمر ( ہانی)  لڑکے اکثر گرمیوں کی دوپہروں کو جب سارا عالم گرمی سے نڈھال گھروں کے اندر دبکا ہواتا تھا،    گھروں سے نکل کر ارد گرد  کے میدانوں (مہیروں) اور ٹوٹی زمینوں (پُڑہوں)  میں  مختلف مہم جوئیوں پر  نکل جایا کرتے تھے ۔  اس دوران عجیب و غریب غیر متوقع تجربات سے گذرتے اور ‘ دریافتیں’  کرتے  تھے۔ اس عمر کی  ایک دریافت    موجودہ  کال گڑھ  بازار  ( چوک راج محمد شہید) سے پرانے شہر کی طرف جانے والی  سڑک تھی  جو کھود کر بنائی گئی تھی اس لیے اس کے کنارے کافی اونچے ہیں ۔  اسی لیے اس کو ‘ ڈونگی گہیل ‘  بھی کہا جاتا تھا۔ اس  پر اوچھی لس سے پہلے موڑا  راٹھیاں اور موڑا لوہاراں کے درمیان  مشرقی  کناروں  کے اندر ہڈیاں نظر آتی  تھیں۔ عجیب عمر تھی۔  دل میں  ڈر،  نے ابھی گھر نہیں کیا تھا۔ ہم نے نہ صرف ان ہڈیوں  کو ٹٹولا بلکہ کچھ  ٹٹولتے ٹٹولتے توڑ بھی  ڈالیں ۔

بعد میں دادا جی سے پوچھا تو  انہوں نے بتایا کہ  ان میں زیادہ تر انسانی ہڈیاں ہیں۔ شاید پرانی  بستیوں کا  کوئی قبرستان ہوا ہو گا۔  انہوں نے ہی بتایا کہ یہاں کسی زمانے میں بہت گھنی آبادیاں ہوا کرتی تھیں ۔ اور وہی چھتوں والی بات بتائی ، لیکن  یوں  کہ  بکری چھتوں پر سے ہوتے ہوتے بھمبر تک جا سکتی تھی۔ ان باتوں کی  تاریخی حقیقت جو بھی ہو ان سے اتنا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں قدیم آبادیاں تھیں۔ اور اوناع  سے موجودہ دریا کی طرف کناروں پر نیچے تک برتنوں کے ٹکڑے (پھیکڑاں)   اور پتھروں کے اوزار قدیم زمانوں کا پتہ دیتے ہیں۔ کاش ہماری کوئی حکومت ہوتی تو  تاریخ اور آثات قدیمہ کے عالم ان آثار کی مدد سے ہماری قدیم تاریخ کے دریچے وا ہ کرتے۔

نئے  میرپور  (جو کہ اب پرانا کہلاتا ہے)  کے بارے میں  ہمیں معلوم ہے کہ اس کے ارد گرد  کوئی چار سو  گاؤں آباد تھے  جن کا شہر کے ساتھ   روزانہ کا تعلق تھا تجارتی رشتوں کے ذریعے۔ گاؤں میں وہ زمیندار جن کی فصل ( کوئی بھی فصل)   ضرورت سے زیادہ ہوتی تھی  وہ زاہد  فصل شہر میں بیچتے تھے ۔ تاریخی طور پر دیکھیں تو شہروں کے وجود میں آنے کا عمل  ہی  ان تجارتی سرگرمیوں کے ذریعے  شروع  ہوا جو ضرورت سے زاہد پیداوار حاصل کرسکنے کے آلات اور قابلیت آ جانے کے نتیجے میں شروع ہوئیں۔

زمیندار اور کاریگروں   و  دستکاروں کے درمیان  ”سیپ”  کا رشتہ تھا جس کے ذریعے خوراک اور  خدمات کی تقسیم ہوتی تھی۔ اس پر تفصیلات  آگے چل کر ۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ گاؤں کے کاریگر،  دستکار اور ہنر مند  وں میں سے بھی جو  زمیندار اور اپنی ضرورت یا گاؤں محلے والوں کی ضروریات سے زائد  تیار کر سکتے  تھے  وہ شہر میں آ کر بیچ دیتے تھے۔ لہذا میرپور شہر کا منظر کچھ ایسا ہوتا تھا کہ صبح  مختلف گاؤں سے لوگ مختلف  چیزیں ( اجناس) لے کر آتے جیسے لکڑیاں، مرغ، انڈے،  بیل بکریاں ، دودھ، مکھن، گھی اور بھاریاں ( جھاڑو) وغیرہ لے کر آتے تھے اور شام کو نمک۔ مرچ، مصالحے ،  کوئی ہتھیار ، اوزار  اور شاید کچھ لوگ پھل فروٹ اور کپڑے بھی خریدتے ہوں گے۔  وغیرہ وغیرہ ۔ یوں شہر گاؤں کا بڑا گہرا رشتہ تھا۔ شہر گاؤں کے سر پر چلتا تھا اور گاؤں والوں کو بھی شہر کی اشیاء کی ضرورت رہتی تھی۔

 خلاصہ اس پوری بات کا یہ ہے کہ 1947  سے پہلے قدیم زمانوں سے میرپور میں   روزی کا بڑا ذریعہ زمین تھی اور روزی کاشتکاری سے حاصل کی جاتی تھی۔ سماجی ، سیاسی و ثقافتی ڈھانچہ ، رشتے داریاں ، براہ داریاں ، رسم رواج، اقدار اور کھیل تماشے بھی   زمین سے پیداوار کرنے کی پیداواری سرگرمیوں سے ہی  اُگے ہوئے  تھے۔ تاریخ کے ایک عہد میں جب  زمینوں سے اضافی پیداوار ہونے لگی تو  اس کی خریدوفروخت کے  عمل سے شہروں کی پیدائش کا عمل شروع ہوا ۔  شہر تجارتی سرگرمیوں کا مرکز تھے ۔  شہر اور گاؤں دونوں ایک دوسرے کی ضرورت تھے ۔ دونوں ایک دوسرے کو کھلاتے تھے۔

اگلے حصے میں آئیے دیکھتے ہیں کہ آلات پیداوار کیا ہوتے ہیں اور میرپور میں کاشتکاری   اور روزی کے دیگر ذرائع کے لیے کیا آلات استعمال ہوتے تھے۔

آلات پیداوار کیا تھے؟

اوپر لکھا ہے کہ ابھی حال ہی تک زمین ہی روزی کا سب سے بڑا ذریعہ تھی ۔ زمین سے  روزی  حاصل کرنے کی  ابتدائی ترین شکل شکار ، ماہی گیری اور  گردوپیش سے خود رو یعنی خود سے اُگے ہوئے  پھل  سبزیاں  اکٹھی کرنا اور کھانا تھا۔ اس کے بعد خود اناج اگانا یعنی کاشت کاری سیکھی اور  پھر صنعت کاری  ۔

اس حصے میں ہم یہ دیکھیں گے کہ آلات پیداوار کیا تھے؟    اپنے ارد گرد موجود روزی حاصل کرنے کے لیے انسان کیا آلات استعمال کرتا تھا؟

معلوم علم کے مطابق  قدیم ترین ارتقائی نشوونما جس نے  انسان کو چوپائیوں سے الگ سفر پر ڈال دیا  وہ دو پاؤں پر کھڑا ہونے   اور ہاتھوں کے استعمال کی صلاحیت اور قابلیت تھی۔   اگر تخلیق کے مذہبی عقیدے کی روشنی میں دیکھیں تو بھی شروع میں شاید انسان صرف ہاتھ  پاؤں سے جو  کچھ حاصل کر سکتا تھا وہی کر پاتا تھا۔انسان کے اولین ترین دور میں  ہاتھ پاؤں ہی ہتھیار تھے اور وہی  اوزار۔ ارد گرد موجود ‘روزی’ کو ہاتھوں سے ہی اکٹھا کرتا اور استعمال میں لاتا تھا۔   تاہم بعد ازاں ” کوشش اور  غلطی”  (  ٹرائل اینڈ ایرر)  سے سیکھنے  کے عمل کے زریعے   پتھر اور لکڑی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا سیکھ گیا۔  یعنی پتھر اور لکڑی کے   سادہ ترین ہتھیار /اوزار وہ اولین ترین ہتھیار/اوزار تھے جو موجود تو  قدرت کی طرف سے تھے لیکن ان کے استعمال میں انسان کی سوچ اور عمل کو دخل تھا۔

2011 میں کینیا کی ایک جھیل ‘ ترکانہ’ کے کنارے سے   دریافت ہونے والے قدیم آثار سے ماہرین نے جو نتائج اخذ کیے  ان کے مطابق   اولین ترین ہتھیار / اوزار موجود انسان سے کئی ملین سال پہلے کرہ ارض پر بسنے  والے ‘انسان’ نے ایجاد کیے تھے ۔ جو  پتھرکے ٹکڑے تھے۔   کوئی ساڑھے تین ملین سال   پرانی بات ہے یہ[2]۔ پھر بتدریج جوں جوں وقت گذرتا گیا نئے موسمی اور جغرافیائی حالات میں نئے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں موجود آلات اور اوزاروں میں بہتری  اور نئے آلات اور اوزاروں کی ایجادات  کا عمل جاری و ساری رہا جو آج بھی جاری و  ساری ہے۔  آلات اور اوزار بنانے کا یہ عمل جو ایک پتھر یا لکڑی کے ٹکڑے سے شروع ہوا تھا آج پیچیدہ ترین ، حیران کن  اور ناقابل یقین  آلات اور اوزاروں  کی دنیا میں جاری ہےجیسے خود کار ہتھیار اور اوزار  ۔

میرپور شہر   47 سے پہلے

میرپور تو شاید اتنا قدیم نام نہیں ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ  ایک ہندو  سادھو   بودھ پوری اور ایک مسلمان    صوفی  میراں میر کے  ناموں کے ملاپ سے نکلا ہے ۔ ایک دوسرے نظریے کے مطابق  میراں میر فقیر نہیں بلکہ حکمران تھا اس علاقے کا۔وہ میراں شاہ گکھر تھا۔  تاہم شہر جو میرپور سے پہلے چومکھ کے نام سے جانا جاتا تھا اس کی اور درحقیقت میرپور  ڈویژن کی تاریخ  کے ڈانڈے پتھر کے عہد تک جاتے ہیں۔ اس کے شواہد چتر پڑی  اور کوٹلی اور بھمبر وغیرہ کے علاقوں میں بکھرے پڑے ہیں اور اگرچہ ہمارے ہاں دیگر سماجی علوم کی طرح آثار قدیمہ کا علم اور محکمہ بھی بہت سے مسائل کا شکار ہے تاہم کچھ اہم کام اس سلسلے میں ہو رہے ہیں  جن سے قدیم زمانوں کے بارے میں علم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ (تفصیلات کے لیے  پروفیسر صلاح الدین کی ” تاریخ میرپور” اور   آزاد کشمیر کی معروف اور سنجیدہ  ترین ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر رخسانہ خان  کا کام دیکھیں۔ ڈاکٹر محسن شکیل اور سعید اسد نے بھی اس پر کچھ کام کیا ہے)۔   میرپور اور آزاد کشمیر پر  برطانوی کشمیری رئیس  حیدر  کے بصیرت افروز مضامین پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر جائیں۔ [3]

قدیم زمانے سے 1947 میں میرپور کی تقسیم تک روزی روٹی پیدا کرنے کے  آلات نے  ظاہر ہے ایک ارتقائی سفر کیا اور قدیم زمانے کے آلات کے مقابلے میں 1947 میں استعمال ہونے والے آلات بہت بہتر تھے ۔ تاہم ان میں بہتری کا سفر بہت ہی سست  تھا یعنی کئی نسلیں ایک ہی قسم کے ہتھیار تھوڑی بہت بہتری کے ساتھ استعمال  کرتے چلے آرہے تھے۔

جیسا کہ پہلے لکھا کہ انسان کی ابتدائی ترین ضرورت  جس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں تھا وہ کھانا پینا تھا ۔ یعنی غذا۔ خوراک۔  شروع میں وہ  قدرتی طور پر موجود  خوراک ہی کھاتا رہا ۔ تاہم بعد میں خود پیدا کرنا شروع کر دی۔  یہ عام تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ انسان کا  ابتدائی ترین  اوزار  ‘پتھر’   تھا جو   غذا حاصل کرنے   کے لیے  ایجاد ہوا  یا دوسرے جانوروں یا خطرات سے دفاع یا جارحیت کے عمل کے دوران  ۔  ایک بار سیکھ جانے کے بعد اس کا استعمال مختلف مقاصد کے لیے ہونے لگا ۔ ابتدائی ترین کٹا ہوا پتھر جس کے تیز اور نوکیلے کنارے تھے وہ کاٹنے،  تراشنے اور رگڑنے  کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ( اب بھی ہو سکتا ہے۔ شاید دنیا کہ کچھ حصوں میں اب بھی استعمال ہوتا ہو) ۔ درحقیقت بچپن میں جب ہم گاؤں کے ارد گرد  کے علاقوں میں مہم جوئیاں کرتے تھے تو پتھر اور لکڑی کے ہتھیار اور اوزار بنانا اور پرندوں اور ‘شریف’ جانورو ں جیسے خرگوش  کا  شکار کرنا  ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہوتا تھا۔ اگرچہ ہم جانے کتنے ہزار سالوں سے کاشتکاری سماج  میں رہتے تھے لیکن گاؤں سے زرا پرے ایک دم سے شکاری عہد میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ مطلب شکاری سماج ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔

شروع میں  کاشتکاری  بھی پتھر، لکڑی اور  ہاتھوں سے ہوتی تھی۔  کوئی پانچ ہزار سال قبل مسیح کے زمانے میں  دو شاخوں والی لکڑی ( فورک / دو انگلا/ سانگا)   زمین کھود کر اس میں بیج ڈالنے کے لیے استعمال میں آیا۔ پھر ہاتھوں سے کھینچی جانے والی ہل ایجاد ہوئی اور کوئی  چار ہزار سال پہلے بیلوں کو سدھا کر کھیتی باڑی کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔  معلوم علم کے مطابق اس کا استعمال سب سے پہلے ادھر  ہمارے پڑوس انڈس ویلی ( وادی سندھ ) اور  ملحقہ علاقوں میں ہی ہوا تھا۔   کوئی پندرہ سو سال قبل مسیح بیل جوت کر  لکڑی کی ہل  چلانے کا دور آیا۔ اسی عرصے میں پتھر کی درانتیاں بنا  کر استعمال ہونے لگیں ۔ بعد ازاں تانبے کی دریافت  کے بعد تانبے کی درانتیاں  اور ہل وغیرہ بننے لگے۔ [4]

لوہے کی پہلی ہل چین میں  کوئی پانچ سو سال قبل مسیح میں استعمال ہونے لگی تھی[i]۔جس سے پیداوار میں بے پناہ اضافہ  ممکن ہو گیا۔ اب فصل کے گرد باڑ لگانے، پالتو جانوروں کو چارہ ڈالنے اورکاشت کاری سے متعلقہ دیگر کئی ایک کاموں کے لیے بتدریج کلہاڑی، پھاوڑا، بیلچا اور بہت سے دوسرے اوزار  ایجاد ہوتے گئے۔

 روٹی روزی کے علاوہ موسمی شدت سے بچنے کے لیے  لباس اور محفوظ رہائش  بھی انسان کی بنیادی ضروریات تھیں۔ ان کے لیے بھی مختلف  آلات اور اوزار ضرورت کے مطابق مختلف ادوار میں  استعمال میں لائے گئے۔ مثال کے طور پر  لباس کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار سال قبل انسان نے لباس پہننا شروع کیا۔ ابتدائی لباس جانوروں کی کھالیں تھیں  جو  اوڑھ لی جاتیں اور پھر  مختلف ادوار میں بتدریج ان سے نرم اور ملائم لباس بنانے کے لیے مختلف آلات اور اوزار  تخلیق ہوئے۔  کھانے پینے اور  پہننے  اوڑھنے کے علاوہ محفوظ رہائش بھی انسانی بقاء کے لیے بنیادی اور  اولین ضرورتوں میں آتی تھی۔  تعمیرات کے لیے بھی اوزار سادہ سے پیچیدہ کی طرف ارتقاء پذیر رہے۔

اگرچہ یہ ایجادات یعنی ہل وغیرہ پہلے    ایشیاء اور مشرق وسطیٰ  کے خطوں میں ہوئیں اور بعد میں یورپ پہنچیں لیکن  آگے چل کر ان کو  ہاتھ سے چلانے کی بجائے پیداواری اوازاروں اور ہتھیاروں کو مشینی ہتھیار بنانے کے مرحلے تک یورپ کے ایجاد کار لے کر گئے۔

یورپ کو جو عمل باقی دنیا سے آگے لے گیا   وہ  نیچے بیان کی گئی   چند مشینی ایجادات سے شروع ہوا تھا۔  کیسے آلات و اوزار پیداوار  میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں  وہ اس مثال سے سمجھا جا  سکتا ہے۔ ان کے معاشرتی و سیاسی اثرات کے لیے الگ باب میں بحث کی گئی ہے۔

 اہم  ایجادات     یہ تھیں :

‘سٹیم انجن’  یعنی بھاپ سے چلنے والا انجن۔

‘سپننگ جینی’   یعنی کئی تکلوں والا چرخہ ۔

‘کاٹن جن’ یعنی روئی پنجنے والی مشین ۔

ٹیلی گراف یعنی تار

 ہمارے ہاں ابھی  بات وہاں تک   نہیں پہنچی  لیکن پیداواری آلات کی دنیا میں  ان ایجادات  اور نو آبادیاتی نظام کی وجہ سے ہمارے لوگ وہاں اور وہاں  کی تبدیلیاں ہمارے ہاں پہنچ گئیں۔  ان تبدیلیوں نے  میرپور کے صدیوں میں اترے  مادی حالات اور اس پر کھڑے ڈھانچے کو”  تہ پونڈ”  کر ڈالا ۔ مکمل بدل ڈالا۔

اگلی قسط ۔۔۔ پیداواری قوتیں  اور پیداواری تعلقات

حوالہ جات

[i] Robert Greenberger, The Technology of Ancient China (New York: Rosen Publishing Group, Inc., 2006), pp. 11–12.

[i]https://www.bbc.co.uk/news/science-environment-32804177

[i]https://indusrivervalleyinformation.weebly.com/inventions-for-agriculture.html

[i]ہمارے سماجی اور سیاسی ماحول  کی وجہ سے ایک بار پھر واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرپور شہر پر توجہ مرکوز کر کے میں بھمبر اور کوٹلی  کی اہمیت اور حیثیت کو  گھٹانا نہیں چاہتا بلکہ معلومات کی کمی بنیادی وجہ ہے۔ یعنی میری  علمی کمزوری اس کی وجہ ہے نہ  کہ کسی قسم کا تعصب

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact