تاریخی مادیت نظریے کی روشنی میں موجودہ میرپوری معاشرے کا  عمومی تعارفی  تجزیہ

معاشرہ اور معاشرتی تبدیلی ۔۔ سلسلہ وار کالم۔ تحریر شمس رحمان 

تعارف 

تاریخی مادیت کا ایک اہم دعویٰ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں  کوئی بھی ادارہ، قانون، پالیسی اور عمل درآمد  کا سلسلہ غرض کوئی بھی عمل ایک دم  کہیں سے وجود میں نہیں آجاتا۔ اس کا ایک مادی  پس منظر  اور تناظر ہوتا ہے۔  یعنی اس کی ایک تاریخ ہوتی ہے اور مادی اسباب  اور وجوہات ہوتی ہیں۔  اس مادی پس منظر اور تناظر کو سمجھ کر نہ صرف ان  کے ماضی بلکہ حال کے رحجانات  کو بھی سمجھا جاسکتا ہے اور اس سمجھ کے ساتھ مستقبل میں بہتر رخ دیا جا سکتا ہے۔ میرپور اور یا آزاد کشمیر اس سے مستثنیٰ نہیں ہے یعنی یہاں کے سیاسی، سماجی، سماجی اور ثقافتی اداروں  پر بھی  یہ اصول لاگو ہوتا ہے۔ سمجھنے سمجھانے کی غرض سے اس کو اس طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح جب آپ طبی معائنے کے لیے جاتے ہیں اور معائنے کے دوران کسی عضو میں کوئی نقص یا بیماری نظر آئے تو ڈاکٹر اس کی تاریخ کی تھوڑی چھان بین کرتے ہیں کیونکہ اس سے   ممکنہ وجوہات و اسباب  سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ اس کے بعد موزوں علاج کا فیصلہ کیا جاتا ہے ( طبی تقاضوں کے مطابق ایسا ہونا چاہیے۔ اب اگرہمارے ہاں  صحت کے کسی ادارے میں ایسا  نہیں ہوتا تو یہ اس لیے ہے کہ شاید ادارہ موجود نہیں یا   خود ادارہ بیمار ہے) ۔

انسانی تاریخ کی آج تک کی موجود معلومات کے مطابق انسانی معاشرہ سادہ ترین   معاشرتی تعلقات سے پیچیدہ ترین تعلقات کی  طرف  آیا ہے۔ جو سرگرمی اس سفر میں مرکز ومحور رہی ہے    ، ملین سالوں  کے اس سفر کے دوران ، وہ ہے رزق  پیدا کرنا۔  رزق   کی  پیداوار  کرنا۔پیداوار کو بہتر بنانا  اور بہتر بنانے کے لیے آلات پیداوار  اور پیداواری قوتوں میں اپنی استطاعت  اور دستیاب وسائل کے مطابق بہتری لانا ۔  یعنی پیداواری سرگرمیوں کو انسانی تاریخ میں مرکزی اور بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ تاریخ کا پہیہ  پیداواری سرگرمیاں دھکیلتی رہی ہیں ۔ آج بھی دھکیل رہی ہیں۔

 سوائے شروع کے عرصے کے جب انسان خود کچھ پیدا نہیں کر سکتا تھا اور قدرت کی طرف سے اپنے ارد گرد موجود اشیاء سے ہی پیٹ بھرتا تھا۔ س کے بعد کی ساری انسانی تاریخ پیداوار بڑھانے  کی تاریخ ہے۔ خود پیدا وار کر کے یا دوسروں کی پیداوار چھین کر ۔

  کاشتکاری سیکھنے کے بعد پیداواری عمل  کے مختلف  حصوں یا اجزاء یعنی   پیداوار  اور اس کی تنظیم و تقسیم کی سرگرمیوں کے تسلسل اور ترتیب میں بہتری آتی گئی۔ سرگرمیوں کے اسی تسلسل اور ترتیب سے ادارے وجود میں آئے اور ارتقاء پذیر رہے ۔     معاشرے  کا ڈھانچہ یعنی معاشرتی ڈھانچہ ان ہی  سرگرمیوں اور اداروں سے مل کر بنا ہوتا ہے۔

  اصل میں تو  میرپور / آزاد کشمیر کے ہر ایک ادارے کا الگ الگ پس منظر بیان کر کے اس کے تاریخی تناظر میں اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ان کی موجودہ شکل کی اصلیت سامنے آ سکے ۔ تاہم میرے پاس اتنی معلومات نہیں ہیں اور نہ وقت۔ اس لیے ایک عمومی تعارفی تجزیہ پیش کر رہا ہوں ۔ اگر اس میں کچھ جان ہوئی اور یہ حالات سے متعلقہ اور  حالات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوا تو مجھے یقین ہے کہ کچھ اور مقامی   معاشرتی علوم کا علم رکھنے والے ایک ایک ادارے کا تجزیہ کر کے عوام کے سامنے رکھیں گے۔

نیا معاشرتی ڈھانچہ

اس  دوسرے حصے میں   میرپور کے اس معاشرتی ڈھانچے کی وضاحت کی گئی ہے جس نے  پرانے معاشرے کی جگہ لی۔ سب سے پہلے اس عمل کا  تاریخی پس منظر بیان کیا ہے جس نے   زرعی اور کاشتکاری کی معیشت پر قائم پرانے معاشرے کو توڑنے اور نیا معاشرہ بنانے میں  بنیادی اور کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یعنی میرپور سے برطانیہ ہجرت اور اس کے اثرات۔ اس کے بعد نئی معاشی بنیادوں کے خدوخال اور نئے معاشرے میں پیداوار کے ذرائع، ٓلات، پیداواری قوتوں اور پیداواری تعلقات  کا خاکہ پیش کیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ سنتالیس کے بعد  معاشرتی تبدیلی میں حصہ ڈالنے والے دیگر عوامل کے کردار اور اثرات کو بھی سمنے لانے کی کوشش کی گئی ہے  ۔

ولایت کی دریافت اور میرپور ی معاشرتی ڈھانچے میں تبدیلی

میرپوری معاشرتی ڈھانچے  میں تبدیلی   کا اصل عمل کہیں  ساٹھ  1960 کی دہائی میں جا کر شروع ہوا۔

لیکن میرپوری معاشرے کی جڑ بنیاد بدلنے کا یہ عمل میرپور میں پیداواری قوتوں کی ترقی کے نتیجے میں نہیں شروع ہوا تھا۔ نہ ہی یہ میرپور سے مہاراجہ راج کے خاتمے کی وجہ سے شروع ہوا تھا۔ اسلام کے نام پر آزادی کا نعرہ لگا کر حکمران بننے  والے   عام آدمی کو ان زنجیروں سے  آزادی نہیں دے سکے تھے جن میں اس کی روزمرہ زندگی جھکڑی ہوئی تھی۔ صدیوں سے قائم ‘غیر مسلم’ نظام کو تبدیل نہیں کر سکے تھے۔ ہاں جو غیر مسلموں کی جگہ چھین کر وہاں خود بیٹھ گئے تھے وہ آزاد ہو چکے تھے۔ وہ کشمیر کے ان ” آزاد”  علاقوں میں صدیوں سے جاری  استحصال  کو جاری و ساری  رکھنے اور یہاں کے وسائل کے ساتھ  پاکستانی حکمرانوں  کے ساتھ مل کر  بد سلوکی کرنے میں آزاد تھے۔

 میرپور میں  معاشرتی ڈھانچے کی جڑ بنیاد میں تبدیلی کا  عمل  میرپور کے مزدوروں کے پیداواری قوتوں کے پاس جانے   کے نتیجے میں شروع ہوا  تھا۔   یہ  پیداواری قوتیں ہزاروں میل دور  سابق نو آبادیاتی آقاؤں کے دیس برطانیہ  میں ترقی پا رہی تھیں۔

  میرپوری محنت کشوں کے برطانیہ پہنچنے کی کہانی کے بارے میں عام طور  پر کہا جاتا ہے کہ یہ بیسویں صدی یعنی 1900 کے اوائل میں شروع ہوئی۔ یہ بات اس حد تک درست ہے کہ میرپوری محنت کشوں نے  اسی عرصے میں ولایت دریافت کیا۔ تاہم وہ عمل جس کے نتیجے میں یا جس کی وجہ سے میرپور اور برطانیہ کا یہ تعلق قائم ہوا وہ تین صدیاں قبل 31 دسمبر 1600 کے دن شرو ع ہوا تھا۔ اس دن برطانیہ کی ملکہ الزبیتھ اول نے   اپنے ملک میں پیداواری رشتوں کے   جاگیرداری سے سرمایہ داری  اور پھر سامراجیت کی شکل اختیار  کرنے کے   پرجوش اور ہنگامہ خیز ماحول میں  دو سو انگریز تاجروں کو کرہ ارض کی   مشرقی   زمینوں ( برطانیہ ، ڈچ اور پرتگیزی بادشاہوں   کے لیے یہ ممالک نہیں زمینیں تھیں)  میں تجارت کرنے کی آجازت دی۔ ان دوسو تاجروں میں سے ایک گروپ  خود کو  ‘ گورنر اینڈ ٹریڈرز آف لنڈن ٹریڈنگ  ان ٹو دی ایسٹ انڈیز  ‘ (  مشرقی علاقوں میں تجارت کرنے والے تاجر اور  حاکم ) کہتا تھا ۔  بعد میں یہی گروپ ایسٹ انڈیا کمپنی کہلایا۔

 اس کمپنی کا پہلا  گروپ 1601 جیمز لنکاسٹر کی قیادت  میں  ‘  ایسٹ انڈیز ‘ میں آیا  اور انڈونیشیا  کے شہر  بنتام میں ایک  فیکٹری لگائی  اور واپسی پر 500 ٹن مصالحے لے کر گیا۔ لیکن وہاں  پرتگالی،  فرانسیسی اور ڈچ  کمپنیوں کا اثر رسوخ زیادہ ہونے کے باعث برطانوی  ایسٹ انڈیا کمپنی نے جنوب ایشیا کا رخ کیا۔  کمپنی کا  دوسرا جہاز 1608  میں بھارتی   گجرات کے شہر  سورت  کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوا ۔  کمپنی کے ذریعے برطانیہ میں پیداواری قوتوں کی ترقی اور صنعتی انقلاب میں  برطانوی ہند اور جموں کشمیر     کی چائے، کالی مرچ  ،  اون ، ٹیکسٹائل، نیل  اور ریشم ، زعفران  اور  پشم نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ یوں کہ ہندوستان میں تجارت کی آجازت ملنے پر  ایسٹ انڈیا کمپنی  والے  مذکورہ اشیاء خاص طور سے چائے اور کالی مرچ   ہندوستان سے سستے داموں لے کر برطانیہ میں مہنگے داموں بیچ کر منافع کماتے تھے۔ جلد ہی انہوں نے یہ اشیاء  مشرقی یورپ اور  وسط ایشیائی ریاستوں میں بھی  بیچنا شروع کر دیں۔ اس سرمائے سے  برطانیہ میں فیکٹریاں لگیں  جہاں  ہندوستان اور جموں کشمیر  سے لائی ہوئی  ریشم اور روئی سے   نت نئے کپڑے بنا کر واپس ہندوستان میں مہنگے داموں بیچے جاتے تھے۔   اس ہی عمل سے صنعتی انقلاب پروان چڑھا۔  یوں برطانیہ کے صنعتی انقلاب میں جنوب ایشیائی ممالک کے ساتھ ‘ تجارت’   کا اہم کردار تھا۔

یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی کہانی بیان کرنا مقصد نہیں ہے۔اس   کے لیے  لنک نیچے دیا گیا ہے    ۔ اس کے علاوہ بی بی سی کی اس ویب سائیٹ  پر بھی بہت مفید اور دلچسپ معلومات موجود ہیں  ۔  صرف یہ بتانا مقصود ہے  کہ میرپوری مزدوروں  کی برطانیہ ہجرت کی کہانی ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی میں صنعتی انقلاب اور برطانیہ کے  نوآبادیاتی اور سامراجی  طاقت بننے کی کہانی سے جُڑی ہوئی ہے۔

اس تاثر کا دوسرا رخ واضح کرنے کے لیے کہ یہ انگریزوں کا ان غریب مزدوروں پر احسان عظیم تھا کہ انہوں نے ان کو اپنے ملک میں آنے کی آجازت دی اور ان کی غریبی دور ہوئی ،  یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب مزدوروں کی قلت ہو گئی   اور برطانوی مزدوروں نے  مارکس کی دریافت قدر زاہد  کے زریعے   صنعتی پیداوار میں اپنے مرکزی کردار اور کلیدی حیثیت  کے شعور کے بعد   کم مزدوروی پر کام سے انکار  کر دیا    تو سرمایہ داروں نے   اپنی نوآبادیوں  سے  مزدوروں بلائے ۔  یوں درحقیقت دوسری نوآبادیوں سے آئے ہوئے مزدوروں کے ساتھ ساتھ  میرپوری مزدوروں نے کم معاوضوں پر ان ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں کام کر کے ان کو زمین بوس ہونے سے بچایا  ۔

برطانیہ میں میرپوری مزدوروں کی آبادکاری کی کہانی ذرا آگے چل کر بیان کی گئی ہے۔  یہاں میرپور سے برطانیہ ہجرت کے اسباب اور پس منظر جان لینا  مددگار ہوگا ۔  پہلے باب میں پیش کی گئی تفصیلات کی وجہ سے یہاں اس پس منظر کی تصویر زیادہ واضح ہو گی۔

میرپور سے ہجرت کے اسباب اور پس منظر 

1846 میں ریاست جموں کشمیر کی تشکیل سے پہلے  میرپور ایک راجوارہ تھا  اور یہاں ابھی معیشت قبائلی اور ابتدائی جاگیردارانہ رشتوں پر استوار تھی۔ زمین ایک تو بارانی یعنی بارش کی محتاج  تھی اور دوسرے کم تھی۔ آلات پیداوار بھی بنیادی سے تھے جس کی وجہ سے اس زمین سے جو پیداوار ہوتی تھی اس کا بڑا حصہ مقامی راجے اور ان کے بعد جاگیردار اور  زمین     مالکان یعنی زمیندار  لے جاتے تھے ۔ اس کے بعد جو حصہ بچتا تھا وہ بے زمین دستکاروں میں بانٹا جاتا تھا۔ لہذا چند گھرانوں کو چھوڑ کر باقی سب غربت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ زمین سے روزی یعنی پیداوار حاصل کرنے  یعنی کاستکاری کرنے  کے علاوہ ایک بڑی تعداد   روٹی کمانے کے لیے ارد گرد کے شہروں میں  جا کر محنت مزدوری کرتے تھے ۔  محنت کشوں کی ایک خاصی  تعداد کشتیاں بنانے کا کام کرتی تھی۔  کشتی سازی کی یہ صنعت صدیوں سے  آج کے منگلا  بند والی جگہ پر قائم چلی آ رہی تھی ۔

 اس صنعت میں کام کرنےوالے زیادہ تر مزدوروں کا تعلق میرپور کے علاقہ ڈڈیال  اور اس کے نواع سے بتایا جاتا ہے۔   مانچسٹر یونیورسٹی کے معروف  سماجی محقق  راجر بالرڈ   کے مطابق محنت کش دریائے جہلم و پونچھ میں بہہ کر آنے والی یا ارد گرد کے جنگلوں سے لکڑی  دریا کے ذریعے ٹلوں پر یہاں لاتے اور کشتیاں بنا کر نیچے جہلم جا کر بیچا کرتے تھے ۔ اس وقت تک  ابھی  گاڑیاں اور ریل گاڑیاں ایجاد نہیں ہوئی تھیں،   اس لیے دور دراز مقامات  تک مال برداری،    آمد و رفت اور رسل و رسائل کا  بڑا ذریعہ  دریا تھے۔ یہ کشتیاں جہلم سے لاہوری بندر تک مال لے جانے کے کام آتی تھیں۔ اکثر کشتیاں چلانے والے بھی ڈڈیال یا گردونواح کے ملاح  ہی ہوتے تھے۔  1867 میں جب برطانوی راج برصغیر میں پنجے گاڑھ چکا تھا  تو بری یعنی زمینی   سفر کے میدان میں دو بڑی عظیم تبدیلیاں  رونما ہوئیں۔

ریل چلنے کے نتیجے میں ریل کے ذریعے  مال برداری   میں اضافہ ہو گیا کیونکہ ریل تیز، محفوظ اور سستی پڑتی تھی۔ لہذا کشتی بانی کی صنعت  زوال پذیر ہو کر ختم ہو گئی۔

اس صنعت میں کتنے لوگ کام کرتے تھے  اور کتنے بیروز گار ہوئے اس پر معلومات دستیاب نہیں ہیں تاہم  اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ہزاروں میں  نہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں ضرور ،  مزدور  اس صنعت سے وابستہ ہوئے ہوں گے۔

جب یہ صنعت بند ہو گئی تو کچھ بے روزگار مزدروں نے  معاشی تنگی کے باعث میرپور سے باہر جا کر مزدوروی کرنے کی روایت کے مطابق   ریل میں بیٹھ کر  برطانوی ہندوستان  کے شہروں میں جا کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

 اب میرپور 1846 میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد  ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھا۔ مزدور کسانوں کے حالات مزید اب تر ہو گئے تھے ۔  میرپور کے زیادہ تر مزدور لاہور، دہلئ، بمبئی، کراچی اور کلکتہ جیسے بڑے شہروں میں گئے۔  یہ وہ دن تھے جب برطانیہ نے بادبانی جہازوں کی جگہ بھاپی  انجن سے چلنے والے   بحری جہاز  استعمال کرنے شروع کیے تھے۔ بمبئی اور کراچی میں جانے والے میرپوریوں  میں سے کچھ کو ان جہازوں پر نوکریوں کی ضرورت کا پتہ چلا تو وہ قسمت آزمانے  بندرگاہوں پر چلے گئے۔ جہازوں پر نوکریاں  جہاز کے کوئلہ کمرے میں تھیں ۔ جہاں مزدور شفٹوں میں کوئلہ ڈالتے رہتے تھے۔  بقول راجر  بالارڈ ،  یہاں درجہ حرارت  70 سے 80  ڈگری سنٹی گیرڈ تک ہوتا تھا ۔ یہاں کام شروع  کرنے والے مزدور زیادہ دن  گرمی کی یہ شدت پرداشت نہیں کر پاتے تھے۔ لیکن میرپور کے ڈڈیالی مزدروں نے کام شروع کیا تو  وہ  ”  کاہڈا کہھڈ”  گئے مطلب  گرمی کی حدت سہہ گئے،  برداشت کر لیا۔ اس پر جہاز کے  منتظمین نے  انہیں مزید  مزدور  لانے کو کہا ۔   جو مزدور مزید مزدور بھرتی کر کے  لانے لگے ان کو  ‘سرنگ’ کا عہدہ دیا  کیا۔  اس کی کچھ تفصیلات ڈڈیال کے چوہدری یوسف نے  جو   بعد میں وزیر اور بڑے کاروباری بنے  آپ بیتی  ‘ داستان یوسف’ میں بیان کیے   ہیں  ۔

یہ   بحری جہاز مختلف بندرگاہوں پر  مہینوں  لنگر انداز رہتے تھے۔ اس دوران کچھ مزدور جو  کوئلہ کمروں کی شدید گرمی سے تنگ آئے ہوتے مختلف ممالک میں  قسمت آزمائی کے لیے نکل جاتے۔  ہمارے میرپوری پہلے پہل اسٹریلیا میں بھی گئے ۔  ان میں سے جو واپس آتے سڈنی کو شرنی کہتے تھے۔  کچھ آسٹریلوی محققین  ڈڈیال کے ایک نوجوان  برطانوی کشمیری سکالر  محمد اویس کے ساتھ اس پر  تحقیقی کام کر رہے ہیں۔

اسی دوران کچھ برطانیہ ( ولایت)  میں بھی رہ گئے اور کچھ امریکہ بھی گئے ۔ تاہم جہاں ان اولین تارکین وطن کشمیری محنت کشوں کی ہجرت کا سلسلہ  چند عشروں بعد ‘ چین مائگریشن’  یعنی”   لِنگرو لِنگری ”  مطلب تعلقات اور واقفی کے ذریعے ایک مسلسل ہجرت کی شکل اختیار کر گیا وہ برطانیہ تھا۔ اگرچہ ہجرت کا آغاز بعض شہادتوں کے مطابق 1900 کے اوائل میں ہوا تاہم  برطانوی راج کے خاتمے اور ریاست  جموں کشمیر کی تقسیم کے بعد زیادہ لوگ برطانیہ آنے لگے۔ 1960 تک ہزاروں کی تعداد میں  ڈڈیال اور گردوپیش کے دیہات بشمول چک سواری اور کالگڑھ  سے  مزدور جن میں زیادہ تر نوجوان تھے برطانیہ میں موجود تھے۔میرے والد صاحب  1961 میں برطانیہ آئے تھے جب کہ ان کے کزنز اور کئی دوست اور کالگڑھ کے دیگر نوجوانوں کی برطانیہ آمد کا سلسلہ 1950 کے عشرے کے شروع  سے جاری تھا۔ تاہم جب ‘ کالوں’ کی تعداد بڑھنے لگی تو برطانیہ کے تنگ نظر نسل پرستوں نے ‘ سفید شناخت  اور تہذیب’ خطرے میں  ہے  کا سیاسی نعرہ لگایا ۔ اس لیے برطانوی سرکار کی طرف سے پہلا امیگریشن قانون متعارف  کروایا گیا جو 1962 میں لاگوں ہونا تھا۔ جس کے مطابق صرف وہی آ سکتے تھے جن کے پاس کام کی پیش کش موجود ہو۔  1960 میں امیگریشن کو کنٹرول کرنے کے لیے  اس پہلے امیگریشن قانون کے لاگو ہونے سے پہلے پہلے برطانیہ پہنچنے   کی کوششوں کے نتیجے میں برطانیہ میں کشمیریوں کی تعداد میں  مزید اور تیز رفتار  اضافہ ہوگیا۔

اس  دوران میرپور میں    منگلا ڈیم بننے کے بعد  میرپور شہر اور اس کے  ارد گرد تقریباً چار سو 400 گاؤں  منگلا جھیل کے پانیوں میں غرق ہو نے کے باعث   میرپور شہر اور ڈوبنے والوں گاؤں سے برطانیہ ہجرت میں اضافہ ہوا  ۔ 1970 میں   بچوں کے ماں کے بغیر داخلے پر پابندی کی وجہ سے بال بچہ  ( بیوی بچے) بھی آنے لگے ۔ 1980 کے بعد بزرگ والدین جن کی دیکھ بھال  کے لیے پیچھے کوئی نہیں رہ گیا تھا اور یہاں بزرگوں کی دیکھ بھال کے پیسے بھی ملتے تھے  ان کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ اسی زمانے میں  لڑکے لڑکیاں  شادیوں کے قابل ہو چکے تھے ان کی شادیوں  اور منگیتروں کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ گزشتہ ایک دو دہائیوں سے ہنر مند مزدور اور طلباء کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کے بعد اب    پونچھ اور مظفر آباد سے بھی کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد   برطانیہ میں آباد ہو چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت برطانیہ میں ‘آزاد” جموں کشمیر سے ایک ملین سے زائد کشمیری برطانیہ میں آباد ہیں۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact