تحریر: فاخرہ نواز
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے ۔اسے بے شمار صلاحیتیں عطا کی ہیں ۔اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو برائی کے لئے استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے برائی کے راستے آسان فرما دیتا ہے اور وہ برائیوں پر چلتے ہوئے اشرف المخلوقات سےارذل مخلوقات کےدرجے پر پہنچ جاتا ہے ۔
سورت التین کی تشریح پڑھتے ہوئے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ۔زیادہ پرانی بات نہیں اکتوبر 2022 کی بات ہے جب پاکستان میں تاریخ کا شدید ترین سیلاب آ یا ۔اتنی تباہی و بربادی ہوئی کہ ہر پاکستانی تڑپ کر رہ گیا ۔ہر کسی نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر سیلاب زدگان کی امداد کی ۔ان حالات میں کچھ ایسے واقعات منظر عام پر آنے جن کو سن اور دیکھ کر عقل حیراں رہ گئی۔
ان میں سے ایک آنکھوں دیکھا واقعہ حاضر خدمت ہے ۔ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ہماری سوسائٹی کی چند خواتین نے بھی بیڑہ اٹھایا مجھے بھی کچھ ذمہ داریاں سونپی گئیں ۔ایک ذمہ داری سیلاب زدگان خواتین کی مخصوص نسوانی اشیاء کی خریداری تھی ۔ ہماری سوسائٹی میں ایک بیوہ خاتون نے گزر بسر کے لئےگھر میں ایک چھوٹی سی دکان کھول رکھی تھی ۔میں نے اس سے خریداری کرنے کا سوچا ۔اس سے ایک تو اس کی امداد ہو جاتی دوسرا میرا بازار کا چکر بچ جاتا۔
دوسرے دن میں ان کے گھر گئی اور سامان کی لسٹ ان کے ہاتھ میں تھما دی ۔مجھے کہا گیا تھا کہ ان سے کسی چیز کی قیمت کم نہیں کروانی ۔جسں قیمت پر وہ اشیاء دیں لے لیں ۔ جب تمام اشیاء تھیلے میں ڈال دی گئیں تو میں نے ان سےقیمت کا پوچھا انھوں نے جس قیمت پر اشیاء خریدیں تھیں وہی قیمت بتائی اور اپنا منافع لینے سے صاف انکار کر دیا ۔میں نے زیادہ دینے پر اصرار کیا تو بھی انھوں نے نہیں لیے اور ساتھ ہی ایک لفافے میں مزیدانڈر گارمنٹس اور مخصوص اشیاء ڈال کر میری طرف بڑھایااور کہا “یہ تھوڑا سا میری طرف سے سیلاب زدگان کو دے دیجئے گا “
میں چند لمحات کے لئیے تو ہکابکا ہو کران کا چہرہ دیکھتی رہ گئی کہ جو خود مدد کی محتاج ہےوہ دوسروں کی مدد کر رہی ہے، اپنے ہموطنوں کی تباہی پر اس کا دل بھی تڑپ رہا ہے ۔ ان کی تکلیف اپنی تکلیف سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے ۔۔نا چاہتے ہوئے بھی میں نے ان کے ہاتھ سے لفافہ لے لیا ۔میری آنکھیں نم آلود ہو گئیں اس کے جذبے کے سامنے تودولتمندوں کی دولت کے انبار بھی ہیچ تھے ۔ میں نے جس جس کو بھی یہ واقعہ سنایا وہ اس خاتون کے ایثار سے بہت متاثر ہوا۔
چند دن کے بعد مجھے کام کے سلسلے میں ایک جوتے کی دکان پر جانا پڑا ۔دکان پر دو خواتین خریداری کر رہی تھیں ان کے پاس جوتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ۔ایک خاتون دکاندار سے کہہ رہی تھی کہ ہر سائز کے پانچ پانچ جوڑےالگ کرکے پیک کر دے۔سیلاب زدگان کو دینے ہیں ۔ ان کا یہ جذبہ دیکھ کر میرا دل خوشی سے لبریز ہو گیا ۔اور آنکھوں میں نمی آ گئی ۔یا اللہ میری قوم کتنی ہمدرد اور حب الوطنی کے جذبے سے لبریز ہے۔ میں بڑے فخر اور محبت بھری نظروں سے انھیں دیکھ رہی تھی۔ اور انتظار کررہی تھی کہ وہ خریداری سے فارغ ہو جائیں تو پھر میں بھی اپنی خریداری کر سکوں ۔جب دکاندار نے سارے جوتے پیک کر دیئے اور بل بنانے لگا تو ایک خاتون نے بڑے رازدانہ انداز میں دکاندار سے کہا
جتنی قیمت میں ہم نے جوتے لئے ہیں اس سے زیادہ قیمت کی رسید بنانی ہے” ۔۔
چھن سے جیسے میرے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی ۔میں نےآنکھیں اور کان کھول کر اس خاتون کو دیکھا کہ شاید میں نے غلط سنا ہو۔ لیکن نہیں وہ کہہ رہی تھی کہ ” ہر جوتے کے دو سو روپے زیادہ کی رسید بنانی ہے میں نے جا کر مالکوں کو دینی ہے۔ ” یعنی سیلاب زدگان کی مدد کے لئے جو رقم انھیں کسی نے دی تھی۔اس رقم سےوہ اپنی مدد بھی کر رہی تھیں ۔۔
اس وقت مجھے محلے کی بیوہ خاتون بہت بلند مقام پر کھڑی نظر آئی جو اپنےلرزاں ہاتھوں میں لفافہ پکڑے لجاتےشرماتےکہہ رہی تھی ۔۔
” یہ تھوڑا سا میری طرف سے سیلاب زدگان کو دے دیجئے گا”.
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.