زندگی کے حالات اور اپنی بیماری سے مردانہ وار لڑنے والی بہادر خاتون
تحریر ۔ عافیہ بزمی
دراز قد ، خوش شکل و خوش لباس ، زندہ دل اور بااخلاق منور سلطانہ بٹ سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ہمارے گھر اپنی شاعری کی اصلاح کے لئےوالد محترم پروفیسر خالد بزمی سے ملنے آئی تھیں ۔ان دنوں وہ سی ایم ایچ ہسپتال میں سینئیر سٹاف کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دیا کرتی تھیں ۔
گھر میں ادبی اور تعلیمی حوالے سے لوگوں کا والد محترم کے پاس آنا جانا رہتا تھا ۔ ان آنے والے لوگوں میں جب کوئی خاتون ہوتی تو والد محترم ہماری والدہ کے ساتھ ساتھ ہم بیٹیوں کو بھی ان سے ضرور ملوایا کرتے تھے ۔
منور سلطانہ صاحبہ سے بھی جب پہلی ملاقات ہوئی تو وہ بہت زندہ دل خاتون لگیں جنھوں نے جدید تراش خراش والا لباس زیب تن کر رکھا تھا اور خوبصورت ہیئر سٹائل نے ان کی شخصیت کی دلکشی میں چار چاند لگا رکھے تھے ۔
آج ان کی وفات کی خبر ملی تو ذہن کی سکرین پر ماضی کی وہ خوشگوار یادیں چلنے لگیں جن میں منور سلطانہ کا نام بھی جڑا ہے ۔
میں اپنی اس تحریر میں ان کی شاعری یا ان کی ادبی تخلیقات کے حوالے سے ہر گز بات نہیں کروں گی کیونکہ یہ ایک تلخ حقیقت اور میری کم علمی ہے کہ میں نے ان کا کبھی کوئی کلام نہیں پڑھا ۔ میں آج بات ان کی دلفریب و دلکش شخصیت کی کروں گی جس نے بہت جلد ہمارے گھر میں ایک مقام حاصل کر لیا تھا ۔
یکم اپریل 1990 جو کی 34 سال بعد ان کی تدفین کا دن بھی ٹھہرا ، کو منور آپا نے میرے والد محترم کو پہلا خط اسوقت لکھا جب اظہر جاوید صاحب کی سر پرستی میں شائع ہونے والے ادبی مجلہ ( تخلیق ) میں ، میرے والد محترم پروفیسر خالد بزمی نے ان کی شاعری پر تنقیدی تبصرہ کیا تھا ۔ جس کے جواب میں انہوں نے والد محترم کو خط لکھا اور اپنی شاعری کے حوالے سے اصلاح کے لئےبھی پوچھا ۔ بس اس کے بعد وہ ہمارے گھر اپنی شاعری کے حوالے سے والد محترم سے مشورے اور اصلاح کی غرض سے آنے لگی تھیں ۔
خوش مزاجی کا یہ عالم تھا کہ جب وہ آتیں تو گھر کے ہر فرد کا مسکراتے ہوۓ حال احوال پوچھتی اور دوستی والا ماحول بنا لیا کرتی تھیں ۔
والد محترم کے ساتھ بیشک ان کا شاگرد اور استاد والا ادب و احترام والا تعلق تھا لیکن ہماری والدہ کے ساتھ ان کا خاص بے تکلفی اور دوستی والا تعلق قائم ہو چکا تھا۔ وہ والدہ کو پیار سے کبھی آپی اور کبھی بھابھی کہہ کر بلانے لگی تھین اور ہم بہن بھائیوں کے ساتھ بھی وہ خاصی بے تکلفی اور محبت سے بات کیا کرتی تھی ۔
اکثر جب وہ ہسپتال سے اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر سیدھا ہمارے گھر آتی تو زیادہ تر وہ وقت دوپہر کے کھانے کا ہوتا تھا ۔ ہمارے گھر میں دوپہر کے کھانے میں باقاعدہ فرشی دسترخوان لگا کرتا تھا جس پر گھر کے سب افراد اکٹھا ہو کر کھانا کھایا کرتے تھے ۔
والدہ بھی ان کو بڑی چاہت سے کہتی کہ منور کھانا تیار ہے اب کھانا کھا کر ہی جانا ۔ اس کا جواب وہ مسکراتے ہوۓ دیتی کہ
آپی آپ کے ہاتھ کے کھانے سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے ۔
جنہوں نے ہمارے گھر کی میزبانی کے مزے اٹھاۓ ہیں وہ سب جانتے تھے کہ والدہ کے ہاتھ کے بنے کھانوں کی لذت کی تعریف کرنا مہمان اپنا فرض اور میری والدہ کا حق سمجھا کرتے تھے ۔
یوں میں اگر کہوں کہ منور آپا ہمارے گھر کے ایک فرد کی طرح ہو گئی تھیں تو بے جا نا ہو گا ۔
والد صاحب کو عارضہ قلب لاحق ہوا تو منور آپا نے بڑی مخلصانہ پیشکش کی کہ بزمی صاحب آپ سی ایم ایچ میں آئیں آپ کا وہاں مکمل چیک اپ کرواتے ہیں ۔ یہ وہ وقت تھا جب پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ابتدائی مراحل میں تھا ۔
کجھ عرصہ بعد میری بڑی بہن کی شادی ہوئی تو منور آپا نے بات پکی ہونے سے لےکر شادی کی سب تقریبات میں اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ بھرپور طریقے سے شرکت کی ۔ ہمیں کبھی محسوس ہی نا ہوا تھا کہ ان سے تعلق صرف کچھ عرصہ پہلے کا ہے یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ ہمارے خاندان ہی کا حصہ ہیں اور ہم ہمیشہ سے انہیں اور وہ ہمیشہ سے ہمیں جانتی ہیں ۔
والد محترم کی رہنمائی میں یقینا ان کی شاعری میں نکھار آیا ہو گا ۔
ہم ان کو والد محترم کے حوالے سے کبھی آنٹی کہہ دیتے تو احساس ہوتا کہ نہیں ان کی تو ابھی شادی بھی نہیں تو بس پھر ہم انہیں سلطانہ آپا کہہ کر بلانے لگے تھے ۔
یہاں یہ بات بھی کلیئر کر دوں کہ پہلے یہ سلطانہ اقبال کے نام سے لکھتی تھیں ، پھر منور سلطانہ کے نام سے اور اب منور سلطانہ بٹ کے نام سے ۔
چند سال کا یہ تعلق بہت پیارا تھا پھر ان کی شادی طے ہو گئی ۔ یہ اپنی شادی کا کارڈ خود دینے آئی تھیں ان کی چھوٹی بہن جاذبہ جن کو جوزی کہہ کر بلاتے تھے وہ بھی ان کے ساتھ اکثر ہوتی تھیں ۔
تعلق والد محترم کے حوالے سے ضرور قائم ہوا تھا لیکن دلوں میں گھر یہ ہم سب کے کر گئی تھیں اپنی ہنس مکھ اور خلوص بھری عادت کی بدولت ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شادی میں والد صاحب کے علاوہ ہم سب نے شرکت کی تھی ۔ والد صاحب ایسی تقریبات میں کم کم ہی جاتے تھے ۔
ان کی شادی کے بعد رابطہ محدود ہوا اور پھر والد صاحب کی وفات کے بعد رابطہ بالکل ختم ہو گیا ۔
تین سال پہلے میری والدہ دنیا سے رخصت ہوئیں تو میں اپنے والد کے کتب خانے سے کچھ ان کے ہاتھ کے بنے کاغذات کے بنڈلز لائی کہ والد صاحب کا جو کام شائع ہونے سے رہ گیا میں اس کام کو سمیٹوں اور شائع کرواؤں ۔ اسی ضمن میں جن چند لوگوں سے والد محترم کی یادوں کے حوالے سے رابطہ کیا ان میں ایک نام منور آپا کا بھی تھا ۔
سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی تلاش شروع کی ۔ پہلے ان کو فیس بک پر ڈھونڈا اور پھر وٹس ایپ پر بات ہوئی ۔
پہلی کال جب کی تو ایک انجانی سی خوشی مجھے بھی ہوئی اور ان کو بھی ۔ سب بہن بھایوں کا حال احوال پوجھا اور بولیں :
“عافیہ بچے ، بھابھی کیسی ہیں ؟۔”
میں نے کہا کہ اماں بھی رخصت ہو گئیں اور افسوس کے ساتھ ان کی باتیں بھی یاد کرنے لگیں ۔
کہنے لگیں کہ کسی دن ملاقات کرتے ہیں ۔ بہت سی باتیں کریں گے گذرے ہوۓ وقت کی ۔ یادیں تازہ کریں گے ۔ بزمی صاحب کی ۔ باتیں کریں گے بھابھی یعنی میری والدہ کی ۔
بڑے بھائی احمد خلدون کا نمبر لیا کہ میں اس سے بھی رابطہ کروں گی ۔
کچھ اپنی زندگی کے بارے میں بتایا ۔ کچھ زندگی کے پچھتاوے بتائے۔ کہنے لگیں کہ میں نے وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے کر بہت غلط کیا ۔ میرے ساتھ والے کولیگز اب کہاں سے کہاں پہنچ گئے؟ ۔
میں نے تسلی دیتے ہوۓ کہا:
“آپا کچھ فیصلے وقت اور حالات ہم سے کروا دیتے ہیں ۔آپ دل برا نا کیا کریں۔”
اس کے بعد میرا ان کے ساتھ مسلسل رابطہ رہا ۔
وہ اپنے والدین اور بھائیوں کے غم اور یاد میں ان کے حوالے سے فیس بک پر پوسٹ لگاتیں تو مجھے اپنے والدین اور بہن اور بھابھی یاد آنے لگتے اور میں سوچتی کہ ہم انسانوں کی زندگی میں اپنے پیاروں کے جانے کا دکھ کتنا سانجھا ہوتا ہے نا ۔ جانے والے تو چلے جاتے ہیں پیچھے ہم لوگ ان کی یاد میں تڑپتے رہتے ہیں ۔ لیکن موت وہ اٹل حقیقت ہے جس کا سامنا ہر ذی روح کو کرنا ہے ۔اور جب پیدا کرنیوالے رب کا حکم آجاۓ تو ہم انسانوں کی کیا مجال اور اوقات ۔
یکم جنوری 2024 کو ان کا وٹس ایپ میسج آیا ۔نئےسال کی مبارک دی ۔ مجھے اور میری فیملی کو دعا دی اور بتایا کہ وہ کینسر میں مبتلا ہیں اور دعا کے لئےکہا ۔
کچھ دن بعد بہن کی شادی کی تصاویر دیکھیں تو میں نے وہ تصاویر ان کو بھیجیں ۔ جن کو دیکھ کر ان کا جواب آیا کہ
بہت شکریہ آپ سب نے مجھے یاد رکھا ۔
ستائیس جنوری کو میں نے ان کو میسیج کیا اور ان کے والد محترم کو لکھے کچھ خطوط اور عید کارڈز کی تصاویر بھیجیں کہ دیکھیں مجھے والد صاحب کے کاغذات سے ملے ہیں ۔
اس میں پہلا خط یکم اپریل انیس سو نوے ٹھیک ان کی تدفین کے چونتیس سال پہلے کا لکھا ہوا تھا ۔
اس میسج کا جواب آیا کہ
طبیعت ٹھیک نہیں ہے دعا کریں ۔
اس کے بعد میں نے ایک دو میسجز کئے ان کا حال پوچھنے کے لئے، جن کا جواب نا آنا بتا رہا تھا کہ ان کی طبیعت بہتری کی طرف نہیں آرہی ۔
دل سے دعا تھی کہ یہ ٹھیک ہو جائیں لیکن ایک خوف بھی تھا کہ ایسے ہی حالات کچھ عرصہ پہلے ہم نے اپنی والدہ کی بیماری کے بھی دیکھے تھے ۔
رمضان المبارک کا بیسواں روزہ افطار کرتے کے بعد جیسے ہی موبائل پکڑا تو منورآپا کے دنیا سے رخصت ہونے کی اطلاع ملی ۔
زبان سے ایک دم نکلا :
“اللہ ھو اکبر “
آخری عشرہ شروع ہوتے ہی وہ دنیا سے چلی گئیں ۔
بیشک رب کے نزدیک کون کتنا معتبر یہ ہم گناہ گار انسان کیا جانیں ۔ اللہ نے ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے لئے کتنا پیارا مہینہ اور دن چنا تھا کہ جب ہر طرف رحمت ہی رحمت ہے ۔
میری رب سے دعا ہے اللہ انکی ڈھیروں بخشش فرماۓ ۔ آگے کی منزلیں آسان فرماۓ اور ان کی بیٹی کو صبر دے ۔ آمین
بس دل میں یہ حسرت رہ گئی کہ ایک بار اگر اب انہیں مل لیتی تو ماضی کی خوبصورت یادوں کو تازہ کر لیتے ہم جس میں سب سے پیارا ذکر یقینا میرے والد محترم پروفیسر خالد بزمی کا ہوتا کہ منور آپا سے ملنے کا وسیلہ تو والد محترم ہی تھے نا ۔
عافیہ بزمی