اسلامی تہذیب کا ماضی وہ سُنہری دور تھا، جب ادب، ثقافت اور علم کے میدان میں عالمِ دنیا مسلمان کے بارے میں جانتے تھے۔ بغداد کی گلیوں سے لے کر اندلس کے مراکز تک مسلم مفکرین، شعراء اور علماء نے ایسا ورثہ تخلیق کیا، جس کی روشنی آج کے اندھیروں میں انسانی ترقی کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
لیکن افسوس! آج وہی قوم دنیا بھر میں اپنی شناخت کھو رہی ہے۔ اسلامی تہذیب کبھی ادب و علم کا وہ سُنہری دور ہوا کرتا تھا کہ بغداد کا دارالحکومت “House of Wisdom” علم و ادب کا مرکز تھا، جہاں مسلمان علماء نے یونانی، رومی، فارسی اور ہندوستانی علوم کا ترجمہ کیا اور ان میں نئی تحقیق کا اضافہ کیا۔ یہ صرف کتابوں کا ترجمہ گاہ نہیں تھی، بلکہ ایک حقیقی ادارہ تھا، جہاں سائنس، فلسفہ اور ادب پر گہری تحقیق کی جاتی تھی۔
اگر ہم “اندلس” کے سنہری دور، یعنی اسلامی ہسپانیہ کے ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ عبدالناصر کے دورِ حکومت میں اس کے جانشین “حکم ثانی” نے بغداد سے وہ کتابیں منگوائیں، جن کا ترجمہ عربی میں ہو چکا تھا، اور مسلمانوں نے ان پر نئی تحقیق کی بنیاد رکھی۔
یونانی علماء کا اندازِ فکر فلسفیانہ پیچیدگیوں میں بند تھا۔ مسلمانوں نے ان تحقیقات اور علم کے ابواب کو نئی فکر، یعنی سائنسی طریقہ کار سے فروغ دیا۔
“علم الطب” (Medical Sciences)
دوسرے عقلی علوم کے ساتھ ان کا بھی عربی مترجم موجود تھا۔ ہسپانیہ میں پہلے پہل یونانی کتبِ طب متعارف ہوئیں، جن پر مسلمانوں نے اپنی تحقیقات کی بنیاد رکھی۔ امراضِ نسواں، امراضِ اطفال، امراضِ چشم اور تشخیص پر ہسپانیہ میں بہت کام ہوا۔
“میدانِ ادب”
عربی زبان میں ادب کو وہ مقام حاصل تھا، جو کسی بھی تہذیب کے لیے مثال ہے۔ مسلمانوں کے ادب کی بنیاد قرآنِ کریم پر ہے، جس نے عربی زبان کو نئی بلندی دی۔
“مشہور شعراء”
الفردوسی: جنہوں نے “شاہنامہ” لکھا، جو فارسی ادب کا ایک شاہکار ہے اور ایران کی تاریخ اور کہانیوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔
عمر خیام: جن کی “رباعیات” آج بھی عالمی ادب کا حصہ ہیں اور جن میں گہری فلسفیانہ سوچ جھلکتی ہے۔
اندلس میں ادبی مراکز خاص طور پر قرطبہ اور غرناطہ عربی ادب و فلسفے کا گہوارہ بنے۔ ان شہروں میں علمی مجالس اور لائبریریاں قائم ہوئیں۔ اندلس کے فلسفی ابن رشد نے ارسطو کی فلسفیانہ کتب کا ترجمہ کیا، جس نے یورپ کی نشاةِ ثانیہ پر گہرا اثر ڈالا۔
مسلمانوں کے ادب نے نہ صرف اسلامی دنیا، بلکہ یورپ پر بھی گہرے اثرات چھوڑے۔ کئی یورپی شعراء اور مفکرین نے مسلم مصنفین و مترجمین کے کام سے تحریک حاصل کی۔ یہ وہ دور تھا، جب مسلمان نہ صرف اپنی تہذیب کے عروج پر تھے، بلکہ عالمی ادب و ثقافت کو بھی سنوار رہے تھے۔
قصہ مختصر کرتے ہوئے، بس کہنا چاہتی ہوں کہ:
“اگر ہم تعلیم و ادب کی طرف لوٹ آئیں،” “تو اس عظیم ماضی کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔”
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.