آج کل ہر شخص کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے کہ “میرے پاس وقت نہیں ہے”, ملنے کا وقت نہیں ہے، اپنی دلچسپیوں کے لیے وقت نہیں ہے دوستوں سے ملنے کا وقت نہیں ہے، سالانہ تفریح کا وقت نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو یہ وقت کہاں جا رہا ہے؟ کون سا چور ہے جو ہمارا وقت چُرائے جا رہا ہے اور ہمیں پتہ بھی نہیں چل رہا۔ ہم خود اپنے لیے ہی وقت نہیں نکال پا رہے۔ پہلے کبھی جب لوگوں سے ان کی دلچسپیوں کے بارے میں سوال کیا جاتا تھا تو ہر شخص کے پاس اپنے من پسند مشغلوں کی ایک لمبی فہرست ہوتی تھی۔ جن کو تمام افراد اپنے فراغت کے اوقات میں کرتے تھے۔ اگر کبھی مصروفیت کے باعث وقت نہ ملتا تو کسی بھی طرح دِنوں کو منظم کر کے اپنے لیے وقت نکالتے تھے۔ مگر آج کل تو جیسے یہ من پسند مشغلوں کو کرنے کا رواج ہی ختم ہو گیا ہے یا ہابیز
نام کا لفظ ہی لغت سے ختم ہو چکا ہے۔ اس معاملے کی تہہ تک جائیں یا اس چور کا کُھرا ڈھونڈیں تو بات کچھ سالوں قبل جا کے رکتی ہے۔ جب یہ موبائل فون عام ہوا اور پھر رفتہ رفتہ اس پر چیزوں کی بہتات ہوتی گئی۔ موبائل فون نے جہاں ہمیں دنیا کے نزدیک کر دیا براعظموں کو آپس میں جوڑ دیا مگر ہم خود سے دور ہو گئے۔ اپنی خواہشوں سے دور ہو گئے، اپنے اصل سے دور ہو گئے۔
قرآن میں بھی اللہ تعالی بار بار قران کو پڑھنے کی تلقین کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں “فيه ذکروکم”, “اس میں تمہارا ہی ذکر ہے” تو جب ہم اپنے ذکر سے ہی منہ پھیر لیں گے تو گویا ہم اپنے نفسوں کو ہی بھول جائیں گے اور انسان جب اپنے آپ کو بھول جاتا ہے تو اپنے ربّ کو بھول جاتا ہے۔ پہلے لوگوں میں کتاب بینی کا شوق پایا جاتا تھا۔ لائبریری جانا یا کتابیں خرید کر اپنے گھر میں اکٹھی کرنا عام بات تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کوئی گھر ایسا نہیں تھا کہ جہاں پر بچوں کے تربیتی رسالے یا اسلامی میگزین نہ آتے ہوں۔ ہفتے میں چھٹی کے دن ان کو باقاعدگی سے پڑھا جاتا تھا اور پھر دوستوں، بہن بھائیوں اور اپنے کزن سے ان تمام کہانیوں کو ڈسکس کیا جاتا تھا۔ مگر اب سوشل میڈیا پر بے تکی چیزوں نے جگہ لے لی ہے۔ جو وقت پہلے کتاب بینی یا ٹی وی پر اچھے معلوماتی پروگرام دیکھنے میں گزرتا تھا اب وہ سوشل میڈیا پر غیر ضروری قسم کی ویڈیوز دیکھنے میں صَرف ہو جاتا ہے یا پھر وقت فیس بک پر پوسٹ کو دیکھتے گزر جاتا ہے۔ جن انگلیوں نے قلم پکڑ کر کچھ لکھنا تھا وہ اب سوشل میڈیا کی پوسٹ کو لائیک کرنے کے میں لگ گئی ہیں۔ جن ہاتھوں نے دنیا مسخر کرنی وہ ہاتھ اب موبائل فون تھامے ہوئے ہیں۔ آج ہماری نوجوان نسل کے سر شرافت کے باعث نہیں بلکہ موبائل کی سکرین پر جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ عوامی جگہوں پر جہاں کہیں بھی آپ دیکھ لیں آپ کو لوگ موبائل فون استعمال کرتے ہوئے ہی نظر آئیں گے۔ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں ہمیں علم بھی ڈیجیٹلائزڈ ہی مل رہا ہے کوئی کتابیں پڑھنے، لائبریری جانے کو اہمیت نہیں دیتا، یوٹیوب، انسٹاگرام اور فیس بک کو ہی معّلم سمجھ کر ان سے سیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ اس موضوع کے حوالے سے جتنا لکھا جائے اتنا کم ہے۔ کیونکہ ہم اس دور کے لوگ ہیں جو کتابوں سے نکل کر اس رنگ برنگی برقی دنیا میں آئے تھے اور ہمیں خود بھی یہ تبدیلی پسند نہیں ہے اور نہ ہم اس جدید دور میں ایڈجسٹ ہو پائے ہیں۔
*کہ جی ڈھونڈتا ہے پھر فرصت کے وہی رات دن*
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.