نظریہ اور نظریاتی سیاست تحریر : شمس رحمان ۔۔۔قسط 02

نظریہ اور نظریاتی سیاست تحریر : شمس رحمان ۔۔۔قسط 02

( مجموعی قسط 15) سلسلہ وار کالم

تحریر : شمس رحمان ۔۔۔قسط 02

نظریہ 

میریموجود سمجھ کے مطابق نظریے کو سادہ الفاظ میں دماغ کی عینک کہا جاسکتا ہے ۔ اپنے ارد گرد اور دنیا کے بارے میں ہم جو کچھ جانتے، سمجھتے بوجھتے اور مانتے ہیں اس کا ذریعہ دماغ کے اندر یہ عینک ہوتی ہے۔

جس طرح آنکھ کی عینک نمبر کے مطابق نہ ہو تو درست نظر نہیں آتا اسی طرح نظریے کی عینک کا نمبر بھی ٹھیک نہ ہو حقائق ٹیرے میڑے دھندلےیا مسخ نظر آتے ہیں۔

نظریے کی عینک کا نمبر درست ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ گردوپیش کی زندگی سے میل کھاتا ہو۔ مطلب وہ گردوپیش کی سمجھ بوجھ کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہو۔ اس کے ذریعے دیکھیں تو ارد گرد میں جو ہے جیسا ہے اور جس وجہ سے ہے  وہ ویسا  نطر آتا ہو اور اس نطریے میں اتنی  بصیرت ہو کہ گرد و پیش کی حقیقی اور ٹھوس سمجھ کے ذریعے  اس کو بدلنے یا نہ بدلنے یا کیسے اور کیوں بدلنے کے درست اور ناگزیر  فیصلے کیے جا سکیں۔

ایک سطر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظریے کے موثر اور کارآمداور کارگر  ہونے کی بنیادی اور لازمی شرط یہ ہوتی ہے کہ وہ ارد گرد کے مادی حالات سے کشید کیا گیا ہو۔

علمی لحاظ سے  نظریہ ایک سائنسی ( علمی) مشق ہے۔ اس میں   کسی  بھی چیز کی سرگرمیوں  کو دیکھ بھال کر ( مشاہدہ اور مطالعہ کر کے )   اس کو سمجھ کر اس  اس سمجھ بوجھ کا نچوڑ نکالا جاتا ہے۔ اس  نچوڑ کو  نظریہ کہتے ہیں،  جس میں دعوے  اور  پیشن گوئیاں کی گئی ہوتی ہیں  بنیادی سوالوں کے جواب دیے گئے ہوتے ہیں  ، کہ کیا کیسا ہے ،  جو ہے وہ کیوں ہے  اور یہ   کہ   ایسا ہوا تو یہ ہو گا اور ویسا ہوا تو وہ ہو گا،   اور یہ  بھی کہ  ایسا ہو تو ویسا ہوتا ہے اور ویسا ہو تو ایسا ہوتا  اور یہ کہ ایسا ویسا کیوں اور کیسے ہوتا ہے۔ جس طرح انسان ازل سے کھانے پینے، پہننے اور رہنے کے لیے بہتر سے بہتر کی تلاش میں غاروں سے نکل کر  جہاں آج  ہے وہاں پہنچا ہے اسی طرح  سوچ و فکر کا سفر بھی ساتھ ساتھ جاری اور ارتقاء پذیر رہا ہے۔

کائنا ت میں پائی جانے والی  قدرتی اشیاء اور سرگرمیوں  کے سائنسئ مطالعے کے  ذریعے حاصل ہونے والے علم کے ذریعے  ہی انسان نے غاروں سے ستاروں تک سفر طے کیا ہے۔سائنسی علم کی روح خالق کائنات کی کی طرف سے کائنات کے اندر پائے جانے والے مختلف نظاموں کی  حقیقی سمجھ   بوجھ کا نام ہے۔ اس سمجھ یعنی سائنسی علم  کی بنیاد پر انسان نے  پھر نہ صرف کائنات کے اندر پائے جانے والے مختلف نظاموں  کو سمجھا  بلکہ  اس سمجھ بوجھ سے مزید دریافتیں اور  ایجادات ممکن ہو ئیں ۔ نئی نئی ٹیکنالوجی بنائی ۔  اچھے بُرے اثرات  سامنے آئے ۔  نئے سوال پیدا ہوئے۔ علم کے نئے در وا ہوتے ہیں۔ آگاہی اور آگہی میں اضافہ ہوا۔ ترقی کا سفر آگے کو بڑھا۔   اور یہ سب کچھ جاری ہے ۔ زندگی کے ہر شعبے میں۔ مختلف معاشروں میں مختلف رفتار سے۔ مختلف سمتوں میں۔

جس طرح انفرادی طور پر  انسان کے شعور کا سفر ( اپنی زندگی کے سفر کا تصور کریں )   تو ہوش سنبھالتے ہی شروع ہو جاتا ہے  لیکن  شعور کے اس سفر کا شعور- یعنی شعور کا شعور – کہیں بعد میں جا کر آتا ہے۔ اسی طرح   کچھ وقت  کے لیے اپنی سوچ  کو واپس قدیم عہد میں  لے جائیں تو  معلوم ہو گا کہ مجموعی طور پر انسان میں  اس وقت بھی  موجود حالات کی  سمجھ  بوجھ موجود تھی جس کی مناسبت سے وہ    زندگی تو گزار رہے تھے۔  وہ سمجھ بوجھ ، وہ علم اگلی نسلوں کو منتقل بھی ہو رہا تھا۔   مگر اس سمجھ بوجھ کی  سمجھ بوجھ کا  علم حاصل کرنے کا عمل  بہت بعد میں شروع ہوا۔

علم  حاصل کرنے کا یہ چلن  اور اس کا سفر  درحقیقت  ہر ایک شعبہ زندگی میں اور کائنات کے ہر ایک پہلو کے بارے میں سائنسی  چلن تھا ۔  اس طرح دیکھیں تو  آج تک  انسان کے علم حاصل کرنے کی  تاریخ اس چلن  کے ارتقاء   کی تاریخ  ہے ۔  تاہم اس علم کو باقاعدہ منظم انداز میں  پیش کرنے اور اس کے ذریعے انسانی سماج کو سمجھنے اور مسائل و مشکلات  اور خطرات سے نپٹنے  اور مواقعوں  اور وسائل کو عام  استعمال کرنے  کا سفر    بہت زیادہ پرانا  نہیں ہے ۔

بہت زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر اتنا کہنا کافی ہو گا کہ   کائنات کو سمجھنے کے لیے کائنات کے مطالعے کے اس  چلن کو مختلف ادوار میں  اور مراحل پر    ان قوتوں کی طرف سے سخت مشکلات کا سامنا  بھی کرنا  پڑا جن کے لیے موجود علم اور موجود حالات فائدے مند تھے ، جن کے لیے ان میں تبدیلی نقصان دے تھی ۔ مگر ٹھوس اور حقیقی علم  بتدریج قوت پاتا گیا اور  اس کی راہ میں موجود دیواریں دھڑ دھڑ گرتی گئیں اور  خالق کائنات کی طرف سے انسان کو دی گئی عظیم ترین صفت یعنی انسانی سوچ و فکر  کے گرد لاکھوں سالوں سے  لپیٹی گئی  زنجیریں  تڑاخ تڑاخ ٹوٹتی گئیں۔ کہیں تو اب ان زنجیروں کی باقایت کو جان بوجھ کر عجائب گھروں میں رکھا جاتا ہے تاہم کہیں کہیں وہ اب بھی بڑی مضبوط اور غالب ہیں۔ مگر خدا کی اس کائنات اور اس  کے اندر نظام ہائے حرکت و عمل اور کرہ زمین پر بسنے والے انسانوں  کی زندگیوں بارے حقائق سے آگاہی کے عمل میں جس طرح سے آثار قدیمہ کو پڑھنے کے علم ، جنیاتی سائنس اور تخلیقی ٹیکنالوجی میں  جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لگتا ہے کہ بہت جلد  سارے موجود  نقاب اتر جائیں گے۔ لیکن  یہ بھی علم کے اس سفر میں سامنے آیا ہے کہ موجود انقاب اترتے ہیں تو نئے  سامنے آ جاتے ہیں۔ جتنا علم میں اضافہ ہوتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ کتنا تھوڑا ہم جانتے ہیں۔

کائنات  کے اس  علم   یعنی سائنسی علم کی خاص بات یہ رہی ہے کہ یہ ٹھوس اور حقیقی   ثبوتوں  پر مشتمل رہا ہے    ، جو پوری ایمانداری کے ساتھ حاکٹھے کیے   جاتے  ہیں  ۔ یہ انسان کے اندر موجود وہ  ایمان تھا  جس کی راہ میں بے ایمانی نے دیواریں کھڑی کی ہوئی تھیں۔ جس کو بے ایمانی نے دیواروں میں جھکڑ رکھا تھا۔  ٹھوس، حقیقی اور ایماندارانہ ہونے کا کیا مطلب؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنسی علم  کی  ہر  ایک شکل میں جس چیز کا  بھی مشاہدہ اور  مطالعہ کیا جاتا ہے  وہ  مطالعہ خیالی، ہوائی ،غیر مادی  یا خفیہ نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہوتا ہے سب کے سامنے  یعنی ٹھوس ہوتا ہے۔  حقیقی  سے مراد یہ ہے  کہ جو ہوتا  ہے ، جیسا ہوتا ہے اس کو جب سائنسی طریقے سے دیکھا   یعنی مشاہدہ کیا جاتا ہے تو  دیکھنے والے کی علمی استطاعت  کے مطابق ایسا ہی  دیکھا جاتا ہے جیسا وہ  ہوتا ہے۔  اس کو بڑھا چڑھا کر یا گھٹا کر نہیں دیکھا اور دکھایا جاتا ۔  مشاہدہ  کرنے والوں کی اہلیت و قابلیت کے لحاظ سے یا  اس لمحے ان کے پاس  اس موضوع یا چیز کے بارے میں موجود اجتماعی علم کی حد کے حساب سے،  اس میں کمیاں کجیاں  تو ہو سکتی ہیں  اور ہوتی بھی ہیں، لیکن  جو دِکھ نہ رہا ہو اس کو دکھانے یا جو موجود نہ ہو اس  کو موجود بتانے  کی کوشش نہیں کی جاتی۔ یعنی  علم حقیقی ہوتا ہے۔ اور یہ سب کچھ پوری ایمانداری سے کیا جاتا ہے۔ کیونکہ  علم حاصل کرنے کے اس سائنسی طریقے میں کم علمی تو چل جاتی ہے کیونکہ کوئی اور بہتر علم والا اس کم علمی کو دور کر دیتا ہے لیکن بے ایمانی نہیں چل سکتی۔  بے ایمانی ذرا سی بھی ہو تو پکڑی جاتی ہے اور پھر وہ بے ایمان سائنس کے دائرے سے خود بخود خارج ہو جاتا ہے۔

  یہاں تک ہم نے  جس نظریے کی بات کی ہے وہ اردو میں علمی نظریہ کہلاتا ہے ۔  جبکہ ہمارا اصل موضوع درحقیقت سیاسی نظریہ ہے۔ جو شروع تو علمی نظریے کی شکل میں ہی ہوا تھا لیکن پھر سیاسی راہوں پر چلا تو مختلف سمت کو نکل گیا۔

ریاست جموں کشمیر میں نظریاتی سیاست کی چھان پھٹک کرنے   سے پہلے آئیے نظریے اور نظریاتی سیاست کی پیدائش اور ارتقاء  پر کچھ جان لیں تاکہ ریاست میں اس کے داخلے اور ارتقاء کے سفر کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔

 سیاسی نظریہ  ( آئیڈیالوجی)

آئیڈیالوجی کی ا صطلاح  فرانسیسی لفظ ‘

 Ideologi

‘  سے نکلی جو خود  یونانی الفاظ  ‘آئیڈیا’  اور ‘  لوجیا’   کو ملا کر بنایا گیا تھا۔ آئیڈیا کا مطلب  ‘خیال’، نظریہ’ ، ‘تصور’،  ‘ طرز’۔ اور ‘لوجی’  کا مطلب مطالعہ ۔ یعنی خیالات و تصورات ، نظریات  کا مطالعہ ۔ Ideology۔

نظریاتی سیاست والے نظریے کو بھی ہم اردو میں نظریہ ہی کہتے ہیں لیکن انگریزی میں اس کے لیے دو الفاظ یا اصطلاحات موجود ہیں۔ پولیٹکل تھیوری اور  آئیڈیالوجی ۔ اردو میں دونوں کو سیاسی نظریہ ہی کہا جاتا ہے۔ تاہم میرے خیال میں آئیڈیالوجی کو سیاسی نظریہ اور پولیٹیکل تھیوری کو ‘ سیاسیاتی  نظریہ’  کہنا چاہیے۔   کیونکہ یہ علم سیاسیات  کا علمی نظریہ   ہے جس میں سیاست کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

تاہم جب ہم نظریاتی سیاست کی بات کرتے ہیں تو  آئیڈیالوجی والے نظریے  کی بات کرتے ہیں۔ آغاز میں اس کا مطلب نظریات کا مطالعہ ہی تھا لیکن بعد میں مختلف سیاسی نظریات آئیڈیالوجی کہلانے لگے۔  آخری منزل تو اس  نظریے کی بھی شاید سیاسیاتی ہی  ہو یا ہونی چاہیے کہ اس میں بھی پوری ایمانداری سے معاشرے کا  مطالعہ کر کے  ٹھوس اور حقیقی ثبوت سامنے لا کر ان کی بنیاد پر سیاست کی جائے۔ جو حقیقی نظریاتی سیاست ہو سکتی ہے لیکن ابھی تک شاید یہ ایک خواہش ہی ہے۔  خیر اس باب میں ہمارا موضوع یہی سیاسی نظریہ اور  نظریاتی سیاست ہے۔

سیاسی نظریے  ( آئیڈیالوجی )  کو  ایک دانشورانہ نقشہ  بھی کہا جاتا ہے۔ جس سے ہمیں دنیا کو  اور اس میں اپنے مقام کو سمجھنے اور اپنے ارد گرد پیش آنے والے سیاسی اور سماج حالات اور واقعات کا تجزیہ کرنے  میں مدد ملتی ہے۔  ان کی قدروقیمت  کا اندازہ معروضی حقائق اور دوسروں سے بحث مباحثے کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

دلچسپ بات پتہ ہے کیا ہے؟

ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر وحی تک سب علموں کے  اکثر  اولین عالم  پیغمبر ہی تھے جو سر عام کہتے تھے کہ جو علم انہیں مل رہا ہے وہ اللہ یعنی  کائنات کے خالق سے مل رہا ہے۔ لیکن محمد ﷺ کے بعد یہ دعویٰ اگر کسی نے کیا بھی تو اس کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی۔ واقعی  براہ راست وحی  رک گئی ۔ شاید اس لیے کہ  تب تک انسانی فکر کا ارتقاء اس مرحلے پر پہنچ چکا تھا کہ انسان کے اندر سیکھنے کا نظام  اب بغیر وحی کے کائنات کا سراغ لگانے اور  اس کے اندر متحرک نظاموں کو سمجھنے اور شاید خالق تک پہنچنے کےقابل ہو  چکا تھا؟

لہذا شروع کی مشکلات کے باوجود  اللہ کے ان خاص بندوں  یعنی سائنسدانوں نے حق کا پیغام جاری رکھا اور راہ کی دیواریں گراتے، زنجیریں توڑتے آگے بڑھتے رہے۔ ہر ایک شعبہ زندگی میں آگاہی اور آگہی کا سفر جاری و ساری ہے۔

جدید سیاسی نظریات

ریاست جموں کشمیر اور آزاد کشمیر میں  نظریاتی سیاست کی آمد ، ارتقاء اور مستقبل پر بات کرنے سے پہلے جدید سیاسی نظریات  سے  بنیادی واقفی یعنی تعارف ضروری ہے۔ کیونکہ یہ  جدید سیاسی نظریات ہمارے ہاں پیدا نہیں ہوئے تھے ۔ نوآبادیاتی قبضے  کے تعمیر کردہ زرائع سے آئے تھے اور نوآبادیاتی قبضے کے خلاف تحریکوں   کا باعث اور  رہنما بنے تھے۔

انتہائی اہم نقطہ جو آج   ریاست جموں کشمیر میں آزادی اور انقلاب کے لیے سرگرم  تمام کارکنان اور قائدین کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ 1930 ریاست جموں کشمیر میں عوامی سیاست  جن نظریات اور افکار پر سوار ہو کر یعنی ان کی رہنمائی میں اُبھری  وہ نظریات پیدا کہیں اور ہوئے تھے۔ دور بہت دور۔۔ یہ نظریات اور افکار ریاست جموں کشمیر کے اندر ر وہ  ریاستی  باشندے لائے تھے جو برطانوی ہند کے مختلف  شعبوں میں کسی ملازمت یا کاروبار یا تعلیمی اداروں  میں  تعلیمی سفر کے دوران ان نظریات سے واقف  اور متاثر ہوئے  تھے۔ برطانوی ہند میں بھی  یہ نظریات  باہر سے آ رہے تھے۔ ۔۔

 روس سے اور خود برطانیہ سے۔

 روس سے انقلاب کا نظریہ آیا۔روس میں یہ نظریہ کہاں سے آیا ؟  برطانیہ  اور یورپ سے ۔

یہ نظریہ کیا تھا؟   اقتدار  یعنی  راج میں عوام کا حق ہے ۔ حق ملے گا نہیں  چھین کر لینا ہو گا۔ عوامی طاقت سے راج کو زمین بوس کیا جا سکتا ہے۔

برطانیہ سے  براہ راست ووٹ ( جمہوریت)  کا نظریہ  بھی  برطانوی ہند اور پھر کشمیر میں  آیا کہ ووٹ کے ذریعے عوام اقتدار میں شریک ہو سکتے ہیں۔

عوام کو اپنی مشکلات اور پسماندہ حالات کو بدلنے کی امید نظر آئی ۔یہ ممنوعہ دعویٰ کہ حاکم خدا  بنا کر نہیں بھیجتا اور اس کو رعایا ہٹا بھی سکتی ہے آہستہ آہستہ عام رعایا  تک پہنچ گیا۔  ریاست کے اندر یہ سوچ ہر طرف امید بن کر سرگوشیوں میں بیان ہونے لگی کہ مہاراجہ راج  (جس کو وہ ہمیشہ کے لیے خود کا نصیب سمجھتے تھے) سے چھٹکاڑہ پایا جا سکتا ہے ۔

“مہاراجہ کا راج کسان کے ہل پر کھڑا ہے۔ کسان ہل روک لے تو راج زمین بوس ہو جائے گا”

  1932 میں سردار بدھ سنگھ میرپور کے کسانوں سے خطاب میں کہہ رہا تھا۔

دیہاتوں میں کسان اور شہروں میں مزدور اور نئے تعلیم یافتہ طبقے کو اپنے حالات بہتر ہونے کی امید  نظر آئی  تو وہ ان نئے نظریات کے پرچارکوں کے پیچھے چل پڑے ۔ مہاراجہ راج دہل گیا ۔

تاہم  پھر مسائل اور حقوق  کی سیاست جو درحقیقت نظریات کے عملی اظہار کی سیاست تھی  جدید نظریات  کو اس کے مطابق ڈھالنے کی بجائے نظیرات کے بارے میں نظریاتی بحثیں چل پڑیں ۔  نیشنلزم ،  سیکولرازم ، سیاسی اسلام۔ سوشلزم ، کمیونزم ، سرمایہ داری۔  جمہوریت اور انقلاب۔وغیرہ ۔ حقوق کی تحریک و سیاست اور عام انسان    نظریات کی بحثوں کے نیچے دب گیا۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.