تحریر. محمد اکبر خان
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ روانہ ہوا تو یہی خیال تھا کہ دیار نبوی صل اللہ علیہ والہ وسلم میں بھی ہمارا ہوٹل حرم نبوی کے قریب ہی ہوگا مگر جب ہماری بس ہوٹل کے قریب رکی تو معلوم ہوا کہ اس بار قیام گاہ قدرے فاصلے پر ہے. معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ کا یہ علاقہ السیح کہلاتا ہے. دیار نبوی صل اللہ علیہ والہ وسلم میں چند روز گزارنے کے بعد ہم سب زیارات کے لیے ایک بس میں روانہ ہوئے مختلف تاریخی مقامات کی زیارات کرتے ہوئے سب سے آخر میں جبل سلع کے دامن میں مقام غزوہ خندق پہنچنے جہاں کبھی سات مساجد ہوا کرتی تھیں جن میں سے پانچ تو اب بھی موجود ہیں مگر وہاں ہمارا قیام نہایت ہی مختصر رہا وہاں نکل کر ہماری بس کچھ ہی دور چلی ہوگی کے مجھے وہ ہوٹل نظر آگیا جہاں ہم. مقیم تھے بس رکوا کر ہم سب اتر گئے مگر مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ ہماری قیام گاہ جبل سلع کے قریب ہی ہے گوگل نقشے میں دیکھا تو اس بات کی تصدیق ہو گئی ہمارے ہوٹل سے مقام غزوہ خندق اور حرم نبوی تقریباً یکساں فاصلے پر واقع تھے.ہوٹل سے باہر نکلتے ہی سامنے نظر آنے والا پہاڑ جبل سلع ہی تھا جس کے دوسری جانب وہ. تاریخی مقام واقع ہے جہاں غزوہ خندق پیش آیا. میں نے اپنی تشنگی کو دور کرنے کا سوچا اور ایک دن فجر کی نماز ادا کرکے ہوٹل آیا کمرے میں ہی ناشتہ کیا اور جبل سلع کے دامن میں واقع تاریخی مقام کی جانب چل پڑا گو موسم گرم تھا سورج کی تمازت بھی کافی تھی مگر کوئی خاص دقت پیش نہ آئی اور شاید دس پندرہ منٹ بعد ایک موڑ مڑتے ہی بالکل غیر متوقع طور پر میں نے خود کو اس جگہ موجود پایا جہاں معرکہ خندق پیش آیا تھا. سڑک کے بالکل ساتھ ہی مسجد سعد بن معاذ رض واقع ہے جسے مسجد بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی کہا جاتا ہے اس تاریخی مسجد کی محض چند فٹ بلند دیواریں اور محراب کا نشان بنا ہی باقی رہ گیا ہے مسجد میں کے چاروں طرف آہنی جنگلا نصب کرکے اسے محفوظ کر دیا گیا ہے. اس سے کچھ دور قدرے جبل سلع کی بلندی پرمسجد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ایستادہ تھی جو کافی بہتر حالت میں تھی اندر برآمدہ اور نماز ادا کرنے کا چھوٹا سا کمرہ بھی موجود تھا اور قالین بھی بچھے ہوئے تھے مگر اس کے گردا گرد تعمیر کردہ آہنی جنگلا بند تھا میں اس جنگلے کو پھلانگ کر اندر داخل ہوا ابھی برآمدے تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ ایک روز دار آواز آئی.. حاجی، یا حاجی پچھے مڑ کر دیکھا تو گاڑی میں بیٹھا ہوا شخص باہر نکل کر مجھے اندر جانے سے منع کر رہا تھا ناچار میں باہر آگیا اب میرا رخ مخالف سمت میں واقع دیگر مساجد کی طرف تھا راستے میں سطح زمین پر ایک قدیم مسجد کی شکستہ عمارت دکھائی دی جو منہدم ہوا چاہتی تھی مگر اس کی دیواروں کو چاروں اطراف آہنی پائپوں سے سہارا دیا ہوا تھا بحالی و مرمت کے باعث اندر جانے کی قطعاً اجازت نہ تھی یہ مسجد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھی . کچھ ہی فاصلے پر ایک احاطے کو عارضی طور پر بنائے گئی رکاوٹوں سے بند کیا ہوا تھا جس کے اندر مسجد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ واقع تھی جو کہ مکمل طور پر منہدم ہو چکی ہے صرف بنیادیں اور کچھ اور آثار باقیات ہیں. اس سے کچھ دور مسجد سلمان فارسی ایستادہ تھی جو کافی بہتر حالت میں ہے اور اسے نوافل ادا کرنے کے لیے کھولا بھی جاتا ہے اس کے ساتھ ہی ایک زینہ اوپر کی طرف کو. جاتا ہے جہاں قدرے بلندی پر مسجد فتح قائم. ہے جہاں سورۂ فتح نازل ہوئی تھی اور جہاں رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز آسا فرمائی تھی میسج فتح کھلی تھی اور لوگ وہاں نوافل ادا کر رہے تھے. اس مقام پر واقع مساجد کی تعمیر پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کو مدینہ منورہ کے مقامی کالے پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے طرز تعمیر خلافت عثمانی کا معلوم ہوتا ہے. جب عمر بن عبدالعزیز رح مدینہ منورہ کے عمال یعنی گورنر مقرر ہوئے تو انہوں نے ان مقامات پر جن کی تاریخی حیثیت کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں نے مساجد تعمیر کر لیں تھیں دوبارہ سے بہت اچھے طریقے سے تعمیر کروایا جس میں مرمت اور بحالی کا کام مختلف ادوار میں ہوتا رہا خلافت عثمانیہ میں انھی مقامات پر واقع کو دوبارہ تعمیر اور بحالی کے مراحل سے گزارا گیا. روایات کے مطابق غزوہ خندق میں جس مقام میں جس شخصیت کا خیمہء یا پڑاؤ تھا وہاں اسی شخصیت کے نام سے مسجد تعمیر کر دی گئی.جبل سلع پر چڑھنے کی اجازت نہیں اس کے گرد لوہے کی مضبوط جالی والی باڑھ نصب ہے. البتہ جو مساجد کھلی ہوئی ہیں وہاں جانے کی اجازت ہے. جس جگہ غزوہ خندق پیش آیا تھا وہاں سعودی حکومت نے ایک نہایت آراستہ اور وسیع خوبصورت مسجد تعمیر کی ہے جس کا نام جامعہ خندق ہے.غزوۂ خندق سن 5 ہجری میں پیشہ آیا اسے غزوۂ احزاب بھی کہتے ہیں ہے، “احزاب کا معنیٰ ہے:بہت سے لشکر”،چونکہ اس جنگ میں کئی قبائل:بنو نضیر، بنو قریظہ، بنو غطفان اور مشرکینِ مکہ سب متحد ہوکر مسلمانوں کے مقابلے کو آئے تھے، اس وجہ سے اس کو “غزوۂ احزاب” کہا جاتا ہے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اس جنگ میں اہل ایران کی مانند خندق کھود کر کفار کے مقابلے کی حکمت عملی اختیار کرنے مشورہ دیا تھا اس مناسبت سے اسے “غزوۂ خندق” کہا جاتا ہے۔
اس غزوہ میں کفار کی تعداد دس ہزار اور مسلمانوں کی تعداد صرف تین ہزار تھی، تقریباً ایک مہینے تک یہ جنگی محاصرہ جاری رہا۔
اس جنگ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ بنو نضیر کو جب حضور انور ﷺنے مدینہ منورہ سے جلا وطن کر دیا تو وہ خیبر میں جا کر بھی شرارتوں سے اور اپنی یہود والی بےہودگیوں سے باز نہ آئے، ان کے بڑے مکہ معظمہ پہنچے اور قریش مکہ سے کہا کہ آؤ ہم تم مل کر داعئی اسلام ﷺسے جنگ کریں اور ان کو، ان کے کام کو اور ان کے ساتھیوں کو، سب کو ختم کر دیں، قریش کو آمادہ کرنے کے بعد یہ لوگ یہودیوں کے سردار قبیلہ بنی غطفان کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ دیکھو محمدﷺسے جنگ کرنی ہے، قریش مکہ نے ہمارا ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا ہے، تم لوگ بھی ہمارے ساتھ جنگ میں شریک ہو جاؤ؛ تاکہ اسلام اور مسلمانوں کا قصہ ہی ختم ہو جائے۔ ان کے علاوہ دیگر قبائل کی جماعتیں بھی جنگ کرنے کے لیے تیار ہو گئیں۔
رسول اللہ ﷺ کو ان لوگوں کے ارادۂ بد کی اطلاع ملی تو آپ علیہ السلام نے حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ مدینہ منورہ کے باہر خندق کھود لی جائے، انہوں نے بتایا کہ اہلِ فارس دشمن سے محفوظ رہنے کے لیے یہ تدبیر اختیار کرتے ہیں، چنانچہ خندق کھودی گئی جو مدینہ منورہ کے اس جانب تھی جدھر سے دشمنوں کے آنے کا اندیشہ تھا، اس خندق کی کھدائی میں سید دو عالمﷺ خود شریک ہوئے، سردی کا موسم تھا اور ہر طرف سے خوف ہی خوف تھا،نبی علیہ السلام نے خود ہی خط کھینچ کر خندق کی حدود مقرر فرمائی اور ہر دس آدمیوں کو چالیس ہاتھ کا رقبہ کھودنے کے لیے دیا، جب دشمنوں کی جماعتیں مدینہ طیبہ کے قریب پہنچی،تو انہوں نے خندق کھودی ہوئی پائی اور کہنے لگے یہ تو عجیب دفاعی تدبیر ہے جسے اہلِ عرب نہیں جانتے تھے، وہ لوگ خندق کے اس طرف رہ گئے اور رسول اللہ ﷺخندق کے اس طرف تین ہزار مسلمانوں کے ساتھ جبلِ سلع کی طرف پشت کر کے قیام پذیر ہو گئے اور عورتوں اور بچوں کو حفاظت کی جگہوں یعنی قلعوں میں محفوظ فرما دیا۔دشمن نے خندق کو پار کرنے کی ہمت تو نہ کی، البتہ کچھ تیر اندازی ہوتی رہی، مشرکین میں سے چند آدمی اپنے گھوڑے لے کر خندق میں اتر گئے، جنہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اس کے بعد دشمن نے خندق پار کرنے کی ہمت نہیں کی. آپ ﷺ جنگ کے لیے آنے والی جماعتوں کی شکست کے بارے میں مسلسل دعائیں کرتے رہے، چنانچہ حضرت عبداللہ ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام یہ دعا کرتے رہے: اے اللہ! کتاب کے نازل فرمانے والے، جلدی حساب لینے والے، ان جماعتوں کو شکست دے اور ان کو ڈگمگا دے۔ اللہ تعالی نے دعا قبول فرمائی اور سخت تیز ہوا بھیج دی جس سے دشمنوں کے خیمے اکھڑ گئے، چولہے بجھ گئے، ہانڈیاں الٹ گئیں، ہوا تیز بھی تھی اور سخت سرد بھی، دشمنوں کی جماعتیں اس سے متاثر ہو کر بھاگ کھڑی ہوئیں،اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہوا کے ذریعے دشمنانِ اسلام کو شکست دے کر واپس کر دیا۔اس غزوہ میں مشرکین میں سے تین آدمی قتل ہوئے:نوفل بن عبد اللہ، عمرو بن عبدِود اور منیۃ بن عبید۔
مسلمانوں میں سے چھ صحابہ شہید ہوئے:حضرت سعد بن معاذ، حضرت انس بن اویس، حضرت عبداللہ بن سہل، حضرت طفیل بن نعمان، حضرت ثعلبہ بن عنمہ اور حضرت کعب بن زید رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ان شہداء احزاب کی قبور مبارک مسجد سلمان فارسی رض کے ساتھ ایک احاطے میں موجود ہیں گو پہاڑ کی بلندی سے اندر دیکھنا ممکن ہے مگر داخلی دروازہ مقفل رہتا ہے. میں وہاں تاریخی آثارِ دیکھنے اور چشم تصور میں کھو کر ان مشکلات کو یاد کر رہا تھا جو مومنین نے رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی سربراہی میں خندہ پیشانی اور قوت ایمانی سے جھیل کر کفار کو ناکام کیا کہ اسی اثناء میں نماز ظہر کا وقت ہوگیا اور میں جامعہ خندق کی آراستہ و پیراستہ خوبصورت مسجد میں نماز ادا کرنے چل دیا.
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.