بزرگ باعثِ نعمت و رحمت/تحریر: آمنہ باسط

بزرگ باعثِ نعمت و رحمت/تحریر: آمنہ باسط

آمنہ باسط

حضرت انسان اللّٰہ عزوجل کی سب سے اعلی اور بہترین مخلوق ہونے کے ساتھ ساتھ اللّٰہ کی پسندیدہ ترین مخلوق بھی ہے. جب اللّٰہ اپنے بندے پر مہربانی کی حد کرتا ہے تو اسے اپنی بہترین رحمتوں سے نواز دیتا ہے۔ پھر کبھی یہ رحمتیں بوڑھے والدین کی صورت میں ہمیں ملتی ہیں۔ کبھی کسی بزرگ رشتےدار کی صورت میں۔ کبھی کسی محنتی استاد کے روپ میں تو کبھی کسی باصلاحیت دوست کے طور پہ۔ اور کبھی کوئی اجنبی ہی  رحمت کی صورت سرِ راہ ہمیں مل جاتا ہے….گویا ہر انسان اللّٰہ کا محبوب ہے اور اللّٰہ عزوجل کسی نہ کسی بہانے سے اپنے  محبوب بندے پر ہر وقت مہربان رہتے ہیں۔

اسی مہربانی کے سبب خصوصی طور پر ہر گھر میں بزرگ ٹھنڈی چھاؤں کی طرح عطا کئے جاتے ہیں۔ کبھی ان کے دعاؤں میں مشغول ہلتے ہوے لب ہمیں نجانے کس کس ناگہانی سے محفوظ رکھتے ہیں. توکبھی ان کی انمول مسکراہٹ دل کا غم باہر نکال پھینکتی ہے۔ کبھی ان کا مشورہ وقت کا بہترین فیصلہ کروا دیتا ہے۔ اور کبھی ان کو صرف محبت سے دیکھ لینا ہی ہمیں حج مقبول جیسا ثواب عطا کروا دیتا ہے۔ سوچیے ہم دن میں کتنی ہی بار ایسا ثواب حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ موقع والدین کی موجودگی کی صورت میں ہر لمحہ ہمیں میسر ہوتا ہے بشرطیکہ ہم اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیں۔

   آیات قرآنی کی روشنی میں حکم

  چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

 “اور جب ہم نے بنی اسرائیل  سے پختہ عہد لیا کہ تم  اللّٰہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کروگے اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو گے۔” ( البقرۃ :آیت نمبر 83)

 ایک اور جگہ دوسرے الفاظ میں کچھ اس طر ح ارشاد فرمایا گیا ہے

 ” اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو”         ( بنی اسرائیل : آیت نمبر 23)

مذکورہ بالا دونوں آیات کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احسن انداز میں معاملات کرنا ہر حال میں فرض کی حیثیت  رکھتا ہے۔ قرآن کریم میں اکثر مقامات پر جہاں اللّٰہ رب العزت کو وحدہ لاشریک ماننے کا حکم ہے وہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا بھی حکم “فیصلہ اور پختہ عہد” جیسے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ گویا اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری دوسرا اہم ترین عمل ہے. اسی طرح انسان جتنا عبادت میں کوشش و محنت کرتا جاۓ اسی قدر والدین سے حسن اخلاق کا بھی اہتمام کرے- بلا شبہ ان امور کے اجروثواب کا وعدہ بارہا مرتبہ قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے جبکہ اس کے برعکس والدین کی نافرمانی و بے ادبی شرک کے بعد دوسرا بڑا گناہ عظیم قرار دیا گیا ہےجس کی وعید یں بھی بار ہا مرتبہ سنائ گئیں ہیں۔

 جس طرح اللّٰہ رب العزت کو ایک ماننے اور والدین کی خدمت اور اطاعت پر دہرے اجرو ثواب کا وعدہ ہے اسی طرح والدین کی نافرمانی ایسا جرم ہے جس کی سزا دنیا میں بھی مل کے رہتی ہے اورآخرت میں تو الامان الحفیظ!

 ہمارا عمومی رویہ اوراس کے نقصانات

     جب رب تعالیٰ کی عظیم نعمت کی صورت میں ہمارے بزرگ بڑھاپے کی طرف گامزن ہوتے ہیں تو جوان اولاد کے خیال میں اے سی والا کمرہ، ٹی وی، موبائل میل یا فی میل نرس خدمت کیلئے کافی ہیں۔ اس پرفتن دور میں مال کی ایسی خدمت کا اہتمام یقینی طور پہ بےشمار اجروثواب کا باعث ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ہاتھ کی خدمت کا اہتمام بھی لازمی ہونا چاہیے جس میں اولاد ذاتی طور پر خود شامل ہو۔ سہولیات،مادی اشیاء اور ملازمین تو دوسرے زرائع ہیں پہلا زریعہ بطور اولاد ہم خود ہیں

مگر ستم ظریفی دیکھیےعین انہی لمحات میں اولاد اور والدین کے مابین وقت کی قلت آڑے آجاتی ہے ۔ ایک طرف پیسہ کمانے کی دوڑ میں بری طرح مصروف اولاد…….. اور دوسری طرف گھر کے ایک کمرے میں موجود بوڑھے والدین ہفتوں اس اولاد کی توجہ اور محبت حاصل نہیں کر پاتے جس کے لیےانھوں نے دن رات کی پراو کیے بغیرمشقت اٹھائ تھی۔

 ایسی لاپروائی اور لاتعلقی ان کمزور ناتواں جسموں کو مزید نڈھال کر دیتی ہے۔ اگر کبھی اولاد دو گھڑی والدین کے پاس بیٹھ جائے تو انکی کسی معمولی سی بات پر بھڑک اٹھنےمیں دیر نہیں لگاتی اور والدین سہم کر رہ جاتے  ہیں۔ ایسے میں گھر سے خیرو برکت اٹھ جاتی ہے اور ناکامیاں گھیرا ڈال لیتی ہیں۔ اور ہم صرف پیسے کے زریعے فرض پورا کرتے کرتے اپنے والدین کو ناراض کر بیٹھتے ہیں وہی والدین جن کیلئے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارک کا مفہوم ہے…….

       “والدین کی رضا میں رب کی رضا اور والدین کی ناراضگی میں رب کی ناراضگی ہے”

  بعض اوقات ہماری حد درجہ لاپروائی کی وجہ سے گھر اور معاشرے کے یہ ستون بہت جلد بستر پر پڑ جاتے ہیں اور یوں چلتی پھرتی زندگیاں مفلوج ہوجاتی ہیں۔ پھر گھر اور معاشرے دونوں پر براہ راست اسکے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کہیں صورتحال اتنی ابتر ہے کہ ان ہستیوں کو بوجھ سمجھ کراولڈ ہاؤسز میں بھیج دیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرح کی نفسیاتی روحانی اور جسمانی بیماریاں اپنے عروج پر ہیں۔

بطور اولاد ہماری زمہ داری  

  بزرگ حضرات ناصرف ہمارے والدین ہیں بلکہ یہ دنیا کی بہترین تجربہ گاہیں بھی ہیں جن سے ہر عمر میں  سیکھا جا سکتا ہے‍ ۔ بطور اولاد ہمارا فرض ہے کہ بہتر خدمت اور دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ان کا ہنر انکی مہارت نسلِ نو میں بھی منتقل کریں تاکہ ملک و قوم کی بہتر انداز میں خدمت کی جاسکے اس ضمن میں ان کے وہ شوق کھو جیں جو انھوں نےاولاد کی تربیت کے دوران کہیں پس پشت ڈال دیے۔ انکے شوق اور زہنی رجحان کے مطابق انھیں صحتمند مصروفیات دیں۔ تاکہ وہ ہمیشہ مضبوط ستون کی حیثیت سے اپنے پیروں پہ کھڑے رہیں۔

   اس سلسلے میں ان کو اپنے کاروبار میں شریک کریں, کوچنگ سنٹر میں لگوادیں جہاں وہ اپنی پسند کا مضمون پڑھا سکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ قرآن پڑھنا نہیں جانتے تومدارس دینیہ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ معاملات زندگی کی وسیع معلومات رکھتے ہیں تو کنسلٹنٹ کے طور پہ اپنی خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔ انکے لیے میرج بیورو بنایا جا سکتا ہے۔ والدہ کو کوکنگ یا سلائ کڑھای کا سنٹر کھلوا کے دیا جا سکتا ہے۔

ان کا موں کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کے آرام میں مخل ہو رہے ہیں یا اس عمر میں ان پہ بوجھ ڈال رہے ہیں  ہم صرف اور صرف ان کی ذہنی خوشحالی اور خود کو تعمیری کاموں میں مصروف رکھنے سے ملنے والی خوشی کی بات کر رہے ہیں۔ بجائے یہ کہ وہ بیٹھے بیٹھے اپنے “بڑھاپے” پہ کڑھ کڑھ کر بیمار ہوں آپ ان کو مثبت عمل کی طرف متوجہ کر دیں۔

 اور یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ باہر کے مختلف امور سر انجام دینے والے بزرگ گھر میں ہر وقت لیٹنے والوں کی نسبت زیادہ صحت مند اور چاق و چوبند ہوتے ہیں۔ کوشش کریں کہ ان کو اپنے ساتھ مصروف رکھیں۔ گھر کا ہر معاملہ ان کے گوش گزار کریں۔ ان کے فیصلےکو اہمیت دیں۔ اپنے ساتھ  قریبی پارک لے جائیں۔ اولادکے ساتھ تازہ ہوا میں ہلکی پھلکی واک ان کی صحت پر بہت اچھا اثر ڈالے گی۔ گاڑی میں ان کو ہمیشہ فرنٹ سیٹ پر بٹھائیں۔ گھر میں ان کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرتے ہوے ہلکے ہاتھوں سے ان کے سر کی مالش کریں ہاتھ پیر دبائیں۔ خود ان کی فزیو تھراپی کروائیں۔ ان کے کھانے پینے اور دواؤں کا خصو صیت سے خیال رکھیں۔ روزانہ ایک مخصوص وقت متعین کریں جس میں پوری فیملی ان کے ساتھ شامل ہو۔

   یاد رکھیے والدین کی پہلی ترجیح آپ ہیں۔ان کو ہرحال میں آپ کا وقت آپ کی توجہ درکار ہے۔دوسرا، والدین جتنے بھی بوڑھے یا کمزور ہو جائیں وہ ہمیشہ اولاد کے لیے ایک چھت ایک سائبان کی حیثیت رکھتے ہیں اپنے سائبان کی حفاظت خود کیجیے ان کی زندگی میں ان کی قدر کیجیے ورنہ بغیر سائبان کے تو کڑی دھوپ روح تک کو جھلسا دیتی ہے…..

 اس سب کے باوجود بھی اگر والدین اپنی بیماری یا زہنی صحت کی وجہ سے اچھا محسوس نہیں کرتے تو درگزر  سے کام لیجیے اور اخلاص کے ساتھ اپنا فرض ادا کرتے رہیے کہ اللّٰہ رب العزت اخلاص سے کی گئی کوشش ہمیشہ قبول فرماتےہیں۔ اللّٰہ کریم آپ کی محنت آپ کی محبت قبول فرمائیں اور ہم سب پہ والدین اور بزرگوں کا سایہ ایمان وصحت کی بہترین حالت میں تا دیر قائم رکھیں آمین


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.