سدرہ افضل دیپالپور
سن 2006 کی بات ہے۔ ہمارے خاندان کاایک قافلہ کا طیبہ جانے کو تیار تھا ۔ جس میں میرے ماموں جان، نانی اماں والدہ حضور، اور خالہ کی مکمل فیملی شامل تھی۔ ہر چھوٹے اور بڑے مسلمان کے دل میں جس طرح مدینے جانے کی آرزو ہوتی ہے، ہمارےننھے منھے سے دل میں بھی روز اول سے موجود تھی۔
اماں جان جب بھی گنگناتی ہم بھی گنگنانے لگتے ۔
میں مدینے چلی آں میں مدینے چلی آں
میرے گل وچ پاؤ، ہار میں مدینے چلی آں
مینوں کرو نی تیار، میں مدینے چلی آں
میری عمر 10 کا ہندسہ عبور کرنے والی تھی، مدینہ جانے کاشوق بڑھتا جارہا تھا، اماں جان کی روانگی کے دن بھی قریب آتے جارہے تھے۔میرے دن رات رونے میں گزرتے، ایک والدہل کے جانے کا دکھ، ایک مدینہ سے دوری کا غم۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ جس دن اماں جان کی فلائٹ تھی، سب کی بورڈنگ کلیر ہوگی سوائے اماں جان کے۔اماں جان کے نام میں کوئ مسئلہ بن گیا، جسکی وجہ سے اماں جان کو روک دیا گیا اور باقی قافلے کو جانے دیاگیا۔
میری والدہ کے لیے یہ بہت کٹھن مرحلہ تھا۔آہ بیچ راستے میں روک لیا جانا، جذبات کے سمندر میں ڈوب جانا، سفر مدینہ سے رہ جانا،اور اپنی والدہ کے ساتھ سفر نا کر پانا۔
ماں بھی کیا عجیب ہستی ہے، میری والدہ کی چاہت تھی کہ اپنی والدہ کے ہمراہ مدینہ جاؤں، اور میری خواہش تھی اپنی والدہ کے ساتھ سفر کرنے کی۔شاید میرے آنسو قبول ہوگئے. اماں جان اس سال قافلے کے ساتھ مدینہ جانے سے رہ گئیں۔
سال 2007 میں اباجان نے ہم سب بہن بھائیوں کو ساتھ لیا، تاکہ لاہور جاکر سب کے پاسپورٹ بنوا سکیں. مابدولت اس وقت مدرسے میں داخل ہو کر 15 پارے حفظ کرچکی تھی۔ آہ کیا سفر ہوا دیپالپور سے لاہور سارے راستے مجھے قے پر قے آتی رہی۔ نڈھال طبیعت ، عجیب سی حالت.میرے بڑے بھائی ازارہ مذاق کہنے لگے.. سدرہ! جب تم جہاز میں بیٹھنا تو ساتھ بوری رکھ لینا۔جتنا تمہیں قے آتی ہے یہ شاپر کسی کام کے نہیں۔
خیر! بابا جان کی معیت میں پاسپورٹ بنوایا. طبیعت خرابی کی وجہ سے خوب خاطر مدارت ہوئ.اور اب میں جاگتی آنکھوں سے مدینہ جانے کے خواب دیکھنے لگی….
سال 2008 میں ہمارے خاندان کا ایک دوسرا قافلہ مدینہ جانے کے لئے تیار تھا: جس میں میرے بابا جان، دادا جان، دادای جان، اور منجھلی پھوپھو اور ان کی مکمل فیملی شامل تھی. إن کے جانے کا علم مجھے اس وقت ہوا جب ان کی روانگی ہونے لگی. ہائے بے قراری کا کیا عالم تھا؛ نا پوچھئے.
قافلہ ہے چلا کل مدینے کو پھر
میں تڑپ اپنی سب سے چھپاتی رہی
دل تھا غم سے بھرا روح رونے لگی
صبر پھر ان کو کرنا سکھاتی رہی
کب حضوری مدینہ ملے گی مجھے
یہ سوالوں کی گٹھری رلاتی رہے
پھر میسر مجھے یہ سفر ہو گیا
میں خیالوں کی دنیا سجاتی رہی
آہ سدرہ مدینہ کی رونق جو تھی
رات دن مجھ کو وہ یاد آتی رہی
یہ بہت گہری چوٹ تھی، جو مجھے لگی، کہ دوسرا قافلہ بھی میرے بغیر ہی چلا گیا.اب دن رات مدرسے میں ایک ہی دعا بہ لب زبان رہتی ۔
الہی دکھادے وہ پیارا مدینہ
عشاء کی نماز کے بعد کلاس لگنے سے پہلے چند منٹ فریش ہونے کے ملتے.میں آسمان کو دیکھتی جاتی. روتی جاتی، کہتی جاتی؛اللہ آپ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم بھی روئے آسمان کو دیکھ کر……..اے اللہ آپ کو قَدْ نَرى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّماء…” آیت کا واسطہ.آپ کو محبوب دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل، کا واسطہ۔
اللہ رب العزت سے چپ چاپ یہ مناجات کا سلسلہ پورا سال جاری رہا،اور سال 2009 بھی آگیا.مدرسہ سے جمعرات کو گھر آئ، تو اماں جان کہنے لگیں، سدرہ! تیرے تائے کی ساری فیملی عمرہ پہ جارہی ہے،، انہوں نے تیرے بھائ کو بھی ساتھ لیکر جانا ہے. تاکہ اپنی بیٹی کا نکاح حرم شریف میں کرسکیں( تایا ابو کی بیٹی میری بھابھی ہیں) اب مسئلہ یہ ہے کہ تمہارے دادا ابو بیمار ہیں ۔تمہارے ابو کہتے ہیں کہ میں نہیں جاتا تم ساتھ چلی جاؤ، پر میرا دل کرتا ہے تجھے بھی ساتھ لے جاؤں،اب تو دعا کر، اگر پیسوں کا بندوبست ہوگیا تو پھر تو بھی ساتھ چلے گی…… میرے تو خوشی سے جذبات بے قابو ہوگیے.آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے. اور دعاؤں کا سلسلہ مزید بڑھ گیا.
اللہ رب العزت کی طرف سے قبولیت ہوچکی تھی.اماں جان ہماری بھی تیاری کرنے لگیں. بالآخر دن رات دعاؤں سے ہمارے جانے کا بھی بندوبست ہوگیا، الحمد للہ. روانگی کا دن جیسے جیسے قریب آرہا تھا، بے قراری بڑھتی جارہی تھی،
اور یہ یقین ہو چلا کہ اب کچھ دنوں کی دوری ہے.
میں نےمدرسے جاکر اپنے اساتذہ کو بتایا.(اساتذہ بہت خوش ہوئے مزیددعاؤں سے نوازا،) ساتھیوں نے دعاؤں کی درخواست کی.کتب کی باجیوں نے ایک کاپی بنا کر اس میں سب کی دعائیں لکھ دیں.اماں جان نے میری باجیوں سے چھٹی لی اور میں روانگی سے ایک دن پہلے مدرسے سے گھر آگئ….
اب میں خوشی سے گنگناتی پھر رہی تھی
سفر سوئے حرم ہے والہانہ، واہ سبحانہ!
سکونِ بے کلی کو آج جانا، واہ سبحانہ!
کبھی کعبے کو دیکھیں گے کبھی گنبد کو دیکھیں گے
رہے گا یاں سے واں اب آنا جانا، واہ سبحانہ!
ہمارے ساتھ کوئی بات ہرگز مت کرو یارو!
سنیں گے اب انھی کا ہم ترانہ، واہ سبحانہ!
ہمارا دل تو کانپ اٹھا ہے سن کر واپسی کی بات
یہ کہتے ہیں کہ زمزم لے کے آنا، واہ سبحانہ!
ابھی سے ہم وہ منظر دیکھتے ہیں دل کی آنکھوں سے
سلامِ عاشقانہ کہنے جانا، واہ سبحانہ!
بلایا ہم سے عاصی کو تو بخشش اب تو بنتی ہے
ہمارا اعترافِ مجرمانہ، واہ سبحانہ!
اسامہ! آج ہم پر آسماں بھی رشک کرتا ہے
ٹھہر جائے اگر یوں ہی زمانہ، واہ سبحانہ! شاعر محمد اسامہ سَرسَری
ہمارا یہ قافلہ چھوٹے بڑے سب لوگوں کو ملا کر 30 افراد پر مشتمل تھا.
تایا ابو نےپوری بس کرائے پر لی.اور ہم شام 6 بجے لاہور کے لیےروانہ ہوگیے۔صبح 7 بجے ہماری جدہ کے لئیے فلائٹ تھی. رات لاہور میں موجود رشتے داروں کے ہاں آرام کیا . اور صبح 6بجے ہم لوگ لاہور ایئر پورٹ پہنچ گئے۔
کاغذات کلئیر ہوتے ساتھ ہی ایک شیشے نما کمرے میں ہمیں داخل کر لیا گیا ۔ سب خواتین اور مرد حضرات نے لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ کے ترانے بلند کرتے ہوئے احرام باندھے…….. احرام باندھتے ساتھ ہی ایک سکوں سا رگ وجاں میں اترتا محسوس ہوا۔ سفید بے داغ احرام میں لپٹی صورتیں۔ خوبصورت مثل فرشتوں کے ہنستے مسکراتے بچے۔ آنکھوں میں ندامت کے آنسو لئے بوڑھے،اور اپنی زندگی میں ہوئے سب گناہوں پر پیشماں، جوان۔ ہر ایک احرام باندھتے ساتھ اپنے گریبان میں میں جھانک رہا تھا۔ یہ سب کی سب آج رحمن کو خوش کرنے چلے تھے ۔ان پر آج رحمتوں کا نزول ہورہا تھا۔
یہ ایک قدم بڑھا کر ابھی راستے میں تھے۔اللہ کی رحمت 2قدم آگے بڑھ کر ان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی ۔
اللہ رب العزت سے سب یہ دعا کررہے تھے ۔کہ اے اللہ! ہمارا باطن بھی ایسا اجلا، اور پاک صاف کر دے، جیسا اجلا اور صاف ہمارا ظاہر ہوچکا ہے ۔
میری زباں پر بھی یہ مناجات جاری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاک مجھ میں کمال رکھا ہے
بس تیری ذات نے سنبھال رکھا ہے
میرے عیبوں پر ڈال کر پردہ
مجھے اچھوں میں ڈال رکھا ہے
اپنے دامن سے کر کے وابستـــہ
ہـر مصیبت کو ٹال رکھا ہے
میں تو کب کی مٹ گئی ہوتی یا اللّٰـــہ
مجھ کو تیری رحمتــوں نے پال رکھا ہے۔
فلائٹ اڑنے سے آدھا گھنٹا پہلے ہمیں جہاز میں سوار کر لیا گیا ۔ میری اور اماں جان کی سیٹ اکٹھی تھی ۔ جہاز کے اگلے حصے سے ہدایات ملنا شروع ہو گئیں ۔سیٹ بیلٹ، باندھ لیں ۔کانوں میں ہینڈ فری لگالیں ۔اور اس کے ساتھ ہی جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کر دیا ۔
مسافروں کی زباں پر لبیک کے ترانے جاری تھے۔ کوئ سونے کی کوشش میں تھا۔اور کسی کو ارد گرد نظر آتے بادلوں میں دلچسپی تھی۔
دو گھنٹے بعد پی آئ اے، فلائٹ کی طرف سے ہمیں بہترین کھانا سرو کیا گیا۔سب نے سیر ہو کر کھانا کھایا ۔چائے اور کولڈرنک سے خود کو تسکین پہنچائ ۔اور پھر واپس اپنی حالت پر لوٹ گئے۔ ساڑھے چار گھنٹے بعد ہمارے جہاز نے جدہ رن وے پر دوڑنا شروع کر دیا ۔سامان وصول کرنے اور کاغذات کلیرنس کروانے میں 3سے 4 گھنٹے لگ گئے۔
جدہ ائرپورٹ سے باہر نکلے، تو ہمارا معلم بس کے پاس ہمارا انتظار کر رہا تھا ۔ بس ہمیں لیکر رہائش گاہ پہنچی ۔جس ہوٹل میں ہوٹل ہم نے ٹہرنا تھا وہ حرم سے دو سڑک کے فاصلے پر تھا ۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد، ہم سب تازہ دم ہوکر جانب حرم کو روانہ تھے ۔
زبانوں پر لبیک، آنکھوں میں اشک ندامت.، نظریں جھکی ہوئیں، بدن کپکپاتے ہوئے، قدم لڑکھڑاتے ہوئے،اور دلوں میں خوف گناہ لئے، ابن آدم اور بنت حوا رب کے حضور حاضری دینے جارہے تھے۔
بتاؤں آپ کو کیا عاشقوں کا کام ہوتا ہے ۔
دل ان کی یاد میں لب پہ ان کا نام ہوتا ہے ۔
جیسے ہی ہم صحن حرم میں پہنچے عشاء کی نماز شروع ہو چکی تھی ۔سب نے امام الشيخ حرم مکہ کی خوبصورت اقتدا میں نماز ادا کی ۔ کیا خوشنما منظر، کیا خوبصورت آواز، اور کیا مبارک لمحے تھے۔بیان سے باہر ہے ۔
نماز سے فارغ ہو تایا ابو نے سب کو اکٹھا کیا، تاکہ سب مل کر عمرہ کرنے چلیں۔ خیال رہے کہ کوئ ایک دوسرے سے بچھڑنے نا پائے، مرد آگے خواتین پیچھے اور بچوں کو درمیان میں رکھیں، اگر کوئ ساتھی قافلے سے بچھڑ جائے، تو یہ سبز گھڑیال کے پاس آجائے، عمرہ مکمل کر کے سب یہاں اکٹھے ہونگے۔” تایا ابو سب کو متوجہ کرتے ہوئے بولے۔
ہمارے ایک عزیز بھی ساتھ تھے ۔ ان کی والدہ بہت زیادہ ضعیف تھیں ۔ اس وقت دفتر سے وہیل چئیر نہیں مل سکی، تو ان کو ان کے بیٹے نے باہر ہی بٹھا دیا ۔ اور خود سب کے ساتھ عمرہ کرنے چل دئے۔
ہم آنکھوں کو جھکائے چلے جارہے تھے، جو نظر اٹھائ تو وہ گھر ہمارے سامنے تھا، جس کی کشش ہمیں کھینچ لائی تھی۔ آج ہم رب البیت کی زیارت کر رہے تھے ۔ وہ چمکتا، ہوا، نور کا محور، تجلیات کا مرکز، روشنیوں سے منور، عطریات سے معطر، وہ رب البیت، بیت اللہ، خانہ کعبہ، ہمارے سامنے تھا ۔
ہم سب بیت اللہ کے نظاروں میں مکمل طور محو ہو چکے، کچھ یاد نہیں تھا کہ کیا مانگا جائے۔
کوئ شخص بھی اپنی حالت میں نہیں تھا ۔ ہر ایک اک نئ حالت زارگم ہوچکا تھا ۔
کعبے کی رونق کعبے کا منظر، اللہ اکبر اللہ اکبر
دیکھوں تو دیکھے جاؤں برابر، اللہ اکبر اللہ اکبر
حمد خدا سے تر ہیں زبانیں، کانوں میں رس گھولتی ہیں اذانیں
بس اک صدا آ رہی ہے برابر، اللہ اکبر اللہ اکبر
تیرے حرم کی کیا بات مولٰی، تیرے کرم کی کیا بات مولٰی
تا عمر لکھ دے آنا مقدر ، اللہ اکبر اللہ اکبر
مانگی ہیں میں نے جتنی دعائیں، منظور ہوں گی، مقبول ہوں گی
میزاب رحمت ہے میرے سر پر، اللہ اکبر اللہ اکبر
حیرت سے خود کو کبھی دیکھتا ہوں، اور دیکھتا ہوں کبھی میں حرم کو
کہ لایا کہاں مجھ کو میرا مقدر، اللہ اکبر اللہ اکبر
یاد آگئیں جب اپنی خطائیں، اشکوں میں ڈھلنے لگیں التجائیں
رویا غلافِ کعبہ پکڑ کر، اللہ اکبر اللہ اکبر
بھیجا ہے جنت سے تجھ کو خدا نے، چوما ہے تجھ کو میرے مصطفٰی نے
اے سنگِ اسود تیرا مقدر، اللہ اکبر اللہ اکب
دیکھا صفا اور مروہ بھی دیکھا، رب کے کرم کا جلوہ بھی دیکھا
دیکھا وہاں اک سروں کا سمندر، اللہ اکبر اللہ اکبر
مولٰی صبیح اور کیا چاہتا ہے، بس مغفرت کی عطا چاہتا ہے
بخشش کے طالب پہ اپنا کرم کر، اللہ اکبر اللہ اکبر
خانہ کعبہ پر پہلی نظر نے ہی یہ اثر ڈالا، کہ ہم جو جو دیکھنے لگےتو پلکیں جپھکے بغیر دیکھے ہی گئے۔اور یہ حالت کیوں نہ ہوتی۔مدتوں کی خواہش پوری ہورہی تھی. یہ دعاؤں کی قبولیت کی گھڑی تھی،۔یہ خدا کے قریب ہونے کے لمحات تھے…..
میرے سامنے وہ گھر تھا، جو روئے زمین سب سے پرانا، سب سے محترم، سب سے مکرم گھرہے۔وہ گھر جسے بیت اللہ، کعبۃ اللہ، بیت حرام اور بیت عتیق کہا جاتا ہے….. میرے سامنے وہ گھر تھا…. جس جگہ ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے ۔میرے سامنے وہ گھر تھا جس کا حج اور عمرہ کیا جاتا ہے ۔
میں اس گھر کی فضاؤں میں کھڑی تھی.جس سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ وہ گھر جو سارے عالم کے لئے مرکز رشدو ہدایت ہے۔وہ گھر جو مسلمانوں کا قبلہ ہے۔وہ گھر جو نور کا محور ہے۔
وہ مقدس گھر جس کے اوپر سیدھ میں ساتویں آسمان پر عرش الہی کےنیچے “بیت معمور” ہے۔عرش پر فرشتے طواف کرتے ہیں اور فرش پر اولاد آدم طواف کرتی ہے…..
نورِ ایمان ، ہدایت کا مَنارہ کعبہ
دل کا چین ، آنکھ کی ٹھنڈک ہے ہمارا کعبہ
سارے انسانوں کا ہے راج دلارا کعبہ
پیارے مولی نے بنایا ہے جو پیارا کعبہ!
“کعب” کہتے ہیں تمام ابھری ہوئی چیزوں کو
نام دیتے ہیں ، جسے رب نے ابھارا ، کعبہ
اس میں رکھی ہے خدا نے تو کشش کچھ ایسی
دیکھنے آتے ہیں عشاق دوبارہ کعبہ!
ملتزم ، رکن ، مقام ، آب ، حطیم و میزاب
جان سے پیارا ہے یہ سارے کا سارا کعبہ
ارض کو رکھتا ہے رشکِ مہ و مہر و انجم
اس کے ماتھے پہ سجا ایک ستارہ کعبہ
نیک لوگوں کی بھی اے یارو! ترقی ہے یہاں
عاصیوں کا بھی اسامہ! ہے سہارا کعبہ (محمد اسامہ سَرسَری)
وہ گھر جسے سب سے پہلے روئے زمین پر بنایا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، إنَّ أوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ للناسِ لَلَّذِي بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً و ہُدیً للناسِ۔
ترجمہ: بلاشبہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ مکہ میں ہے، وہ بابرکت اور انسانوں کے لیے ہدایت کاذریعہ ہے۔
اس گھر کی خصوصیات میں سے مقام ابراہیم علیہ السلام بھی ہے ۔خانۂ کعبہ میں ” مقام ابراہیم” ہے ۔ یہ وہی پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانۂ کعبہ کی تعمیر فرمائی تھی، مقام ابراہیم کی صراحت قرآنِ پاک کی آیت میں ہے:
فِیْہِ آیَاتٌ بَیِّـنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیْمَ (آلِ عمران۹۷)
ترجمہ….. مقام إبراهيم میں واضح نشانیاں ہیں ۔
اسی گھر کے پہلو میں “حجر اسود” موجود ہے ۔ وہ مبارک پتھرجس کو امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔وہ پتھر جو جنت کا پتھر ہے۔سنن ترمذی میں روایت ہے، جس کا مفہوم یہ ہے ۔نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نےفرمایا” حجر اسود” جنت سے اترا ہے۔اور اس وقت وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، پس اس کو انسانوں کی خطاؤں نے میلا کردیا۔
اسی کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خدا کی قسم! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حجر اسود کو اس شان سے نئی زندگی دیں گے کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی، جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے وہ بولے گا اور اس شخص کے حق میں گواہی دے گا جس نے برحق طور پر اس کو چھویا ہے، یعنی حجر اسود دیکھنے میں اگرچہ پتھر ہے؛ مگر اس کی ایک خصوصیت ہے، وہ اس شخص کو پہچانتا ہے، جو بہ نیتِ تعظیم اس کا استلام کرتا ہے اور قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دے گا۔ (سنن ترمذی ۹۴۹)
آدھا گھنٹہ ترستی آنکھوں کو سیراب کرنے میں ہی گزر گیا ۔
حالت زار کچھ اس طرح تھی”
کعبے پہ پڑی جب پہلی نظر کیا چیز ہے دنیا بھول گیا
یوں ہوش و خرد مفلوج ہوئے، دل ذوقِ تماشہ بھول گیا
پھر روح کو اِذنِ رقص ملا، خوابیدہ جنُوں بیدار ہوا
تلٶوں کا تقاضا یاد رہا، نظروں کا تقاضا بھول گیا
کعبے پہ پڑی جب پہلی نظر، کیا چیز ہے دنیا بھول گیا
احساس کے پردے لہرائے، ایماں کی حرارت تیز ہوئ
سجدوں کی تڑپ اللہ اللہ، سر اپنا سودا بھول گیا
جس وقت دعا کو ہاتھ اٹھے،یاد آ نہ سکا جو سوچا تھا
اظہارِ عقیدت کی دھن میں، اظہارِ تمنا بھول گیا
کعبے پہ پڑی جب پہلی نظر، کیا چیز ہے دنیا بھول گیا
پہنچا جو حرم کی چوکھٹ تک،اک ابرِکرم نے گھیر لیا
باقی نہ رہا پھر ہوش مجھے، کیا مانگا لیا کیا بھول گیا
جس وقت برستی ہے رحمت، کعبے میں جمیل اللہ اللہ
خاکی ہوں کتنا بھول گیا، عاصی ہوں میں کتنا بھول گیا
۔اس کے بعد حجر اسود کا اسلام کرتے ہوئے ہم سب نے طواف کرنا شروع کر دیا ۔ سات چکر مکمل ہونے پر سب نے “مقام ابراهيم” پر 2 رکعت نماز نفل ادا کی۔اور اس کے بعد خوب سیراب ہوکر سب نے زمزم پیا۔ زمزم کی جہاں بہت سی خصوصیات ہیں، وہاں ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جتنا پیتے جاؤ دل نہیں بھرتا، پیٹ نہیں بھرتا، سکون بڑھتا جاتا ہے ۔آج سب پیتے جارہے تھے….. ارے آج سے پہلے تو جب بھی کوئ زمزم بھیجتا تھا ۔وہ نپا، تلا، ہوتا۔آج ہی تو موقعہ ملا تھا ۔جی بھر کے زمزم پینے کا……. تو کیسے خود کو سیراب نا کرتے۔
اماں جان کی طبیعت گھر سے ہی کافی ناساز تھی ۔کمر کی ہڈی کا مسئلہ تھا زیادہ پیدل نہیں چلا جاتا تھا، وہیل چئیر نا ملنے کی وجہ سے پیدل طواف کیا ۔تو طبیعت مزید بگڑ گئ…..بھائ جان کے سہارے چلتے ہوئے اماں جان صفا مروہ کی سعی کرنے لگے ۔پانچویں چکر پر اماں جان کے پاؤں اٹھنے سے انکاری تھے….. وہاں ارد گرد کچھ لوگ وہئیل چئیر لیکر پھر رہے تھے….. 3 چکروں کے لئے انہوں نے 100 ریال وصول کئے اور یوں پھر وہئیل چئیر پر اماں جان کو سعی کروائ…… بلکہ پورے مہینے جو ہمارا حرمین شریفین میں گزرا، اماں جان کا آنا جانا وہئیل چئیر پر ہی رہا( جو بھائ جان نے اپنا کارڈ جمع کروا کے وصول کر لی تھی) …. سارے سفر میں اماں جان کی پھر طبیعت نا سنبھل سکی…..
تو بات چل رہی تھی.صفا، مروہ، کی وہ مقدس پہاڑیاں، جن پر اماں ہاجرہ دوڑتی رہیں۔اللہ رب العزت نے سنت ھاجرہ کو قبول کیا اور جاری کردیا۔صفا و مروہ کی سعی کرتے وقت زیادہ رش نہیں تھا سب نے بےفکر ہوکر سعی کی، بچے کبھی آگے دوڑتے،کبھی پیچھے۔حجاج کرام ان کو دیکھ کر محبت کا اظہار کرتے۔خاص طور پر میرے تایا ابو کا اڑھائی سالہ بیٹا، “مبشر” (جو بہت شرارتی تھا اور ہے) اور احرام باندھے بہت ہی پیارا (ماشاء اللہ) لگ رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر سب خوش ہوتے رہے۔یوں ہم نے صفا مروہ کی سعی مکمل کی۔اور ہم سب سبز گھڑیال کے پاس جمع ہو گئے.تایا ابو نے اپنا حلق کروایا.اور تائ اماں کے بال کاٹے. اور تائ اماں نے ہم سب کے بال کاٹے.اور ہم احرام کی پابندیوں سے نکل گیے۔
ذرا سا ریلکس ہوئے تو ہمارے وہ عزیز جن کی والدہ کو ہم باہر بٹھا گئے تھے وہ کہنے لگے میری والدہ نہیں ہیں، یہاں، میں ارد گرد سارا دیکھ آیا ہوں. یہ سن کر سب بہت پریشان ہوگئے.. مرد حضرات ان کی تلاش کے لیے نکل پڑے اور خواتین کو وہیں ٹہرنے کا کہا..تھوڑی دیر گزری تھی کہ ایک شخص آیا.اور چاولوں سے بھرے دو بڑے بڑے شاپر ہمیں پکڑا کر چلتا بنا……. اللہ اکبر……. سب کو کھلانے والی وہ ایک ہی ذات ہے.یہ رب کے گھر میں ہماری پہلی مہمان نوازی تھی. سبحان اللہ
خیر تھوڑی دیر بعد مرد حضرات اماں جان کو تلاش کر لائے اور یوں سب کےسانس میں سانس آیا.
یہ دیکھو دیکھو مدینے مکے بلا لیا ہے ہمیں خدا نے
زمانے بھر کی مصیبتوں سے بچا لیا ہے ہمیں خدا نے
یہاں کی دنیا ، یہاں کا عالم نرالی دنیا نرالا عالم
خود اپنی دنیا سے آج گویا اٹھا لیا ہے ہمیں خدا نے
بنا سکے ہم نہ ان کو اپنا، نہ خود کو ان کا ہی کر سکے ہم
خود اپنے فضل و کرم سے اپنا بنا لیا ہے ہمیں خدا نے
نہ نفس ہم کو کہیں کا رکھتا ، نہ ہم کو شیطان چھوڑ دیتا
نبی کے روضے کے سائے میں اب چھپا لیا ہے ہمیں خدا نے
نہ جانے کتنی بلاؤں میں ہم گھرے ہوئے تھے ، پھنسے ہوئے تھے
بس اپنے پیارے نبی کے صدقے چھڑا لیا ہے ہمیں خدا نے
تڑپنے والو! لگے رہے تم ، تمھاری باری بھی آرہے گی
یہ دیکھو خود تم، خود آکے ہم کو تو آ لیا ہے ہمیں خدا نے
اسامہ! ہم کو سب اہلِ دنیا سمجھ رہے ہیں، ہم اولیاء ہیں
مواجہے کے لیے یہ چن ہم کو کیا لیا ہے ہمیں خدا نے
محمد اسامہ سرسری
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.