شمس رحمان

کیا ہوا؟
پچھلا پورا ہفتہ برطانیہ  میں ہونے والے نفرت انگیز ، منافرانہ   اور متشددانہ مظاہرے دیکھنے ، ان کے بارے میں پڑھنے اور اپنی  جذباتی کیفیت کو کو متوازن رکھنے کی حالت میں رہنے کے بعد، آج صبح جاگتے ہی بہت اچھی خبریں سُننے، دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں۔  چند روز مسلسل توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد  بائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر   یہ اعلان پھیلایا گیا تھا کہ  کل یعنی بدھوار 07 اگست 2024 کو برطانیہ بھر میں ایک سو سے زاہد  مقامات پر امیگریشن کے خلاف مظاہرے ہوں گے  جن کا نشانہ امیگریشن پر معلومات و صلاح  دینے والے اور پناہ گزینوں  کی عارضی پناہ گائیں ہوں گی۔ تاہم کل بائیں بازو والے تو چند ہی مقامات پر معمولی تعداد میں نکلے لیکن نسل پرستی کے مخالف ہزاروں کی تعداد میں ان تمام مقامات پر نکل آئے جہاں  دائیں بازو والے  انتہا پسندوں کے  مظاہرے یا حملے کا خطرہ تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ ریاستی ادارے بھی حیرت انگیز طور پر  اپنا کام خوش اسلوبی سے نبا رہے ہیں۔   اس وقت  تک دائیں بازو کے 500 کے قریب افراد کو تشدد کرنے اور یا تشدد پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کر کے ایک سوچالیس سے زاہد پر مقدمات بھی قائم کر دیے۔ ان میں سے  دو درجن کے قریب  کو سزا بھی سنائی جا چکی ہے  ۔  کہا جا رہا ہے کہ اس تعداد میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ  پولیس کی طرف سے ویڈیوز کے زریعے  مطلوب افراد کو پہچان کر  چھاپے مار کر گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔

مظاہروں آغاز
بائیں بازو کے انتہاپسندوں کی طرف سے  مظاہروں کا یہ سلسلہ 29 جولائی کو     برطانیہ کے    معروف  شہروں لیور پول اور بلیک پول کے درمیان ایک نسبتاً چھوٹے ساحلی شہر  ساؤتھ پورٹ میں   تین بچیوں کے قتل   کی خبروں کے بعد شروع ہوا  جن کی عمریں چھ ، سات اور نو سال تھیں۔ خبروں کے مطابق  یہ بچیاں مشہور امریکی گلوکار سوئفٹ ٹیلر کی موسیقی کی طرز پر ڈانس اور یوگا کی کلاس میں تھیں کہ صبح  کوئی ساڑھے گیارہ  بجے کے قریب  ایک نوجوان لڑکا  آیا اور اس نے   بچوں پر بلا تمیز چاقو سے وار کرنا شروع کر دیے۔  دیکھتے ہی دیکھتے کتنی ہی بچیاں اور موقع پر موجود دو بالغ افراد زخمی ہو گئے  جن میں سے تین بچیاں جان کی بازی ہار گئیں۔ چونکہ برطانوی قوانین کے مطابق مجرم کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو تو اس کا نام ظاہر نہیں کیا جاتا اس لیے  قاتل کا نام معلوم نہ ہونے کے باعث  بائیں بازو کے  نسل پرستوں اور  اسلام بیزار  وں نے سوشل میڈیا پر پھیلا دیا کہ قاتل مسلمان ہے اور ابھی حال ہیں میں غیر قانونی  کشتی پر برطانیہ آیا تھا ۔ پھر کیا تھا بائیں بازو کے سرگرما کارکنان اور ان کے حامیوں نے واویلا شروع کر دیا  کہ  دیکھیں مسلمان کیا کر رہے ہیں۔
میرے خیال میں  اس کا اثر اس لیے بھی زیادہ ہوا کہ  اس سانحے سے قبل والے ہفتے کے دوران  برطانیہ میں سوشل ،  ریاستی اور تجارتی میڈیا پر  مانچسٹر ائیر پورٹ پر پیش آنے والے واقعے کے بارے میں  نت نئی معلومات اور تبصرے گردش کر رہے تھے۔  ویڈیو جس میں ایک پولیس والا زمین پر اوندھے  گرے ہوئے ایک  غیر مزاحم ، درحقیقت بے بس نوجوان کے چہرے  اور سر پر ٹھوکریں مار رہا تھا۔  پولیس نے  اس پر ایک بیان جارہ کیا کہ لڑکوں نے قبل ازین پولیس کے افسران پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک خاتون پولیس افسر کے ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ اس لیے لڑکوں کو جھگڑا کرنے اور پولیس پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم ویڈیو  کو دیکھ کر پولیس کے طرز عمل کا کوئی جواز کسی سے نہیں بن پا رہا تھا۔  جلد ہی  سینکڑوں مسلمان  نوجوان مانچسٹر اور راچڈیل میں مظاہروں کے لیے نکل آئے۔سوشل میڈیا پر بھی مانچسٹر پولیس کے افسران کی طرف سے شہریوں کے ساتھ اس سلوک پر برطانیہ بھر بلکہ دنیا بھر سے توہ لعنت کی جانے لگی۔ خاندان کے وکیل نے دوسری ویڈیو ریلیز  ہونے سے پہلے  پولیس کے  طرز عمل کے خلاف خوب باتیں کیں۔ ۔  مانچسٹر پولیس کے خلاف خود مختار ادارے کی طرف سے  چھان بین کا اعلان بھی کر دیا گیا ۔   تاہم چند دن بعد مبینہ  طور پر پولیس کی طرف سے ریلیز کی  جانے والی ویڈیو میں  نظر آرہا تھا کہ پولیس والے کی طرف سے  زمین پر گرے ہوئے نوجوان کو ٹھوکریں مارنے سے پہلے اس نوجوان اور اس کے کچھ ساتھیوں نے پولیس پر  حملہ کیا تھا۔ اس کے ویڈیو کے بعد دائیں بازو  اور نسل پرستوں کی طرف سے شو شرابا کیا جانے لگا کہ پولیس پر حملہ کرنے والے  مسلم غنڈوں کو ضمانت پر رہا کیوں کیا گیا۔
اس سے پہلے والے ہفتے کے دوران لیڈز میں روما کمیونٹی کی طرف سے سوشل  سروسز کی طرف سے ایک روما گھر سے  مبینہ طور پر بچے لے جانے کے خلاف  کمیونٹی احتجاج میں پولیس کی گاڑی جلانے اور  ہلا گلا کرنے کی خبر گردش میں رہی۔اس گھرانے  اور کمیونٹی کے بارے میں  پھیلائی جانے والی افواہوں میں ان  کے بھی مسلمان ہونے کا تاثر دیا جاتا رہا۔
اس ماحول میں جب  29 جولائی کو  تین معصوم بچیوں کے قاتل کے بارے میں یہ خبر پھیلائی گئی  کہ وہ بھی مسلمان ہے تو  پہلے سے ہی  اسلامو فوبیا کی مختلف سطحوں پر موجود دماغ بپھر گئے اور بائیں بازو کے انتہا پسندوں اور رہنماؤں نے سوچا کہ اس صورت حال کو لیبر پارٹی کے خلاف اور گلیوں میں اپنا راج قائم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

حکومتی رد عمل
درحقیقت  30  جولائی کو ساؤتھ پورٹ میں جب بظاہر اس قتل کے خلاف احتجاج  میں موجود انتہا پسندوں  کی طرف سے مقامی  مسجد اور پولیس پر حملے  کی ویڈیوز آنا شروع ہوئیں تو  ایسا لگ رہا تھا کہ   اب وہ رکنے والے نہیں۔ اگلے دن جب لیورپول و سندرلینڈ اور پھر کئی ایک شہروں میں  پناہ گزینوں کی عارضی رہائش گاہوں اور مساجد پر حملے شروع ہو گئے تو لگ رہا تھا کہ انگلینڈ اور آئر لینڈ میں  دائیں بازو والے  واقعی گلیوں میں اپنا راج قائم کر لیں گے ۔ ایسا لگنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ  خود  میرے ذہن میں یہ تھا کہ پولیس  ان کے ساتھ سختی سے نپٹنے سے احتراز کر رہی ہے اور حکومت بھی دفاعی طریقہ کار اپنائے گی ۔ لیکن حیرت انگیز  طور پر پولیس ،  لیبر حکومت اور عدلیہ نے  فوری اور سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ۔   مظاہرین کے   ” حق آزادی  اظہار ”   اور ” حب الوطنی” کے بیانیے کو مسترد  کیا اور  ان کے طرز عمل کو مجرمانہ ، خطرناک اور متشددانہ قرار  دے دیا۔ لیبر پارٹی  حکومت کے مختلف  ارکان    نے واضح کیا کہ امیگریشن جیسے معاملات پر مختلف یا تنقیدی یا مخالفانہ رائے اور خیالات رکھنے میں قطعاً کوئی قباعت نہیں لیکن ان کے اظہار کے لیے آپ گلیوں میں نکل کر لوگوں پر اور پولیس پر پتھر نہیں برساتے اور  لوگوں کی رہائشوں کو  آگ نہیں لگاتے۔   پولیس اور وزیر اعظم کئیر سٹارمر کی طرف سے بار بار کہا گیا کہ  قانون توڑنے والے کے ساتھ قانون پوری سختی کے ساتھ نپٹے گا۔  اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔   اس وقت تک 1024 افراد کو گرفتار کر کے 500 سے زائد پر مقدمات قائم ہو چکے ہیں اور کئی کو سزائیں بھی دی جا چکی ہیں۔
قریبی پس منظر
دائیں بازو کی طرف سے برپا کیے جانے والے  ان دنگوں  سے صرف تین  ہفتے قبل 04 جولائی 2024 کو  برطانیہ  میں عام انتخابات منعقد ہوئے تھے جس میں لیبر پارٹی  تاریخی اکثریت کے ساتھ جیتی تھی۔ مختلف انتخابی سروے کاروں نے کئی ماہ قبل ہی اندازے پیش کر دیے تھے کہ اب کی بار لیبر اتنی بڑی اکثریت سے جیتے گی کہ پچھلے تمام ریکارڈز ٹوٹ جائیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔
مجموعی طور پر انتخابی مُہم کے دوران  اگرچہ این ایچ ایس (صحت) ، معیشت، ٹیکس اور ماحولیات وغیرہ جیسے معاملات کو بھی اہمیت حاصل رہی، تاہم لیبر پارٹی کے اندر اور باہر بائیں بازو والوں کے لیے فلسطین کا سوال چھایا رہا، جب کہ ٹوری کے اندر اور باہر دائیں بازو والوں کے لیے امیگریشن  کو  سب سے اہم مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ۔
گزشتہ برس حماس کی طرف سے فلسطین کے مسئلے کو نطر انداز کر کے سعودیہ  کے  اسرائیل اور ایران کے ساتھ بہتر ہوتے تعلقات کے ماحول میں اسرائیل پر میزائل حملے کے بعد سرائیل نے غازہ میں جو انسانیت سوز اور وحشیانہ تباہئ مچاہی  اس کے خلاف دنیا بھر میں مسلمانوں، حقوق انسانی کی تنظیموں ، اقوام متحدہ  اور بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور فلسطین کے ساتھ یک جہتی کرنے والی تحریکوں  کی طرف سے آواز بلند کی گئی۔ اسرئیل  حملوں کو غیر متناسبانہ  قرار دیتے ہوئے کئی حکومتوں نے بھی جنگ بندی کا مطالبہ کیا ۔ تاہم اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کے  جواز کے ساتھ حملے جاری رکھے  اور اسرائیل  کو  امریکہ  اور برطانیہ کی حمایت  حاصل رہی۔ اسرائیلی بمباری اور زمینی کاروائیوں کا نشانہ بننے والے بچوں ، عورتوں، مریضوں ، صحافیوں اور رضاکاروں کی   کٹی پھٹی لاشوں اور  ملبہ بنے گھروں ، ہسپتالوں اور  سکولوں  کی سوشل میڈیا پر بھرمار نے  برطانیہ ، یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں خا ص طور سے نوجوانوں کو شدید متاثر کیا جن میں  مختلف طریقوں سے فلسطینیوں کی حمایت  اسرائیل کی مخالفت کرنے کے رحجان  میں اضافہ ہوا۔

فلسطینی لہر  کا تناظر
برطانوی انتخابات میں فلسطین کے مسئلے کو لے کر مسلم  نوجوان اور جماعتی سیاست میں برائے نام یا نہ ملوث ہونے والے  درمیانی عمر کے مسلمانوں نے   جو کہ روایتی طور پر لیبر پارٹی کے حمایتی رہے ہیں نے   پارٹی کی  طرف سے جنگ بندی کا مطالبہ نہ کرنے  اور پارٹی کے نئے سربراہ کئیر سٹارمر کی طرف سے یہ کہنے کہ اسرائیل کو جوابی حملے  میں کسی حد تک بھی جانے کا حق  حاصل ہے  ، لیبر پارٹی کی شدومد سے مخالفت کی۔ مسلمانوں میں لیبر پارٹی کی مخالفت کے رحجانات اس قدر شدید اور وسیع پیمانے پر ظاہر ہوئے کہ لیبر پارٹی کے اندر اگلے بینچوں پر بیٹھنے والے کئی   سینئر مسلمان ارکان پارلیمان  جن کے انتخابی حلقوں  میں اکثریت ‘ اپنے’ لوگوں کی تھی استعفیٰ دے کر پیچھے چلے گئے ۔   ہر حلقے میں سے کئی مسلمان  فلسطین کے مسئلے پر آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہوگئے۔ کچھ حلقوں میں فلسطین ہی کے نام پر دو دو آزاد  امیدوار میدان میں آگئے۔  وہ حلقے جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود ہے   اور کچھ وارڈوں میں ان کی واضح اکثریت ہے وہاں بڑی جارحانہ مہم چلائی گئی جس میں ووٹوں کے لیے   برادریائی اور مذہبی  تعصب  کے ساتھ ساتھ فرقہ اور علاقہ و قومیت  پرستی  کے رحجانات  بھی   استعمال میں لائے گئے۔ ان حلقوں میں  آزاد امیدواروں کے جیتنے کی توقع کی جارہی تھی ۔تاہم کل ملا کر پانچ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے  بشمول جیرمی کوربن جو کہ لیبر پارٹی کے واضح سوشلٹ  قائد تھے اور جن کو  یہودیوں کے خلاف تعصب  ( سامی مخالف)   رحجانات رکھنے کی بنا  پر  قیادت اور پھر  پارٹی سے بھی نکال دیا گیا تھا۔ جارج گیلووے جو اکثر ایسے حلقوں سے جا کر ضمنی انتخابات لڑتے ہیں جہاں  عوام کے  کسی عارضی    مسئلے کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن کے خلاف  ہونے کہ وجہ سے ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی ہو اس بار وہ راچڈیل کے ایم پی ٹونی لوئیر کی  وفات  سے خالی ہونے والی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں منتخب ہوئے تھے۔ مسئلہ جس نے ہیجانی کیفیت پیدا کر رکھی تھی فلسطین کا ہی تھا۔ عام انتخابات کے لیے مسٹر گیلوے نے  ورکرز پارٹی آف گریٹ برٹن بنائی اور مختلف شہروں میں امیدوار کھڑے کیے۔ تاہم وہ اپنی سیٹ ہار گئے۔
اس ماحول میں لیبر پارٹی نے جیتنے کے بعد فوری طور پر حکومت بنا کر پہلے دن ہی سیاسی پنا گزینوں کو   ان کے کیسوں کا فیصلہ ہونے تک روانڈ ابھیجنے کے ٹوری منصوبے کے خاتمے کا اعلان کر کے   اپنے پانچ بڑے مقاصد کے لیے کام شروع کر دیا۔

ماہرین  کی سوچ
ماہرین کا خیال  تھا کہ لیبر حکومت کے لیے معیشت کو سنبھالنا، ٹوری کی بدنظمیوں کو سدھارنا اور دولت پیدا کر کے قومی صحت اور فلاح و بہبود کےاداروں کو بہتر  اور موثر بنانا   بڑے  چیلنج ہوں گے، لیکن چیلنج  بن رہا ہے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا متشددانہ  سیاسی رویہ اور طرز عمل۔ ظاہر ہے اس کا بنیادی مقصد یا کم از کم اثر عوامی فلاح و بہبود اور معیشت کو سنبھالنے کی مشکلات میں اضافے کی شکل میں ہو سکتا ہے۔
آئندہ کالم میں
ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں برطانیہ میں نسل پرستی  اور اس کی مخالف سیاست  کا جائزہ ۔۔۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact