ازقلم: ڈاکٹرتنزیل الرحمن
قسمت آزمائی کا فیصلہ
دو ہزار چودہ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ڈاکٹریٹ کیلئے ملکی سکالرشپ مشتہر ہوا اور میں نے بھی دوبارہ قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ اس سے قبل بھی ایک کوشش کر چکا تھا لیکن سکالرشپ کیلئے مروجہ ٹیسٹ میں نسبتاً کم نمبر وں کی وجہ سے آزاد کشمیر کیلئے مختص کوٹہ برائے سکالرشپ کیلئے میرٹ پر نہ آ سکا۔ اب کی بار ٹیسٹ دیا تو نمبرپہلے سے کافی بہتر تھے لیکن بہرحال سکالرشپ کیلئے مقابلہ بھی زیادہ امیدواروںکی وجہ سے پہلے سے زیادہ سخت تھا۔ اس لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے پورٹل پر سکالرشپ کیلئے اپلائی کر کے، کچھ زیادہ امید رکھے بغیر معمولات زندگی میں مصروف ہو گیا۔ لیکن ساتھ ہی ایک بے نام امید بھی شامل حال تھی۔۔
ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید
اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو
چکار کالج
اس دوران تعیناتی بطور لیکچرر چکار کالج میں تھی اور کوئی دو تین ماہ بعد موسم بہار میں،کالج سے واپسی پر خط کتابت ایڈرس پر ایک ڈاک موصول ہوئی بنیادی طورپریہ سکالرشپ ایوارڈ لیٹر تھا۔ سجدہ شکر واجب تھا کہ اللہ کریم نے ڈاکٹریٹ کیلئے ایک موقع میسر کیا تھا کہ بہرحال سکالرشپ کے بغیر یہ سفر آسان ہرگز نہ تھا۔
نئے مرحلے
اگلا مرحلہ محکمہ سے عدم اعتراض سرٹیفیکیٹ کا حصول اور کسی ملکی یونیورسٹی میں داکٹریٹ میں داخلہ لینا تھا۔ محکمانہ عدم اعتراض سرٹیفیکیٹ کچھ سپیڈ بریکرز سے گذرنے کے بعد جاری ہو گئی اور کامسیٹ یونیورسٹی اسلام آباد ٹیسٹ اور انٹرویو کے مراحل سے گذرنے کے بعد داخلہ اس ہدایت کے ساتھ مل گیا کہ سمسٹر کے اختتام تک محکمہ سے سٹڈی لیو جمع کروانا ہو گی۔ سٹڈی لیو کے حصول کیلئے پراسس شروع کیا تو یکے بعد دیگر کئی مسائل استقبال کیلئے تیار تھے۔ گو کہ مروجہ سروس رولز کے مطابق مطلوبہ سروس پوری تھی لیکن صاحب بہادر کا کہنا تھا کہ ”اگر کوئی پٹواری سے لیکچرر بن جائے تو وہ سٹڈی لیو کا استحقاق نہیں رکھتا”۔ ان الفاظ نے گو کہ روح تک گھائل کیا لیکن صبر لازم تھا۔ نائب تحصیلداری کو چھوڑ کر پیشہ پیغمبری کو اختیار کرتے وقت کچھ احباب کے کہے گے الفاظ بھی شدت سے یاد آے۔ صاحب بہادر کا مسئلہ میری سابقہ نائب تحصیلدار کی سروس سے زیادہ غالباً سٹڈی لیو کی پوسٹ سے کسی من پسند کو تنخواہ کی ادائیگی تھی یا پھر ”محکمانہ بریفنگ” اور بریفنگ اگر ”صنف نازک” نے دی ہو تو آپ جانتے ہی ہیں کہ نتیجہ محکمانہ انکوائری اورعدم اعتراض سرٹیفیکیٹ منسوخی جیسی سخت تادیبی کارروائی کی صورت میں نکلنا ہوتا ہے، لہذا عدالت کا دروازا کھٹکھٹانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔
آئینہ، خانے میں کھینچے لئے جاتا ہے
اور کون عدالت میں بلاوجہ جاتا ہے
دو جامعات کی رضا مندی
دوسری طرف سمسٹر اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا اور جنوری کی سخت سردی یونیورسٹی سے داخلہ کی منسوخی اور سکالرشپ سے محرومی کا عندیہ ساتھ لائی تھی۔۔۔
شعلوں سے بے کار ڈراتے ہو ہم کو
گزرے ہیں ہم سرد جہنم زاروں سے
بظاہر مشکلات بڑی تھیں، لیکن مشکل حالات سے مقابلہ اس وقت آسان ہو جاتا جب انسان سر بسجدہ ہو کر معاملات اس ذات کے سپرد کر دیتا ہے جس سے بڑا کوئی کار ساز نہیں اور اگر ساتھ والدہ کی ہمہ وقت دعائیں اور ان کی قبولیت کا کامل یقین ہو تو اعصاب کمزور نہیں پڑتے۔
کبھی کشتی بھنور میں پھنس بھی جائے تو کیا غم ہے۔۔۔
یقیں پختہ اگر ہو تو، تبھی ساحل امڈتے ہیں۔۔۔
خیر خواہوں نے مشورہ دیا کہ بہتر ہے کہ مادر علمی جامعہ کشمیر میں مائیگریشن کروا لیں تاکہ کم از کم داخلہ اور سکالرشپ منسوخی سے عدالتی فیصلہ تک بچا جا سکے۔ لہذا استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر رفیق صاحب جو کہ اس وقت شعبہ فزکس کے چیئرمین تھے، کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں مائیگریشن کے لیے رضامندی دی اور مطابقا کامسیٹ یونیورسٹی کی انتظامیہ سے بھی گذارش کی داخلہ منسوخی کے بجائے جامعہ کشمیر میں مائیگریشن کی اجازت دیں تاکہ مستقبل میں اگر سٹڈی لیو کی کوئی صورت نکل آئے تو سکالرشپ منسوخ نہ ہو۔ دونوں جامعات کی رضامندی کی روشنی میں مائیگریشن کا معاملہ کچھ مراحل سے گذرنے کے بعد خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔
بہار کی آمد
خزاں کی رت بدلی، بہار نے انگڑائی لی اور عدالت العالیہ سے بندہ ناچیز کے حق میں اصولی فیصلہ آ گیا۔ معاملہ لیو رولز کے مطابق بہت واضح تھا کہ سٹڈی لیو کے حصول کیلئے مطلوبہ کل سروس پانچ سال ہے اور ایسا نہیں کہ یہ سروس کسی ایک مخصوص محکمہ کی ہو۔ عدالت العالیہ نے نہ صرف اس موقف کو درست مانا بلکہ اضافی طور پر یہ بھی وضاحت کر دی کہ ایڈہاک
سکالرشپ فنڈز کی منظوری
سروس بھی سٹڈی لیو کے حصول کیلئے مطلوبہ پانچ سالہ سروس میں شامل ہوتی ہے۔ عدالتی فیصلہ کی روشنی میں سٹڈی لیو کا فرمان حکومت جاری ہو گیا۔ بہرحال اس قضیہ اور کچھ لوگوں کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ دو سمسٹر ضائع ہونے کی صورت میں نکلا، چونکہ یہاں نئے سرے سے کورس ورک کرنا پڑا۔ یعنی عملی طور پر ڈاکٹریٹ کا آغاز ستمبر 2015ء سے ہوا۔ اب معاملہ سکالرشپ کی بحالی کا تھا اور اس ضمن میں اس وقت شعبہ فزکس کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رؤف خان صاحب کے کردار کا ذکر نہ کرنا نا انصافی ہو گا کہ جنہوں نے سکالرشپ کی بحالی کیلئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کو متعدد لیٹرز لکھے اور بھرپور سپورٹ کیا اور جملہ مطلوبہ کوائف و شرائط پورا ہونے پر بالآخر ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے سکالرشپ فنڈز جاری کر دیئے۔
فطرت کا اصول ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اس شرط کے ساتھ کے مشکل میں ثابت قدم رہا جائے۔ جو ایک قدم بھی منزل کی طرف اٹھے وہ کٹ تو جائے پر پیچھے نہ ہٹے۔ اور ساتھ اگر دعا کیلئے اٹھنے والے والدین کے ہاتھ بھی ہوں تو ناکامی کے خوف کو اپنے اوپر حاوی مت ہونے دیا جائے۔
خوف آیا نہیں سانپوں کے گھنے جنگل میں۔۔۔
مجھ کو محفوظ میری ماں کی دعا نے رکھا۔۔۔
دو ہزار سولہ ء کا سال جامعہ کشمیر سے کورس ورک اور جامع امتحان کلیئر کرنے میں صرف ہوا۔جس کے بعد تحقیق کا اہم ترین اور صبر آزما مرحلہ شروع ہوا۔ ڈاکٹر اظہر خورشید (حال چائنہ) کے ایم فل کے تحقیقی مقالہ کے دفاع کے دوران پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے تحقیقی ادارہ پنسٹک سے ڈاکٹر قیوم صاحب(ڈپٹی چیف سائنٹسٹ) جامعہ کشمیر میں تشریف لائے تو پروفیسر ڈاکٹر رفیق صاحب نے ان سے متعارف کروایا۔ میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر قیوم صاحب لیزر سے پلازمہ بنانے اور اس پلازمہ کی خصوصیات پر تحقیق میں وسیع تجربہ کے حامل ہیں اور اس فیلڈ میں وہ پاکستان کے نامور سائنسدانوں میں سے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سو سے زائد بین الاقوامی تحقیقی مقالہ جات کے مصنف ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی تحقیقی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا ہے۔ میری سابقہ تحقیق لیزر فزکس سے متعلقہ فیلڈ بائیو فوٹانکس میں تھی۔لہذا ڈاکٹر رفیق صاحب کے مشورہ اور ہدایت پر ڈاکٹر قیوم صاحب کے زیر نگرانی کی تحقیق کرنا طے پایا۔
تحقیق کا آغاز
2دو ہزار سترہ ء کے اوائل میں تحقیق کیلئے پنسٹک جوائن کر لیا۔ ایم فل کی ریسرچ فیلڈ سے نسبتاً مختلف ٹاپک، لیزر کی وقتی عدم دستیابی اور پولن الرجی ابتدائی طور پر اہم مسائل تھے، جن سے نبرد آزما ہونا تھا۔ امسال تحقیق کی درست سمت کا تعین اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے بین الاقوامی ریسرچ سپورٹ سکالرشپ پروگرام پر توجہ مرکوز کیے رکھی۔اس پروگرام کے تحت سکالرشپ کیلئے اپلائی کرنے کیلئے دنیا بھر کی دو سو بہترین یونیورسٹیز/ریسرچ سینٹرز کے تحقیقی فیلڈ سے متعلقہ کچھ پروفیسرز سے رضامندی حاصل کرنا ضروری تھی۔ مطلوبہ بین الاقوامی جامعات کے کچھ پروفیسرز سے انٹرویوز وغیرہ کے مراحل سے گذرنے کے بعد رضامندی ملی تو مطابقا بین الاقوامی سکالرشپ کے حصول کیلئے بھی اپلائی کر دیا۔
دو ہزار اٹھارہ ء کے اوائل میں لیزر کی دستیابی پر تحقیق کا باقاعدہ آغاز ہو گیا اور لیزر کے ذریعے گلاس مائیکرو مشینگ کی فیلڈ میں کام شروع کیا۔ پاکستان میں تحقیق کے دوران ایک سٹریس جس سے تقریباً ہر تجرباتی فیلڈ کے محقق کو گذرنا پڑتا وہ تحقیق سے متعلقہ مشین / آلات تک رسائی میں حائل مختلف رکاوٹیں ہیں۔ میری فیلڈ سے متعلقہ ایک مشین ”پروفائلو میٹر” (جو کہ صرف نسٹ میں دستیاب ہے) تک رسائی اور استعمال کی سمجھ بھی کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔
اب کے مئی 2018ء یعنی بہار کے اختتامی مراحل پر، اللہ کریم کے فضل و کرم سے تحقیق کیلئے بین الاقوامی سکالرشپ آئر لینڈ کی مشہور یونیوسٹی ٹرینٹی کالج ڈبلن کیلئے ایوارڈ ہوئی۔ لیکن ابھی عشق کے مذید امتحاں باقی تھے۔ آئر لینڈ ویزہ کیلئے اپلائی کیا، اِدھر موسم خزاں کی آمد آمد تھی اور اُدھر آئر لینڈ کا ویزہ کچھ وجوہات کی وجہ سے مسترد ہو گیا۔
نئی منزل
آئرلینڈ کی متعلقہ اتھارٹی کی ویزہ نہ دینے کی وجہ، اتھارٹی کے مطابق غلط کیٹگری میں ویزہ اپلائی کرنا تھا جبکہ اس سے قبل کئی ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان سکالرز کو اس سکالرشپ کیلئے اسی کیٹگری میں آئرلینڈ کا ویزہ دیا گیا تھا۔ لہذا اس حوالہ سے متعلقہ اتھارٹی کو فیصلہ پر نظر ثانی کیلئے اپیل کی لیکن کئی ماہ تک اس کا کوئی جواب نہ آیا۔ کچھ عرصہ بعد آئرلینڈ میں مقیم ایک جاننے والے سے یہ پتہ چلا کہ توہین رسالت کے معاملہ پر پاکستان میں ہونے والے شدید احتجاج کے پیش نظر آئرلینڈ نے پاکستانی طلبہ کیلئے ویزہ پالیسی میں سختی کر دی ہے۔ دوسری جانب سٹڈی لیو کا آخری سال چل رہا تھا، اس لیے یہ پریشانی بھی لاحق تھی کہ تاخیر کی صورت میں ویزہ مل بھی گیا تو باہر جانا ممکن نہ ہو گا۔ ساتھ ہی ساتھ تحقیق کے دو سال گذر جانے کے باوجود کوئی تحقیقی مقالہ شائع نہ ہو سکا تھا۔ ان سب وجوہات کی وجہ سے کبھی کبھار مایوسی اپنے گہرے سائے پھیلا لیتی۔ بہرحال،
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے۔۔
ویزہ و دیگر معاملات کے حوالہ سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے متعلقہ شعبہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے یونیورسٹی تبدیلی کا مشورہ دیا۔ دوسرا آپشن نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور تھا۔ جو کہ دنیا کی ٹاپ بیس یونیورسٹیز میں سے ایک تھی۔ لہذا ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کو یونیورسٹی تبدیلی کی درخواست دی اور مطابقا متعلقہ کمیٹی نے یونیورسٹی تبدیلی
کی منظوری دے دی اور سنگاپور کیلئے سکالرشپ ایوارڈ لیٹر جاری کر دیا۔
موسم بدل رہا تھا، سنگاپور ویزہ کیلئے اپلائی کیا۔ محترم ڈاکٹر عمران جو کہ آج کل اسلام آباد ماڈل کالج میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہیں، اس وقت ڈاکٹریٹ تحقیق کے سلسلہ میں سنگاپور تھے، ویزہ و دیگر متعلقہ امور کے حوالہ سے مکمل رہنمائی فراہم کرتے رہے۔ اِدھر موسم بہار کی آمد آمد تھی، اُدھر ایک ہفتہ کے اندر ویزہ مل گیا، اسی دوران پہلا تحقیقی مقالہ بھی ایک بین الاقوامی ریسرچ جنرل میں جمع ہو چکا تھا۔
سکالرشپ فنڈز جاری ہونے میں ایک آدھ ماہ صرف ہوا، اس دوران ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان سے متعلقہ امور میں فرشتہ صفت انجنیرفرہاد اللہ کی معاونت شامل حال رہی۔ محترم ڈاکٹر عمران کی اسی دوران پاکستان واپسی تھی، انہوں نے سنگاپور میں ڈاکٹر شرجیل عابد (عابد بھائی) سے غائبانہ متعارف کروایا جو اسی سکالرشپ پروگرام پر سنگاپور اپنے ٓٓڈاکٹریٹ کے ریسرچ پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔ عابد بھائی بھی مختلف امور پر وقتاً فوقتاً رہنمائی دیتے رہے۔ ٹکٹ کنفرم ہونے پر عابد بھائی نے سنگاپور نسء کے قریب ایک پرائیویٹ ہاسٹل میں جہاں وہ خود بھی رہائش پذیر تھے کمرہ بک کر دیا۔سنگاپور کیلئے رخت سفر باندھ لیا، لیکن معلوم نہیں تھا کہ فلائٹ کے دن ایک اور مشکل سے نبرد آزما ہونا ہو گا،
امتحاں سے گزر کے کیا دیکھا
اک نیا امتحان باقی ہے
فلائٹ رات ایک بجے کی تھی، ائیرپورٹ پر بروقت پہنچ گئے، متعلقہ اتھارٹی نے ویزہ و دیگر کاغذات چیک کرنے کے بعد بتایا کہ ویزہ پر ایک سٹیمپ موجود نہیں، کافی بحث تکرار ہوا لیکن متعلقہ آفیسر نے فیصلہ سنا دیا کہ متذکرہ سٹیمپ کے بغیر سفر کی اجازت نہیں دی جا سکتی، متعلقہ ایجنٹ سے رابطہ کریں۔ ایجنٹ سے رابطہ کی کافی کوشش کی لیکن رات کے اس پہر کہاں رابطہ ہوتا لہذا فلائٹ کینسل ہو گئی۔ شدید مایوسی ہوئی اور دل نے دماغ کو پیغام ارسال کیا کہ بیرون ملک تحقیق قسمت میں نہیں لکھی لہذا وقت ضائع نہ کرو۔ دماغ بہرحال یہ ماننے کو تیار نہیں تھا
عابد بھائی نے سنگاپور ائیرپورٹ پر رسیو کرنا تھا، انہیں اطلاع دی کہ ائیرپورٹ نہ آئیں۔ عابد بھائی نے بتایا کہ انہیں متذکرہ سٹیمپ ایجنٹ نے لگا کر دی تھی، اور ساتھ ہی اپنا ویزہ کی تصویر بھی ارسال کر دی۔ انہوں نے فوری ایجنٹ سے ملنے کا مشورہ دیا۔ اگلی صبح ہمراہ کزن حارث سجاد متعلقہ آفس واقع بلیو ایریا، اسلام آباد پہنچا اور ایجنٹ کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا لیکن ایجنٹ نے روایتی پاکستانی انداز میں اپنی غلطی ماننے سے یکسر انکار کر دیا اور کہا کہ ہم نے اس سے قبل کسی کو یہ سٹیمپ لگا کر نہیں دی لہذا اس نے مجھے ہی مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اگلی فلائٹ کے حصول کیلئے ٹکٹ کی رقم کا مطالبہ کیا جس کی ادائیگی قبل ازیں ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے کی تھی۔ اس سب پر اسے عابد بھائی کے ویزہ کی تصویر اور وائس میسج بطور ثبوت دکھانا اور سنانا پڑا اور ساتھ میں یہ بھی بتانا پڑا کہ میرا اگلا پڑاؤ بہرحال چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان آفس ہو گا۔ موصوف کو غالباََ اندازہ ہو گیا اس سب کا نتیجہ کیا نکلنا ہے۔ اسی دوران اس آفس میں ایک سینئر جو یہ ساری گفتگو سن رہا تھا اور غالباً اس ٹریول ایجنسی کا مالک تھا، فوری مخل ہوا اور کہا میں اس معاملہ کو خود حل کرتا ہوں۔ اس نے فوری طور پر ویزہ پر سٹیمپ لگا کر دی اور سنگاپور کی فلائٹ بک کی جو کہ اگلی رات فیصل آباد ائیرپورٹ سے تھی اور ساتھ میں اسلام آباد سے فیصل آباد تک گاڑی کے ٹکٹ کی ادائیگی بھی اپنے ذمہ لی۔
عابد بھائی کے وائس میسج اور ویزہ کی تصویر کے بغیر بہرحال اس مصیبت، جس کی وجہ بہرحال ہمارے کچھ لوگوں کا بے ایمانہ اور منافقانہ رویہ ہے، سے بآسانی نکلنا ممکن نہ تھا۔ اللہ کریم انہیں اس نیکی کیلئے جزائے خیر دیں۔ یہ بہرحال اللہ کریم کی مہربانی تھی کہ جہاں کوئی مشکل آتی وہاں کئی ساتھ دینے والے، اور آسانیاں پیدا کرنے والے مہربان بھی موجود ہوتے۔
سنگا پور روانگی
اگلی رات سنگاپور کیلئے پرواز بھری، عابد بھائی اور میرے غیر ملکی سپروائزر پروفیسر ہونگ کے دو طلبہ سنگاپور کے چانگی ائیرپورٹ پر رسیوو کرنے کیلئے موجود تھے۔ اس سے اگلے دن پروفیسر ہونگ سے ملاقات طے تھی۔ دوران ملاقات پروفیسر نے یہ بتایا کہ سنگاپور میں لیزر کے استعمال کیلئے لائسنس لینا ضروری ہے جو کہ سنگاپور کی انوائرمنٹل ایجنسی دیتی اور اس کیلئے دو تین ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہیں۔ کوئی ایک بھی ٹیسٹ فیل ہونے کی صورت میں لائسنس نہیں ملے گا اور لیزر سے متعلقہ کسی بھی فیلڈ میں تحقیق ممکن نہ ہو گی۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
یہاں کچھ ذکر سنگاپور کے بارے میں کرتا چلو۔ گو کہ مطالعہ پاکستان کے مطابق تو ایشین ٹائیگر ”وطن عزیز” ہے لیکن جنوب مشرقی ایشیا کی چھوٹی سی ریاست ”سنگاپور” جس کا کل رقبہ 734 مربع کلومیٹر ہے،حقیقی ایشین ٹائیگر ہے۔ یہ دنیا کا تیسرا سب سے چھوٹا ملک ہے جسے سٹی سٹیٹ بھی کہا جاتا ہے اور اس کی کل آبادی چون لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ایشیا کے سب سے ایماندار لوگ اسی ملک میں پائے جاتے ہیں۔ دنیا کے صاف ترین ممالک میں یہ آپ کو سر فہرست نظر آے گا۔ سوئز لینڈ کے بعد بلند معیار زندگی، سنگاپور کا ہے۔
ترقی کا نشاں۔۔۔ سنگا پور
سنگاپور تعلیمی نظام، طبی سہولیات، معاشی نظام، صفائی ستھرائی، اور امن و امان کے حوالہ سے دنیا کے بیس بہترین ممالک میں سے ہے۔ سنگاپور کا چانگی ہوائی اڈہ دنیا کا بہترین ہوائی اڈہ ہے اور اسی طرح سنگاپور کی بندرگاہ دنیا کے جدید ترین بندرگاہوں میں سے ایک ہے، جو یورپ اور ایشیا کے درمیان بحری تجارت کا مرکز مانی جاتی ہے۔ دنیا کا سب سے بہترین بوٹینیکل گارڈن اور دوسرا بہترین چڑیا گھر سنگاپور میں ہیں۔ دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر سنگاپور میں ہیں اور دنیا کی اکثر بڑی تجارتی ڈیلز یہیں ہوتی ہیں۔یہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں کھانے پینے کی اجازت نہیں، روڈ پر ٹافی کا ریپر پھینکنے پر 300 ڈالر تک جرمانہ ہو سکتا ہے، سنگاپور کی کسی بھی دکان سے آپ کو چیونگم نہیں ملے گا۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ سنگاپور غالباً وہ واحد ملک ہے جس کے پہلے وزیراعظم لی کوان نے ملائیشین پارلیمنٹ کے سنگاپور کو الگ کیے جانے کی قرارداد منظور ہونے پر سنگاپور کی آزاد ریاست کا اعلان ”روتے” ہوئے کیا۔ 9 اگست 1965ء تک سنگاپور، ملائیشیا کا حصہ تھا، اور اس دن سنگاپور کی باسیوں کی اکثریت، ملائیشیا سے الگ ہونے پر سوگ کی کیفیت میں تھی۔ سنگاپور کو ملائیشیا سے الگ ہوتے ہی کئی مشکلات کا سامنا تھا جن میں اپنی خودمختار حیثیت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروانا سر فہرست تھا۔ چائنا اور انڈیا کی حمایت سے سنگاپور اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ سنگاپور، آج بھی ساؤتھ انڈینز کا دوسرا گھر مانا جاتا ہے اور تامل سنگاپور کی قومی زبانوں میں شامل ہیں۔ سبق واضح ہے، زندہ قومیں اور عالی ظرف انسان کبھی بھی اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کرتے۔ دہشت گردی اور قدرتی وسائل کے فقدان سے لے کر بے روزگاری اور زمین کی کمی جیسے چیلنجز کا سنگاپور کے باسیوں نے لی کوان کی قیادت میں، ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بیسوی صدی کے آخر تک سنگاپور تیسرے درجے کے ملک سے پہلے درجے کے ملک میں تبدیل ہو چکا تھا۔ سنگاپور کی ترقی کا جو راز میں سمجھ پایا وہ انتہا درجے کی ایمانداری، سخت محنت اور ملکی وسائل کا درست استعمال ہے۔ وطن عزیز چونکہ ان خصائل میں ”خود کفیل” ہے اس لیے صرف آبادی کے لحاظ سے ہی دنیا کے دس ممالک کی فہرست (ٹاپ ٹین) میں دکھائی دیتا ہے۔ لی کوان نے سنگاپور کو ترقی کی اس معراج پر لا کھڑا کیا ہے کہ یہاں کے باسی عموماً اپنی عمر کی اسویں (80th) دہائی میں بھی بھرپور، صحت مند اور خوشحال زندگی گذار رہے ہوتے۔سنگاپور میں قوانین پر اتنا سختی پر عمل کیا جاتا ہے جتنی سختی سے ہمارے ہاں ”قوانین کو توڑنے” پر عمل کیا جاتا اس لیئے سنگاپور میں بغیر لائسنس کے لیزر سے متعلقہ فیلڈ میں تحقیق ممکن نہیں۔
سنگاپور میں لیزر کو تحقیق و دیگر کسی بھی مقصد کے استعمال کیلئے لائسنس کے تین ٹیسٹ بنیادی طور پر الیکٹرک سیفٹی، ریڈیشن سیفٹی اور لیزر اور اس کے استعمال سے متعلق بنیادی علم پر مشتمل تھے۔ اللّہ کریم کے فضل و کرم سے ابتدائی چند عشروں میں یہ تینوں ٹیسٹ کوالیفائی کرنے پر لائسنس مل گیا۔ اس دوران پروفیسر ہونگ نے سنگاپور میں تحقیق کیلئے مختلف ٹاپکس (پیپر پلان) پر پریزنٹیشنز لی، اور یکے بعد دیگر دو ریسرچ پلانز کو مختلف سائنسی بنیادوں پر یکسر مسترد کر دیا۔ گو کہ پنسٹک میں تحقیق کا کام شروع کرتے وقت بھی سپروائزر ڈاکٹر قیوم صاحب کی نگرانی میں اس پراسس سے گذر چکا تھا لیکن اب کی بار مقابلہ کافی سخت تھا۔ میری تحقیق کا فوکس گلاس مائیکرو مشینگ کیلئے استعمال کی جانے والی لیزر پلازمہ سے متعلقہ ایک ٹیکنیک تھی اور پروفیسر ہونگ 1998ء میں اس ٹیکنیک کو متعارف کروانے والے پروفیسرز کی سہ رکنی ٹیم کا حصہ تھے اور ان کے پیشِ نظر یہ تھا کہ کسی ایسے پروجیکٹ پر کام کیا جائے جو اس ڈومین میں یکسر مختلف ہو، تا کہ اس تحقیق کو بآسانی کسی ریسرچ جرنل میں شائع کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں پروفیسر ہونگ نے یہ شرط بھی عائد کر دی کے کم ازکم ایک پیپر سنگاپور سے ہی ریسرچ جرنل میں جمع کروانا ہو گا۔
سفر تمام ہوا
تیسری پریزنٹیشن پر جب پروفیسر ہونگ نے یہ کہا کہ ”یہ پلان نیا اور منفرد ہے اور اس میں سائنس بھی ہے” تو تب جا کر کہیں سکھ کا سانس لیا۔ ریسرچ پلان یہ تھا کہ ایک دوسرا لیزر، پلازمہ کو اکسائیٹ کرنے کیلئے استعمال کیا جائے اور اس کے مائیکرو مشینگ پر اثرات کو سمجھا جائے۔ اس طرح ایک واضح سمت طے ہو جانے پر تحقیق کا کام شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ ایک اور اچھی خبر پاکستان سے جمع شدہ تحقیقی مقالہ کے شائع ہونے کی ای میل تھی۔ جس سے یہ محسوس ہوا کہ ڈاکٹریٹ کے سفر کا ایک اہم سنگ میل عبور ہوا۔
یہاں اوقات کار پر عملدرآمد کے حوالے سے بہت سختی تھی، 9 سے 6 لیب کی ٹائمنگ تھی اور اس کے بعد رات نو، دس بجے تک آفس بیٹھنا ہوتا تھا جس دوران دن کو کیے گئے تجربات اور اس کے سائنسی محرکات کے حوالہ سے رپورٹ تیار کرنا ہوتی تھی۔ یہ رپورٹ ہفتہ وار پروفیسر کو جمع کروانا ضروری تھی، ہر جمعرات کو گروپ میٹنگ کا انعقاد ہوتا تھا اور اس میٹنگ میں ہفتہ بھر کے تجربات اور ان کے نتائج کو زیر بحث لایا جاتا تھا۔ پروفیسر ہونگ کی اس لیب میں دو جدید فیمٹو سیکنڈ لیزر موجود تھے اور دستیاب معلومات کے مطابق پاکستان میں کچھ عرصہ قبل تک اس طرح کا کوئی لیز نہیں ہے۔ یہ لیزر سسٹم جہاں ریسرچ اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے کئی خصوصیات کا حامل ہے وہیں اس کی شعاعیں انسانی آنکھ کیلئے انتہائی خطرناک بھی ہیں- اس لیزر کو استعمال کرنے کی باقاعدہ ٹریننگ دی گئی۔ البتہ لیزر کی شعاعوں سے آنکھوں کی حفاظت کے پیش نظر لیب میں بیٹھنے کی اجازت نہ تھی۔ اس سے یہ احساس بھی ہوا کہ مسلسل کھڑے رہنا بھی کوئی آسان کام نہیں اور فورسز میں خدمات دینے والے ہمارے بھائیوں کی زندگی اتنی آسان نہیں ہوتی۔
سنگاپور پہنچ کر یہ طے کیا تھا کہ ہفتے کے چھ دن متذکرہ بالا سخت معمولات میں گذارنے کے بعد، اتوار کا دن بہرحال سنگاپور گھومنے کیلئے مختص رہے گا۔ سنگاپور کی مارکیٹس، روڈز، ٹرانسپورٹ سسٹم سے لے کر کھانے پکانے تک ہر معاملہ میں عابد بھائی کی رہنمائی شامل حال رہی۔ ان کے واپس پاکستان چلے جانے کے بعد بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ رات کو واپسی پر تھکاوٹ کے باعث کھانا کھائے بغیر ہی سو گئے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.