انصار احمد معروفی
بچپن میں زیادہ تر گاڑیوں پر بیٹھنے کا اتفاق اس لیے کم ہوا کہ ہمارے گھر کی اکثر رشتے داریاں اپنے گاؤں اور قصبے میں تھیں، البتہ والد مرحوم حافظ محمد ریاض الدین صاحب کی ایک پھوپھی گھوسی ضلع مئو یوپی میں تھیں، جو وفات پا چکی تھیں، مگر ان  کی اولادیں زندہ تھیں، جن کا ہمارے گھر اور ہم لوگوں کا ان کے گھر آنا جانا قائم تھا، یہ قصبہ ہمارے قصبہ پورہ معروف سے تقریباً 25 کلومیٹر دوری پر واقع تھا، اس لیے وہاں جانے کے لیے سواریوں پر سوار ہونے اور خوشیاں منانے کا موقع ملتا تھا، یہ 1976 کی بات ہوگی، جب سائیکل سواری سیکھنے کا شوق بیدار ہوا، اب تک ہم دوسرے کی گاڑیوں پر سوار ہوکر آتے جاتے تھے، جس کی ڈرائیونگ ہمارے قبضے میں نہیں ہوتی تھی، اس زمانے میں ہمارے محلے میں شاید ہی کسی کے پاس موٹر سائیکل رہی ہو، یا شاید نہ رہی ہو، مگر مجھے صحیح طور پر علم نہیں، دوسروں کو سائیکل چلاتے دیکھ کر شوق ہوتا تھا کہ ہم بھی ایسی سواری پر بیٹھیں جسے ہم خود چلا رہے ہوں۔
وہ وقت قریب آرہا تھا جب ہم سائیکل لے کر نکلیں، اور خود جدھر چاہیں اسے لے جائیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھر سائیکل موجود تھی، مگر اسے گھر سے باہر نکالنے اور لے جانے کا مسئلہ تھا، اس وقت ہمارے گھر کا آنگن کافی وسیع وعریض تھا، صرف دو جانب سے مکان بنا ہوا تھا، پونے دو منڈا زمین کافی کشادہ ہوتی ہے، اس لیے پہلے مرحلے میں ہم نے سائیکل چلانے کی مشق اپنے آنگن سے شروع کی، اس میں پورے طور پر تو سیکھ نہیں سکتے تھے، مگر اس قابل ہوگئے تھے کہ اب خود سے سائیکل باہر نکال سکتے تھے، اس زمانے میں بچوں کے لیے چھوٹی سائیکلیں تنگ دستی کی وجہ سے خریدی نہیں جاتی تھیں، کیوں کہ اکثر گھروں میں سرے سے سائیکل کا وجود ہی نہیں ہوا کرتا تھا۔ آنگن میں قینچی چلانے کی مشق کی ابتدا کے بعد جب سائیکل باہر نکالنے کی ہمت پیدا ہوگئی تب دیگر بچوں کے ساتھ ایک بڑے میدان میں ؛ جسے “اوسرہواں” کے نام سے جانا جاتا تھا ، لے جانے لگا اور ہم عمر بچوں کے سہارے کچھ کچھ قینچی چلانے لگا، اس میں نیچے گرنے اور کسی سے لڑ جانے کا خطرہ کم ہوا کرتا تھا، مگر شروع شروع میں بریک لگانے اور پاؤں رکھ کر سائیکل روکنے کی کشمکش سے گرتے گرتے بچنے میں بھی اکثر چوٹ لگ جاتی تھی،گدی پر بیٹھ کر چلانے کے مقابلے میں اگر چہ یہ طریقہ نسبتاً کم خطرے والا تھا، پھر بھی ہینڈل قابو میں نہیں آتا تھا، مگر شوق کی وجہ سے مشق برابر جاری رہتی تھی، میدان میں جب تک سائیکل ساتھ ہوا کرتی تھی، بدن کے کسی حصے پر کسی زخم اور چوٹ کا مطلق علم نہیں ہوتا تھا، لیکن گھر واپسی کے بعد رات کو چوٹ سے ابھرتی ٹیس سے چوٹ لگنے کا کچھ احساس ہوتا، سائیکل میں چین کور اکثر غائب رہتا جس سے پیر زخمی بھی ہوجاتا اور تیل کے کالے دھبے کا نشان بھی لگ جاتا،سیکھنے کا یہ عمل روزانہ لگا رہتا، اس کا شوق تمام چیزوں پر اتنا غالب تھا کہ مدرسے میں تعلیم کے دوران بچوں میں اسی شوق کی بحث کا چرچا چھڑا رہتا، کبھی طے ہوتا کہ چھٹی کے بعد فلاں میدان میں چلیں گے تو کبھی دوسرے میدانوں میں۔ میدان میں سائیکل کے ساتھ بچوں کی کثیر تعداد سکھانے کے لئے اس وجہ سے بھی زیادہ رہتی کہ انھیں اس سکھانے اور مدد کے صلے میں سائیکل چلانے کا کچھ موقع ہاتھ آ جاتا، کیوں کہ سب گھروں میں سائیکل نہیں رہتی تھی۔ جب کہ ان کے دل میں بھی سائیکل چلانے کا شوق اور جذبہ جوش مارتا رہتا تھا ۔
دونوں وقت مدرسہ چلتا تھا ، اس لیے دوپہر کے وقت میں بھی؛ جس وقت لوگ گرمیوں میں قیلولہ میں مشغول رہتے تھے ، سائیکل لے کر نکل جاتےتھے، عموماً سائیکل شام کو خالی رہتی تھی، مگر دوپہر میں کم مل پاتی تھی، سائیکل سیکھنے کے اس زمانے میں جی چاہتا تھا کہ کب مدرسے کی چھٹی ہو اور ہم لوگ سائیکل لے کر کسی میدان میں نکل جائیں، میدان میں ہماری طرح دیگر لڑکے بھی سائیکل سواری کی مشق کیا کرتے تھے، شام کو عموماً عصر کے بعد فوراً سائیکل لے کر نو دو گیارہ ہو جاتے تھے اور اندھیرا ہونے پر واپس آتے تھے۔ اپنے شوقِ جنوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ اس عروج کو کبھی زوال کا منہ دیکھنا نہیں پڑے گا، ایک بار مدرسے سے شام کو واپسی پر ؛جب کہ ارادہ تھا کہ گھر پہنچتے ہی فورا سائیکل نکالیں گے اور پھر ہوا سے باتیں کریں گے، اس وقت کچھ لوگوں کو دیکھا کہ مئو شہر سے سائیکل سے گھر واپس آرہے ہیں، ہوا مخالف تھی جس کی وجہ سے سائیکل چلانا مشکل ہورہا تھا، مئو سے واپس آنے میں زیادہ محنت خرچ ہونے کی بنا پر وہ لوگ تھک کر لمبی سانس لیتے ہوئے آپس میں کہنے لگے کہ سائیکل آگے بڑھ ہی نہیں رہی ہے، چلانے کی طبیعت ہی نہیں کرتی، ہم نے سوچا کہ یہ کیسے بد ذوق لوگ ہیں جنھیں سائیکل چلانے کی طبیعت نہیں کرتی، ایک ہم ہیں کہ سوچتے ہیں کہ کب گھر پہنچیں اور سائیکل اٹھا لیں۔
اب جب سائیکل کو قینچی نما چلانا سیکھ لیا تو ترقی کرتے ہوئے سوچا کہ اب تک تو ہم گدی نشیں ہوئے ہی نہیں، اصل مزہ تو اس میں ہے کہ گدی پر آرام سے بیٹھیں، ہینڈل پر دونوں ہاتھ ہوں، پیڈل کا پورا چکر گھمائیں اور ہمارے بالکل درمیان میں سائیکل ہو، ضرورت پڑنے پر اچھی طرح گھنٹی بجا سکیں، اور پھر شان سے بڑوں کی طرح سائیکل چلاتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچیں ۔ کیوں کہ قینچی چلانے میں انسان گدی کے نیچے رہتا ہے، اس کا بایاں ہاتھ بائیں جانب کے ہینڈل کو پکڑے رہتا ہے اور دایاں ہاتھ گدی اور ہینڈل کو جوڑنے والے پائپ کو مضبوطی سے تھامے رہتا ہے، گھنٹی بھی دائیں جانب بندھی ہوئی رہتی ہے، اس حالت میں گھنٹی بجانے کیے شوق کی آرزو پوری نہیں ہوپاتی، اس صورت حال میں عموماً پیڈل کو پورا گھمانا مشکل ہوجاتا ہے، تب انسان سائیکل کے بائیں حصے کی جانب لٹکا ہوا رہتا ہے جس سے سائیکل اور اس کے سوار کا بیلنس اچھی طرح قائم نہیں رہ پاتا، اس حالت میں بریک لگانے کے عمل میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب کہ بریک دونوں طرف لگی رہتی ہے، اور پچھلے پہیے کی بریک دائیں جانب ہوا کرتی ہے، جہاں قینچی کی صورت میں ہاتھ نہیں پہنچ سکتا ، یہ اور اسی قسم کی دیگر دشواریوں کی بنا پر اب قینچی والی حالت سے نکل کر ترقی کی رفتار کو تیز کرتے ہوئے گدی پر بیٹھ کر چلانے کی مشق کا خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھنے لگے، مگر اس کے لیے بھی مستقل مشق کی ضرورت تھی، جس کا دارومدار شوق پر تھا، ادھر شوق کی کمی تھی، نہ ہی میدان کی، سائیکل کی کوئی دشواری تھی نہ ہی سکھانے والے عملے کی قلت، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں والی بات تھی۔
آج کے بچے جنھیں بچکانہ سائیکلیں اکثر گھروں میں دستیاب ہیں، بلکہ ان کی عمر سے اور بھی چھوٹے بچے؛ جو پاؤں پاؤں چلنے کے لائق ہوگئے ہیں ، ان کو چلانے کے لیے چھوٹے چھوٹے رکشے اس کثرت سے ملتے اور فروخت ہوتے ہیں کہ بچوں کی ان سائیکلوں اور رکشوں سے دکانیں بھری پری ملتی ہیں۔ یہ بچے قینچی چلانے کے ابتدائی مرحلے سے اس لیے ناواقف ہوتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی بچکانی سائیکلوں نے سائیکل چلانے کے عمل کو بہت آسان بنادیا ہے۔ اب وہ براہِ راست گدیوں پر بیٹھ کر چلانے کا عمل سیکھتے ہیں، اس لیے بچوں کے ساتھ بچیاں بھی سائیکل کی سواری سیکھنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ جب کہ ہمارے دور میں بچیوں کی دسترس سے یہ شوق باہر سمجھا جاتا تھا۔ شہروں کی باتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ چھوٹی چھوٹی سائیکلوں نے سائیکل سواری سیکھنے کے عمل کو اتنا آسان بنادیا ہے کہ انھیں اس شوق کے مرحلے کو طے کرنے میں نہ تو زیادہ چوٹ آتی ہے نہ ہی کسی بڑے میدان میں جانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
بڑی بڑی سائیکلیں ؛ جن کی گدیاں اونچی، پہیے بڑے اور فل سائز ہوا کرتے تھے ان کو چلانے کا ہنر سیکھنے میں چھکے چھوٹ جایا کرتے تھے، مگر سیکھنے کے شوق کےغالب ہونے اور چوٹ کھا کر بھی ہار نہ ماننے کے نتیجے میں اگر سائیکل سوار کے چھکے ایک جانب چھوٹ جاتے تھے تو دوسری طرف سائیکل کے بھی چھکے چھوٹ
کر اس کے انچر پنچر ڈھیلے ہوجاتے تھے اور وہ بچوں کے شوق کے آگے ہار مان لیتی تھی ۔بچے اس سے گرتے تھے، پھر سنبھلتے تھے، گرکر چوٹ کھاتے تھے اور ہاتھ پیر جھاڑ کر یہ کہتے ہوئے اٹھ جاتے تھے:
تمھی نے درد دیا ہے تمھی دوا دینا
اس گرنے میں کبھی سائیکل اوپر گرتی تو کبھی سائیکل سوار اس کے اوپر گرتا، اب چاہے چھری تربوز پر گرے، یا تربوز چھری پر؟ نقصان تو کمزور کا ہی ہونا ہے ۔ لیکن ہزار نقصان اور چوٹ کھانے کے بعد کبھی کسی بچے کو اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑی، نہ اس قلابازی سے کسی مشتاق نے سائیکل سواری کا ہنر سیکھنے سے توبہ کی، گرنے کے ردعمل میں بعض دفعہ اس کا ہینڈل غصے میں کچھ اتنا پیچ و تاب کھاکرٹیڑھا  ہوجاتا کہ صحیح ہونے کا نام ہی نہیں لیتا، کبھی کوئی اور پرزہ اس قدر متاثر ہوجاتا کہ پھر میدان میں پڑے ہوئے کسی پتھر اور اینٹ سے ہی جبرا درست ہوپاتا، اس طرح جب سائیکل گھر آتی تو گھر کے لوگ اسے چلاتے وقت سمجھ جاتے کہ یہ بچوں کے ہتھے چڑھی تھی جس سے اس کی حالت سے اتنی ابتر ہوگئی ہے۔
سائیکل سیکھنے کے دوران لگنے والی چوٹ تو گویا اس شوق کی تکمیل میں مہمیز کا کام کرتی تھی، چوٹ کھانے کا زیادہ تجربہ اس کی گدی پر بیٹھ کر چلانے میں پیش آتا ہے۔ کیوں کہ چلانے والے کا قد چھوٹا ہوتا اور سائیکل بڑی، اس کی گدیاں اونچی اور پہیے فل سائز، جب کہ اس کا ڈرائیور اتنا چھوٹا ہوتا کہ بمشکل ہینڈل تک ہاتھ پہنچ پاتا۔
جب قینچی چلانا سیکھ گئے تو اس کی گدیاں ہمیں اپنی نرم اور رفعت کے حوالے سے دل میں گدگدی پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئیں ، اس طرح پنڈلیوں کا خون کرنے کے لیے ہم سائیکل کی گردن پر بیٹھ کر مشق ناز کرنے لگے۔ مگر اس عمل کو شروع کرنے کے لیے ساتھیوں کے سہارے کی ضرورت تھی، یہ سہولت ہمیں قدم قدم پر میسر تھی۔ ساتھیوں نے کئی طرف سے سائیکل کو پکڑ کر اس پر اپنا قبضہ جمایا، اور پھر اسے ذبح کرنے یا خود ہمیں ذبح ہونے کے لیے دعوت دی، شوق کا غلبہ تھا ، بچپن کی جرآت تھی، ترقی کی حرص سے سرشار ہوکر میدان میں جب اس کی گدی پر پہلی بار بیٹھے اور اس کے ہینڈل کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور پائیدان کو پاؤں سے جب ٹٹولا، تو ایک پائیدان سے اگر پاؤں مس کرتا، دوسرا نیچے بھاگ جاتا، دوسرا قریب آتا تو پہلا بیوفائی کرجاتا، مصیبت یہ تھی کہ ساتھی؛ جو اس وقت اگر چہ ہمارے ساتھی تھے، مگر ان کی حیثیت ہمارے لیے استاد کی سی تھی، جن کا پہلا سبق یہ تھا کہ نظریں نیچے مت کرو، بلکہ اپنے سامنے دور تک دیکھو،ہم تو یہ سمجھے کہ یہ بھی سیکھنے کے ہنر میں داخل ہے۔ وہ دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ہمیں بہت آگے دور تک لے جانا چاہتے تھے، اب مشکل مرحلہ سمجھ میں آنے لگا تھا اور دل کہہ رہا تھا کہ بیٹا! یہ گدی نشینی قینچی والے کی طرح آسان عمل نہیں، جس میں ایک پاؤں زمین کے قریب رہا کرتا تھا اور جس میں ہم  زمین سے بالکل نزدیک رہتے تھے، اب جب گدی نشین ہوگئے تو ایسا لگا جیسا آسمان سے قریب ہو کر زمین سے ہم اچانک بہت اوپر اٹھ گئے ہیں ۔ حکم تھا کہ نیچے پیڈل کی جانب مت دیکھو، وہ آتا جاتا رہے گا، بس آگے آگے دیکھو، ہم اپنے ہم عمر استادوں سے یہ پوچھ نہیں سکے کہ کیا پیڈل کی حیثیت کسی ناچتے مور کے پیر کی طرح ہے؟ جس پر نظر پڑتے ہی رقاصی کی حرکت تھم جائے گی ؟ اور پھر مور کی طرح ہماری سائیکل کے پہیے کو بھی قفل لگ جائے گا ؟
آگے دیکھنے کی یہ لطیف نکتہ سنجی ہمیں آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ اس میں کون سی حکمت پوشیدہ تھی؟ مگر ہم بےچون و چرا ان کے حکموں پر عمل کرنے میں اپنی کامیابی سمجھ کر آگے بڑھے، ایسی اطاعت گزاری تو شاید ہی کسی استاذ کی کی ہوجتنی اپنے ہم عمر سائیکل اساتذۂ کرام کی شعوری طور پر بچپن میں کرچکے ہیں۔ ابتدا میں تو سائیکل کے پیڈل مارنے کی ضرورت اس لیے نہیں پڑی کہ مددگار معلمین نے سارا مورچہ سنبھالا ہوا تھا اور ہمیں صرف آگے دیکھنے کی ہدایت دیے جارہے تھے، خیال آرہا ہے کہ بچپن کے پہلے دور کی کسی مشکل گھڑی میں ہمیں صرف اوپر ہی اوپر دیکھنے کو کہا گیا تھا اور نیچے کام تمام کردیا گیا تھا ۔ اسی حالت میں سون چڑیا اڑ گئی تھی ۔ یہاں کئی تجربہ کار اساتذہ ہمیں گدی پر بیٹھا کر سائیکل کو اپنے ہاتھوں سے دھکیلے جارہے تھے اور ہم دور بہت دور ؛ جہاں تک ہماری نگاہ نہیں پہنچ پارہی تھی، وہاں تک دیکھ رہے تھے، ہم دیکھ رہے تھے کہ ہم سائیکل سے بھی اونچے ہوگئے ہیں اور وہ ہمارے پیروں تلے روندی جارہی ہے، اب اس کے ہینڈل کے دونوں حصے ہماری مٹھیوں میں تھے، اب گھنٹیوں تک بھی ہماری گرفت پہنچ رہی تھی، اب  ہم گھنٹیاں بآسانی بجاکر اپنی آمد کی اطلاع دیتے ہوئے لوگوں کو راستے سے ہٹا سکتے تھے ، جب کہ پہلے ہم قینچی والی صورت میں ان تمام سہولتوں سے دور اور محروم تھے۔
یہ سائیکل تو ہماری تھی جسے کوئی ہم سے صلے کے طور پر فورا مانگنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا ، اس لیے ان ساتھیوں کے سہارے دیر تک ہم گدی نشیں بنے رہے، اگرچہ ہم گدی پر قبضہ کرنے اور بلندی پر پہنچنے سے بڑائی محسوس کررہےتھے مگر سب ہمیں نہ جانے کیوں بہت چھوٹا چھوٹا کہہ کر پکار رہے تھے؟
ساتھی پیچھے پیچھے چلتے چلاتے تھک گئے تھے، اس لیے اگر چہ وہ ساتھ ساتھ دکھائی دے رہے تھے مگر عملی طور پر وہ اپنا سہارے والا ہاتھ کھینچ چکے تھے، مگر کب تک ہم اسے چلاتے؟ پیڈل تھا کہ وہاں تک اچھی طرح رسائی نہ ہونے کے باعث پہنچ سے آزاد تھا، اب سائیکل کی رفتار سست ہونے لگی، پیڈل مارنے اور انھیں ڈھونڈنے کے لیے نیچے دیکھنے کی اجازت نہیں تھی، نتیجہ ظاہر تھا ، بالآخر خوف کی وجہ سے کمر کی ہڈیوں میں ایک ٹھنڈی لہر دوڑ گئی اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ یعنی اندھیرا ایسا چھاگیا کہ پتہ نہیں چلا کہ ہم دونوں میں سے کون نیچے تھا اور کون اوپر؟کون غالب اور کون مغلوب؟ ہمیں لگا کہ ساتھی بھی اب سہارا دیتے دیتے اوب گئے تھے، یوں بھی اس دنیا میں کون کسی کا دیر تک سہارا بننا پسند کرتا ہے؟ جب تک ہم سائیکل سے گر کر نیچے نہیں بیٹھ جاتے تب تک انھیں سائیکل سواری کا موقع ہاتھ نہیں لگتا، اس لیے انھوں نے ہمیں بعد میں اور سائیکل پہلے اٹھائی اور اس پر نہایت پھرتی سے چڑھ کر بولے کہ دیکھو! یوں سائیکل کی سواری کی جاتی ہے ۔ ہم ان کو دیکھ کر رشک کرنے لگے، کہ کب ہم اس طرح بے جھجھک اس کو اپنی مٹھیوں میں قید کرسکیں گے ؟
جب شوق کا گھوڑا بالکل منہ زور ہورہا ہو، تو کب کسی کے قابو میں آتا ہے ؟ اب گدی پر بیٹھ کر سائیکل چلانے کا چسکہ کیا لگا کہ پھر اس شوق کے آگے سارے کھیل ماند پڑ گئے، گاتے گاتے تو آدمی گویا بن جاتا ہے، اور کسی بات کو مستقل سنتے سنتے طوطا بھی انسانوں کی شنیدہ باتیں دہرانے لگتا ہے، بار بار کے روزانہ ریاض اور مسلسل مشق کی وجہ سے جہاں سائیکل کی بلندی سے گر کر چوٹ کھانے میں اضافہ ہوتا جاتا تھا وہیں جھجھک بھی دور ہونے کے علاوہ اب سائیکل پر ہاتھ بیٹھ گیا تھا، اب پیڈل خود بخود زیر قدم آجاتا اور نظریں دور خلا میں پہنچ کر کامیابیوں کا جھنڈا بلندی پر نصب ہوتے دیکھ رہی تھیں ۔
کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے کتنے دشوار گزار مراحل سے گزرے؟ کتنی بار گرے؟ کتنی بار اٹھے؟ اور سیکھنے کے فن کو تجربات سے ہمکنار کرنے کے واسطے کتنے حوادث کے دریا عبور کیے؟ اور سائیکل لے کر مشق کے لئے کتنی دور نکل گئے؟ آج 48 سال گزر جانے کے بعد جب عمر رفتہ کو آواز دیتے ہیں اور ماضی کی حسین یادوں کی جانب مڑ کر دیکھتے ہیں تو خواب سا محسوس ہوتا ہے۔ پیچیدہ راستوں اور پرخطر ماحول کو یاد کرکے بدن میں جھرجھری سی دوڑ جاتی ہے اور پھر مسکراہٹ زیر لب آجاتی ہے ۔
یہ تو سچ ہے کہ گزشتہ زمانے میں سائیکل چلانا سیکھنا نہایت مشکل کام تھا،سائیکل بڑی ہونے کی وجہ سے سواری کے دوران اوپر سے گرنے کی صورت میں وہی سائیکل جو ہماری دوست اور مددگار تھی،اچانک دشمن بن گئی، زمین پر گرنے سے جو چوٹ لگی وہ تو لگی ہی، خود اس سائیکل سے جو چوٹ لگی وہ ناقابل فراموش ہے۔ مگر جس چیز سے تکلیف پہنچی، اس دشمن کی نفرت نے دل میں جگہ نہیں بناسکی، بلکہ گرنے کے بعد پھر اسے اٹھالیا گیا اور وہی عمل دہرایا گیا:
ابھی درخت پہ پتھر چلا رہا تھا میں
گرے ہیں پھل تو انھیں چوم کر اٹھاتا ہوں
اپنی چوٹ سے زیادہ اس کی چوٹ کی فکر کھائے جاتی تھی کہ کہیں اسے کوئی زخم نہ لگا ہو، اس کے ہاتھ پاؤں نہ ٹوٹ گئے ہوں؟ اس کی سلامتی سے دل کو سکون ملتا تھا اور اس کی قربت سے فرحت محسوس ہوتی تھی ۔
یوں جہد مسلسل اور عمل پیہم سے ہم نے اور شاید آپ نے بھی سائیکل سواری سیکھی۔

One Response

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact