ہم میں سے اکثر ننھی کے میاں ہوتے ہیں

اختر شہاب

سوتے سوتے اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ کمرے میں اندھیرا تھا ۔ اس اندازہ ہوا کہ لائٹ نہیں ہےاور  لائٹ جانے کی وجہ سے پنکھا بھی نہیں چل رہا ہے ۔ اسے گرمی کے مقابلے میں سردی زیادہ لگتی تھی  لیکن اس وقت اسے گر می وجہ سے اسے پیاس بھی لگ رہی تھی ۔  وہ اٹھ کے بیٹھ گیا اور اس نے سائیڈ ٹیبل کی طرف ہاتھ بڑھایا یا جہاں اس کی بیوی روزانہ اس کے لئے  تھرماس میں  پانی رکھ دیا کرتی تھی مگر وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔

  اس کی بیوی اس سے بہت محبت کرتی تھی اور اس کی تما م ضروریات کا خیال رکھتی تھی  مگر وہ بھی  اس وقت وہاں موجود نہ تھی ۔ اس اندھیرے اور تنہائی  میں تھر موس کو غائب دیکھ کر نجانے کیوں ا سے  ننھی  کے میاں کا خیال آگیا ۔  اس کے مرنے کے بعد ہی  اس کی بیوی نے   اس کے کمرے میں تھرماس میں پانی رکھنا شروع کیا تھا  ۔

 ننھی پچھلے محلے میں ان کی پڑوسن تھی۔   وہ ایک عمر رسیدہ عورت تھی مگر اس کے باوجود ننھی ہی کہلاتی تھی ۔ ننھی اور اس کے میاں بیوی میں آپس میں  بڑی محبت بھی تھی  لیکن   بچیوں کے بڑے ہو جانے کی وجہ سے   دونوں میاں بیوی ایک  ہی کمرے میں سونے کے بجائے  ایک دوسرے سے الگ سویا کرتے تھے ۔

ابھی وہ سوچ رہا تھا  کہ اٹھ کر جائے  اور فریج میں سے پانی نکال کر  پئے کہ اتنے میں اس کی بیوی موبائل  کی ٹارچ جلائےہاتھ میں  تھرموس  پکڑے  اس کے پاس کمرے میں آگئی۔

 ‘‘لائٹ تو کافی دیر کی گئی ہوئی ہے ۔۔۔۔ ’’اس کی بیوی بولی  ‘‘آپ کی آنکھ اب کھلی ہے۔’’

اس نے بیوی کی بات کا کوئی جواب نہ دیا کیا اور اس کی طرف خاموشی دیکھتا رہا۔

 ‘‘کیا سوچ رہے ہیں ۔۔’’ اس کی بیوی نے پوچھا؟

 ‘‘کچھ نہیں بس ایسے ہی ننھی  کے میاں کا خیال آگیا تھا۔’’

 ‘‘ہائے بےچا رہ!’’۔اس کی بیوی فورا اس کے خیال کی تہہ تک پہنچ گئی اور بولی ‘‘بیوی سے دور ،دوسری منزل پہ اکیلے کمرے میں انتقال ہوگیا  ۔بے چارے کو کو پانی بھی نصیب نہیں ہوا ۔  نہ جانے وہ بیوی سے کیا  کچھ کہنا چاہتا ہو گا۔ خیر میں آپ کا یہ تھرماس رکھنا بھول گئی تھی۔ لائٹ جانے کی وجہ سے سے میری آنکھ کھل گئی تو مجھے یاد آگیا۔ میں یہی رکھنے آئی تھی۔’’

وہ اب بھی کچھ نہیں بولا بس ایک ٹک  اسے دیکھتا رہا۔اتنے میں لائٹ آگئی اور پنکھا چلنے لگا۔۔

 ‘‘میں تو  اے سی میں سونے جا رہی ہوں صبح جلدی اٹھنا ہے۔’’ لائٹ آتے ہی اس کی بیوی  بولی۔

وہ خاموشی سے سے اسے ٹھنڈے کمرے کی طرف سونے جاتے دیکھتا رہا ۔ بے چاری !بلڈپریشر اور دوسرے امراض کی گولیاں جو کھاتی تھی  تو اسے گرمی زیادہ لگتی تھی ۔

محبت کی شدت  اپنی  جگہ لیکن  حقیقت یہ ہے  کہ ضرورت دیواریں  کھڑی کر کےاکثر محبت کو پچھاڑ دیتی ہے !!

٭… ….٭

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact