Sunday, May 5
Shadow

امانت علی کا سفرنامہ / تبصرہ نگار ، محمد اکبر خان اکبر

سفر نامہ نگاری اردو ادب کی مقبول تر اصناف میں شامل ہے ۔ہر سال بہت سے نئے سفرنامے شایع ہوتے ہیں جن سے اس صنف ادب کی مقبولیت کااندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں۔ امانت علی ایسے مصنف ہیں جنہوں نے پہلے سفرنامہ کی اشاعت کے ساتھ ہی ادبی حلقوں میں ممتاز مقام حاصل کر لیا ہے۔امانت علی کا پہلا سفرنامہ “انجانی راہوں کا مسافر” بلاشبہ ایک عمدہ تحریر ہے۔

 

مصنف کے طرز تحریر کی سب سے بڑی اور متاثر کن خوبی سیدھے سادے رواں عام فہم انداز میں سفری احوال رقم کرنا ہے۔پوری کتاب میں کسی ایک مقام پر بھی تصنع یا بناوٹ کا شائبہ تک محسوس نہیں ہوتا ایک ایک جملہ خلوص اور دل سے نکلا ہوا معلوم ہوتا ہے.۔مصنف اس سفرنامے کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ “زیر نظر سفرنامے میں، میں نے کوشش کی ہے آپ کو ان تمام سرزمینوں کی سیر کراؤں جن کو میں نے دیکھا پرکھا اور سمجھا اور آپ بھی میرے ساتھ ان لمحوں کو محسوس کر سکیں”۔

ان کا سفرنامہ پڑھتے ہوئے قاری ان تمام مقامات پر خود کو موجود پاتا ہے جہاں جہاں سے مصنف کا گزر ہوتا ہے. امانت علی سفرنامہ نگاری کے لوازمات سے کماحقہ آگاہ ہیں۔

امانت علی کا یہ سفرنامہ دو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ ترکی کے سفرنامے پر مشتمل ہے جبکہ دوسرے حصے میں مشرقی افریقہ کے خوبصورت ملک کینیا کا احوال درج ہے.۔

پریس فار پیس فاونڈیشن برطانیہ نے اعلی اور معیاری انداز میں اس کی طباعت کی ہے جس میں کئی تصاویر بھی شامل ہیں جن کی موجودگی کے باعث اس سفرنامے کی قدر و قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے.۔

امانت علی صاحب یوں تو انگریزی ادب پڑھاتے ہیں مگر ان کی اردو تحریر بھی بلا کی دل آویزی رکھتی ہے. ان کے ہاں برجستگی، بے ساختگی اور شگفتگی کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔

مصنف نے بیانیہ انداز اپناتے ہوئے حسن و خوبی سے اپنے جذبات اور محسوسات کو سپرد قلم کیا ہے جس میں ادبی رنگ اکثر مقامات پر جلوہ نما ہوتا محسوس کیا جا سکتا ہے استنبول کے گرینڈ بازار کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”خوبصورت نقش و نگار والے فانوسوں اور آنکھوں کو خیرہ کرتی روشنیوں والے دیدہ زیب لیپموں کی دکانیں اس تاریخی بازار کی الف لیلوی فضا کو چار چاند لگا دیتی ہیں”۔

وہ بامحاورہ اور عام بول چال کی زبان میں تجربات سیاحت رقم کرتے چلے جاتے ہیں اور قاری کو حیران کرتے چلے جاتے ہیں ان کی تحریر متاثر ہے جس کی اثر انگیزی ہر ایک ورق سے ہویدا ہے۔

مصنف نے صرف جالب و دلچسپ سفری روداد ہی نہیں لکھی بلکہ تاریخی پس منظر کو بھی نہایت اختصار سے اپنے سفرنامے کا حصہ بنایا ہے۔کنیا کے سفر میں بھی انھوں نے جو کچھ دیکھا جیسا دیکھا تحریر کر دیا کہیں مبالغہ آمیزی یا خیال آرائی کا سہارا نہیں لیا کنیا میں پھیلی مادر پدر آزادی، اور وہاں پائی جانے والی غربت کی سچی منظر کشی پوری دیانت داری سے کی ہے۔

اپنے سفر میں جہاں انھیں کوئی خوبی دکھائی دی اس کا بھی تذکرہ ضرور تحریر کیا ہے۔امانت علی صاحب کی اولین کتاب واقعی ایک عمدہ اور دلچسپی کی حامل ہےمجھے امید بلکہ یقین ہے کہ ان کی آنے والی کتابیں بھی قارئین میں ہاتھوں ہاتھ لی جائیں گیں اور مقبولیت کی نئی منزلوں سے آشنا ہونگی۔

عصر رواں میں کتابوں سے رشتہ استوار رکھنے والے یقیناً تحسین کے مستحق ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact