اچانک اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ چند لمحے تو اسے یہ سمجھنے میں لگے کہ کیا ہوا پھر اسے حساس ہوا وہی خواب تھا۔ اے سی کی موجودگی میں بھی چہرہ پسینے سے تر تھا۔ وہ پھر دوبارہ اس خوف سے نہ سو سکی کہیں پھر یہی خواب میرا تعاقب نہ کرے۔ یہ اس ماہ میں تیسری مرتبہ تھا کہ وہ خوف زدہ ہو کر نیند سے جاگی تو پھر سو نہ سکی تھی۔ وہ سوچتی تھی۔ ” ایسا کیوں اس کے ساتھ ہو رہا ہے؟ کس سے اس خواب کا ذکر کرے بھیا سے؟نہیں وہ پریشان ہو جائیں گے۔ امی سے؟ انہیں تو سو طرح کے وسوسے ہلکان کر دیں گے۔ پھر کس سے کسی سے نہیں، خاموش رہنا بہتر ہے۔“ اس کے دل نے فیصلہ سنا دیا تھا۔
”ارم! ارم!۔“ سجل کی آواز پورے کالج کو نہیں تو گراؤنڈ میں بیٹھے ہر فرد کو ضرور سنائی دے رہی ہوگی۔ ”کیا ہوا اتنا کیوں شور کر رہی ہو؟“ ارم کالج کے گراؤنڈ میں بیٹھی پڑھ رہی تھی اس کے اس طرح آوازیں دینے پر تھوڑا خفگی سے بولی ۔
”یہ دیکھو!۔ اس نے دو کاغذ کے ٹکڑے ہوا میں لہرائے۔
” یہ کیا ہے؟“
اس نے نہ سمجھ میں آنے والے انداز میں پوچھا۔
”بوجھو تو جانیں۔“
”پہیلیاں نہ سناؤ، بتانا ہے تو بتاؤ۔“
”انف تم بھی ناں مزہ کرکرا کر دیتی ہو سسپنس کا۔
یہ ہیں عاطف اسلم کے کنسرٹ کے ٹکٹس۔“
سجل نے پر جوش انداز میں کہا
” تو؟“ ارم کا لہجہ سپاٹ تھا۔
”ارے یہ میرے اور تمہارے لیے ہیں۔“
”افففففف تم جانتی ہو سجل میں چاہ کر بھی نہیں جا سکتی۔“
وہ سنجیدگی سے بولی۔
”کیوں نہیں؟“
”ہمارے ہاں لڑکیوں کی اتنی آزادی پسند نہیں کی جاتی، ہزار مرتبہ سمجھایا ہے تمہیں لڑکیاں بس گھٹنوں میں سر دے کر پڑھتی رہیں، گھر کے کام کریں، زیادہ ہوا تو ٹی وی دیکھ لیں۔“
سجل نے جلانے والے انداز میں کہا۔
” ہاں تو ٹھیک بھی ہے، ضرورت کیا ہے۔ ایک مرتبہ جاؤ گی تو ہی تو پتہ چلے گا نا۔ جب سامنے ہی عاطف اسلم ہو گا اور پھر اس کے ساتھ سیلفی و آٹو گراف۔“
وہ جھٹ سے بولی۔
”کچھ بھی ہو سجل تم جانتی ہو اجازت نہیں ملے گی۔ “
”یار کوئی مسئلہ نہیں، تم کہنا کہ امتحانات نزدیک ہیں کمبائن اسٹڈی کریں گے اور ایکسٹرا کلاس بھی ہے اور تمہاری امی کو تو معلوم ہی ہے کہ ایک ماہ بعد ہی امتحانات ہیں۔“ ”ہاں اور بھیا کو کون منائے گا؟“
” تمہاری امی مان جائیں گی تو تمہارے بھیا کون ہوتے ہیں حکم چلانے والے؟ اپنا غلام سمجھتے ہیں تمہیں، جو اشاروں پر چلانا چاہتے ہیں۔“
” سجل بس کر دو میں نے ہزار مرتبہ کہا ہے میرے بھیا کے بارے میں ایسے بات نہ کیا کرو۔ جان چھڑکتے ہیں وہ مجھ پر۔ بابا کے بعد انہوں نے کس طرح میرا خیال رکھا ہے تم سوچ بھی نہیں سکتی۔“
”ہاں! ہاں لاکھوں بار بھیا نامہ سن چکی ہوں اور ازبر ہو چکا ہے کہ تمہارے بھیا روائتی بھائیوں سے الگ ہیں۔ سلجھے ہوئے جہاندیدہ و تحمل مزاج ہیں۔“
اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے ہار ماننے والے انداز میں کہا۔
ارم محض پانچ سال اور بھیا پندرہ سال کے تھے۔ جب ان کے بابا انہیں خیر باد کہہ کر ابدی نیند سو گئے تھے۔ بابا کی تو صرف پرچھائی ہی اس کو یاد تھی شعوری طور پر تو اس نے اپنے بھیا کو ہی باپ کی ذمہ داریاں نبھاتے دیکھا تھا۔ بابا کی موت نے کم عمری ہی میں احساس ذمہ داری نے بھیا کو سنجیدہ و بردبار بنا دیا تھا۔ حالات کے پیچ و خم کا ماں بیٹے نے مل کر مقابلہ کیا، زمانہ کے گرم تھپیڑوں اور اردگرد کے سرد رویوں نے بھیا کے اندر سے جوانی کی جذباتیت کو ختم کر کے تحمل مزاجی اور عقل سے فیصلہ کرنے کا شعور بخش دیا تھا۔
” مس کہاں کھو گئیں؟“
سجل کی آواز سے وہ چونک گئی، ”اب تم بس چلنے کی تیاری کرو۔ دو دن ہیں، امی سے کہنا واپسی پر سجل کے بھائی خود ڈراپ کریں گے۔“
” تمہارا بھائی ہے کب؟,“
”ارے حارث میرا کزن بھائی ہی تو ہے، وہی تو لایا ہے۔ یہ پاسسز بھی اور اس نے ہتھیار ڈال دیے۔ یہ شاید زندگی کا پہلا جھوٹ تھا جو اس نے امی سے بولا تھا، دل میں تو بڑا ملال تھا لیکن کنسرٹ کی رونق دیکھنے کی خوشی میں وہ اس ملال کو پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ تھوڑی دیر تو وہ بہت جھجکی، اس نے سجل کا بھی نیا روپ دیکھا، جینز شرٹ میں مخلوط ماحول میں لچکتی، تھرکتی، وہ خود بھی کوئی مذہب پرست نہیں تھی ہاں اتنا ضرور تھا کہ اتنی آزادی کو بے حیائی سمجھتی تھی۔
مرد و عورت کے درمیان فاصلہ و حجاب اسے اچھا لگتا تھا۔ کنسرٹ تو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اور گھڑی کی سوئی کے ساتھ ساتھ اس کا دل بھی دھک دھک کر رہا تھا۔
” ساڑھے گیارہ بج گئے۔ بس بہت ہو گیا اب چلو بھی۔“
اس نے سجل کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا۔
”ارے بس یہ والا اور شب
اففف۔“
” یہ کہتے کہتے تمہیں آدھا گھنٹہ ہو گیا۔“
وہ بمشکل اس ہجوم میں سے چلتی ہوئی باہر آئی۔ کنسرٹ سے واپسی پر راستے میں حارث و سجل نے اسے خوب باتیں سنائیں۔
”اچھا اب کھانا تو کھا لو، “
لیکن وہ رو دی کہ پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے، ہاتھوں کتابیں تھامے وہ جب گھر میں داخل ہوئی تو بھیا کو اپنے انتظار میں بے چین پایا۔ ”وقت تو دیکھو اتنا بھی کیا پڑھنا؟“ نظریں تو اس پر جم ہی گئیں۔
” تم سجل سے فاصلے پیدا کرو۔“ انہوں نے سرد لہجے میں بس اتنا کہا اور چلے گئے۔
” ایک تو انہیں واقعی سجل سے کوئی مسئلہ ہے۔ اتنی اچھی تو ہے وہ، کتنا انجوائے کرایا مجھے اس بار اپنے بھیا سے بھی بدگماں ہوئی۔“
” اچھا اب آرام کرو، چائے پئیو گی؟ سارا دن پڑھائی سے تھک گئی ہو گی۔“
امی کی اس محبت نے ایک بار پھر اسے اپنے جھوٹ پر نادم کیا، اگلے دن کالج میں جی بھر کر دونوں نے کنسرٹ پر تبصرے کئے۔
اس کے بعد کوئی دن ایسا نہ گزرا جب سجل نے اپنی پارٹی ہوٹلنگ و شاپنگ کے قصے نہ سنائے ہوں۔
اور وہ اس کی تفریح سے بھر پور زندگی پر رشک کرتی۔ کچھ ہی دن بعد وہ پھر کسی کنسرٹ کے ٹکٹ لائی۔ جو کسی مشہور ہوٹل میں منعقد تھا، پہلے تو اس نے انکار کیا۔ پھر دل کے ہاتھوں مجبور ہو گئی۔ جس دن اس نے حامی بھری۔ اسی رات اس نے پھر وہی خواب دیکھا، لیکن صبح ہوئی تو پھر اس خواب کے سحر سے باہر آ گئی۔ وہ اسی طرح پھر سے جھوٹ بول کر گئی۔ اب کے دل میں ندامت کا احساس کم تھا، امی نے تاکید کی کہ زیادہ دیر نہ کرنا پہلی بار اتنے بڑے ہوٹل میں داخل ہو رہی تھی تو اپنا آپ کمتر لگ رہا تھا اور حارث و سجل کا ساتھ اچھا۔
”کنسرٹ کس طرف ہے یہاں تو کوئی بینر بھی نہیں؟“
”ارے اتنا بڑا ہوٹل ہے۔ دوسری طرف ہے چلو چلتے ہیں۔ “
وہ اسے نسبتاً ہوٹل کے سنسان حصہ میں لے آئے۔
”ارے یہ کیا؟“وہاں چند لڑکے لڑکیاں کرسٹل جیسی چیز کے ساتھ موجود تھے۔
”سجل یہ کیا ہے؟“
اس نے دکھ سے بھرے لہجے میں کہا،
” ارے زندگی کا لطف ہے لو نہ۔ یہ سب دوست ہیں ہمارے۔“
” تم نے تو کہا تھا کہ کنسرٹ ہے؟“
” ارے کنسرٹ بھی ہو جائے گا میری جان۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے ارم کا ہاتھ پکڑنا چاہا، جسے اس نے چھڑا لیا۔
” ہٹو جانے دو مجھے۔“
,”جاؤ گی کیسے راستہ آتا ہے؟“ حارث نے مکارانہ انداز میں کہا، ”ارے مغرور لڑکی، ایک بار چکھو تو سب بھول جاؤ گی۔“ یہ کہہ کر اس نے کرسٹل کے چند ٹکڑے اپنے ہتھیلی پر ڈال کر اس کے منہ کے قریب کرنا چاہے۔ اس نے پوری طاقت سے اپنے ہاتھ سے اس کا ہاتھ جھٹکا اور باہر کو بھاگی۔ ’اففف یہ سانپ، اففف یہ بچھو، تو یہ تھے ، یہ تھی میرے خواب کی حقیقت، میرا مہربان رب مجھے خواب میں یہ سب دکھا کر مجھے روک رہا تھا لیکن میں غافل رہی۔ پر وہ دستِ شفقت کہاں ہے جس نے مجھے اپنے حصار میں لیتے ہوئے ان سانپ، اژدھوں اور بچھوؤں کو مار بھگایا تھا۔ وہ تیز تیز چلتی جا رہی تھی اس کے پیچھے حارث و سجل بھی تھے جو اسے روک رہے تھے۔ وہ خوفزدہ ہو کر چکرا کر گرنے ہی والی تھی کہ کسی کے مضبوط ہاتھوں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس نے بند ہوتی آنکھوں ساتھ اس چہرے پر نظر ڈالی تو وہ کوئی اور نہیں اس کا ماں جایا تھا۔ وہی خواب والا دست شفقت اور مضبوط حصار جس میں وہ خود کو محفوظ پا کر بےدم ہو گئی تھی۔ جب اس نے آنکھ کھولی تو گھر میں تھی، ابھی وہ خوف سے لرز ہی رہی تھی کہ امی نے اسے پیار سے سینے سے لگایا، بھیا نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، :”میری معصوم بہن کئی مرتبہ تمہیں سجل سے دور رہنے کو کہا، اس لئے نہیں کہ مجھے اس کی سرگرمیوں کا علم تھا۔ ہوتا تو بخدا کبھی ملنے بھی نہ دیتا۔ بلکہ اس لیے کہ میری چھٹی حس مجھے خبردار کرتی تھی۔
یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ عارف کی بہن کے ذریعہ مجھے پتہ چلا کہ تم اس کے ساتھ کسی کنسرٹ میں گئی تھی، آج بھی جا رہی ہو، تو تمہارے پیچھے بروقت پہنچ گیا، اور اللہ نے کسی بڑے نقصان سے بچا لیا۔“
وہ جو بھیا سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ آپ کیسے پہنچے انہوں نے خود ہی جواب دے دیا۔ ”امی مجھے معاف کر دیں۔ آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گی۔ پلیز!۔ “ وہ رو رو کر امی سے معافی مانگ رہی تھی۔ امی کے پیار کے سمندر میں بھیگی وہ سوچ رہی تھی کہ:” کتنی نادان تھی میں، جو سجل کی مکر و فریب کی دنیا اور وقتی خوشیوں پر رشک کرتی تھی جبکہ میری عزت و خوشیوں کے رکھوالے میرے گھر والے ہیں۔ “
اسے اپنی امی و بھیا کی محبت و مان کے آگے ہر شے ہیچ لگی، اس نے تہیہ کر لیا آئندہ سجل سے دور رہنے کا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.