تحریر: عصمت اسامہ

” “مام ،آج آپ نے آنے میں دیر کردی ،میں کالج گیٹ پر پندرہ منٹ سے دھوپ میں کھڑی ہوں” صبا نے قدرے خفگی سے کہا .

“اوہ بیٹا ،چھاؤں میں کھڑی ہوجاتی ،راستے میں ٹریفک جام تھا ” مام نے جوس کارنر سے دو گلاس لیے اور گاڑی کا اے سی چلادیا ۔اب گاڑی فراٹےبھر رہی تھی۔ صبا نے سیٹ سے سر ٹکایا اور آنکھیں بند کرلیں۔مام بہت سموتھ ڈرائیو کررہی تھیں کہ یکایک بریک لگادی ۔ صبا نے سٹپٹا کے آنکھیں کھولیں۔ مام نے ونڈو مرر نیچے کر کے کسی کو آواز لگائی: نوری ! نوری !،پھر تیزی سے گاڑی سروس روڈ پہ ڈال دی۔

” نوری کون ہے مام ؟”صبا نے پوچھا ۔ مام تیزی سے دائیں بائیں سڑکوں پہ گاڑی گھما رہی تھیں لیکن جس کی تلاش تھی وہ نہ ملی۔اب وہ پھر اسی روڈ پر آگئیں جو گھر کو جاتی تھی۔” مام بتائیں بھی کہ نوری کون ہے جسے آپ کئ بار سڑکوں پر آواز دیتی ہیں لیکن وہ نہیں ملتی” ،صبا نے پوچھا۔

“نوری ،میرے آفس میں کام کرتی تھی،مڈل کلاس سے تعلق تھا لیکن بہت قابل محنتی لڑکی تھی ،مجھ سے کافی جونئیر تھی ،بہت عزت سے ملتی تھی ” یہ کہہ کے مام خاموش ہوگئیں جیسے تصور کی اسکرین پر یادیں گردش کر رہی ہوں۔

” پھر کیا ہوا ؟”صبا پوچھے بغیر رہ نہ سکی۔

” نوری کو جو پراجیکٹ دیا جاتا وہ حیرت انگیز طور پر اسے عمدہ انداز میں پایہء تکمیل تک پہنچادیتی ،اس کی پراگرس رپورٹ نے باس کو بہت متاثر کیا اور انھوں نے کئ بار میٹنگ میں مجھ سے نوری کا ذکر بھی کیا لیکن اب یہ پراگرس نجانے کیوں مجھے چبھنے لگی تھی ،مجھے ایک خوف سا رہنے لگا کہ نوری ترقی پا کے کہیں میرے برابر نہ آجاۓ یا پھر باس اسے میری سیٹ نہ دے دیں” گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے مام کے چہرے پر کئ طرح کے رنگ آرہے تھے اور صبا حیرت سے یہ سب سن رہی تھی۔ 

” پھر میں نے خواہ مخواہ اس کے کام میں نقص نکالنے شروع کردئیے ،اس کے سامنے میں بہت با اخلاق تھی مگر باس کے ساتھ میٹنگ میں میرا فوکس اس پوائنٹ پر رہنے لگا کہ مجھے نوری کے اچھے کام کو داغ دار اور ناقص بنا کے پیش کرنا ہے ،باس میری بات پر یقین کرتے تھے کیوں کہ میں کئ برس سے اس کمپنی کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ ایک بار ہیڈ آفس سے کال آئی کہ نئے پراجیکٹ کی بریفنگ اور پریزینٹیشن مس نوری دیں گی ،یہ سچویشن میرے لئے ناقابلِ برداشت تھی کہ وہ لڑکی جسے جوائن کئے چند ماہ ہی ہوئے ہیں وہ میرے لیول تک آجاۓ،اس لئے میں نے اپنی دو کولیگز کو نوری کے پیچھے لگا دیا کہ وہ نوری کو غلط اعدادوشمار فراہم کریں ، نوری کی بریفنگ میں غلطیاں ہوں اور ایسا ہی ہوا ۔میں نے میٹنگ کے دوران تو کچھ نہ کہا لیکن بعد میں اصل اعدادوشمار اور نوری کے پیش کردہ غلط اعدادوشمار باس کے سامنے رکھ دئیے “-مام نے توقف کیا۔

صبا کچھ سمجھنے اور نہ سمجھنے کے انداز میں آنکھیں پھاڑ کے مام کو دیکھ رہی تھی ،اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کی مہربان ماں کسی کے ساتھ ایسے کرسکتی ہیں لیکن اب وہ یہ متھ سلجھانا چاہتی تھی لہذا کہانی نے اسے سسپنس میں مبتلا کردیا تھا۔

مام نے اس کی کیفیت بھانپتے ہوئے بات آگے بڑھائی ” پھر ایک دن یوں ہوا کہ ہماری کمپنی کے ایک نئے پراجیکٹ کی اوریینٹیشن تھی ،اس دن میں نے ایک رکشہ ڈرائیور کو ہائر کیا کہ جس راستے سے نوری نے آنا ہوتا ہے وہاں کھڑا ہوجاۓ اور جب نوری وہاں سے گذرے تو اس کے پاس سے اتنی سپیڈ سے رکشہ نکالے کہ کیچڑ کی چھینٹیں نوری کے لباس پر پڑ جائیں اور اسے واپس گھر جانا پڑے۔میں اپنے آفس میں ڈرائیور کے فون کا انتظار کر رہی تھی کہ تمہاری دادی کی کال آگئ کہ وہ وہاں سے گذرتے ہوۓ میرے آفس آرہی ہیں، اس اچانک افتاد نے مجھے پریشان کردیا کیوں کہ میں آفس میں پینٹ شرٹ پہنتی تھی جب کہ یہ لباس اگر تمہاری دادی دیکھ لیتیں تو مجھے کبھی وہ جاب کرنے نہ دیتیں۔میں اسی شش و پنج میں تھی کہ اب کیا کرنا چاہئیے کہ شیشے کی دیوار کے دوسری طرف مجھے نوری نظر آئ ،اس کے لباس پر کیچڑ کے چھینٹے تھے مگر وہ تمہاری دادی کو باتوں میں لگا کے میرے آفس کی طرف آنے سے روک رہی تھی ،میں نے ایک بار باتوں باتوں میں اسے بتایا تھا کہ میری ساس بہت وضع دار خاتون ہیں اور میرے اس آفس ڈریس کا انھیں علم ہوجاۓ تو وہ مجھے اس جاب سے نکلوا کے ہی چھوڑیں ” مام نے گہرا سانس لیا۔

صبا نے سوالیہ انداز سے مام کو دیکھا اور پوچھا “آگے کیا ہوا مام ؟”.

“پھر مجھے اتنا وقت مل گیا کہ میں نے اپنی ایک کولیگ سے ڈریس بدل لیا اور جب تمہاری دادی میرے آفس میں آئیں تو میں قمیض شلوار دوپٹےمیں تھی اور نوری کی وجہ سے میرا پردہ رہ گیا ” مام نے کہا ۔

” اس دن باس نے نوری کی بہت انسلٹ کی اور اسے جاب سے فارغ کردیا گیا ، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ،میرا ضمیر جج بن کر میرے مد مقابل کھڑا ہے اور میں مجرم بنی ،کٹہرے میں کھڑی ہوں ،وہ روز مجھے جھنجھوڑ کے پوچھتا ہے کہ تم نے نوری کے ساتھ ایسا کیوں کیا ؟نوری نے میرا پردہ رکھا ،جب کہ میں اس کے صاف کردار پر کیچڑ اچھالتی رہی، میں روزانہ نوری کو تلاش کرتی ہوں کہ وہ انھی سڑکوں پر کہیں مجھے نظر آجاۓ تو اس سے معافی مانگ لوں مگر وہ نہیں ملتی، وہ کہیں نہیں ملتی۔۔۔۔” مام نے گاڑی روک کر اسٹیرنگ سے سر ٹکا لیا۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact